علم کی شمع جلائے رکھنا
شہروں کی کچھ خاص چیزیں ان کی نسبت سے یا شہر ان چیزوں کی نسبت سے مشہور ہوتے ہیں
شہروں کی کچھ خاص چیزیں ان کی نسبت سے یا شہر ان چیزوں کی نسبت سے مشہور ہوتے ہیں، کہیں کوئی مٹھائی، کہیں کوئی دستکاری، کوئی ہنر، ادبی سرگرمیاں، کاشتکاری کے علاقوں کی قربت یا کچھ اور اسی طرح شہر بدنام بھی ہوتے ہیں۔ بد امنی، چوری چکاری، گندگی، یا لوگوں کے رویے۔
سندھ کے شہر کسی زمانے میں زیادہ تر تعلیمی اداروں کے حوالے سے مشہور ہوا کرتے تھے جن میں شکارپور، میرپورخاص، حیدرآباد، کراچی، سکھر خاص طور پر بہت معروف تھے۔ لاہور، پشاور، راولپنڈی، کوئٹہ، ملتان، قلات، خضدار، سیالکوٹ، بہاولپور، ایبٹ آباد، ہری پور اور بہت سے چھوٹے شہر بہت جانے پہچانے ہیں۔ کچھ گزشتہ نصف صدی میں معروف اور اب شاید معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں یعنی وجہ شہرت شاید وہ نہ رہے۔
حیدرآباد شہر کے تعلیمی ادارے جواب نصف صدی گزر جانے کے بعد قدیمی اداروں میں شمار ہونے لگیں گے ان کے ساتھ ساتھ جو صدی پوری کرنے کے قریب ہیں یا صدی سے آگے جا چکے ہیں۔
حیدرآباد میں لڑکیوں کی تعلیم کے ادارے زبیدہ گرلز کالج، خان بہادر گرلز کالج، اب قاسم آباد میں قائم گرلز کالج اور شاہ لطیف گرلز کالج قابل ذکر ہیں۔پورے ملک میں تعلیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور رکھا جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جس ملک کے بجٹ کا ''خیراتی فی صد'' تعلیم پر خرچ ہوتا ہو، وہ ملک کتنا خوش قسمت ہے کہ پھر بھی اس ملک سے قابل عزت، قابل ذکر خواتین نے تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں مقام حاصل کیا، اگر بڑے خاندانوں میں ہونا یا بڑے خاندانوں سے تعلق ہی سب کچھ ہے تو شاید ایسے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
مگر بہت سی ایسی خواتین بھی نامور ہوئیں اور ہیں جن کا بنیادی طور پر بڑے خاندانوں سے تعلق نہیں ہے یعنی مال و دولت جائیداد وغیرہ۔ علم کی دولت تو وہ تو آج بھی بے مثال ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دولت نہیں کر سکتی اور کل بھی اس نے اپنے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ بانی پاکستان کے ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو بہت بڑے خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر علم کے میدان میں وہ بہت بڑی حیثیتوں کے مالک تھے، ہم حیدرآباد کے کالجوں کا ذکر کر رہے تھے ان کالجوں کو برقرار رہنے میں بہت دشواریوں کا سامنا رہا ہے بہت سی مافیاز نے ان کالجوں کو بھی کچھ سے کچھ کرنے کی بہت کوشش کی مگر ان کالجوں کی طالبات نے اپنے عزم و ہمت سے ان کالجوں کو قائم رکھنے میں خاص کردار ادا کیا۔
تعلیم کے میدان میں بہت سی شخصیات آج بھی لوگوں کے دلوں میں احترام کا درجہ رکھتی ہیں چاہے۔ ان کے عمل نے انھیں وہ مقام عطا کیا ہے کہ جب تک یہ تعلیمی ادارے قائم ہیں ان لوگوں کو یاد کیا جاتا رہے گا اور لوگ ان کے اس جذبے سے مہمیز ہوتے رہیں گے۔ حاذق علی اور بیگم عمر حاذق علی کے نام اس شہر کے لیے اجنبی نہیں۔ لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے قائم کیے ہوئے ادارے آج شان سے سر اونچا کیے کھڑے ہیں اور ان کی یاد دلا رہے ہیں۔
پورے سندھ میں GHOST SCHOOLS کا جال بچھا ہوا ہے اور GHOST TEACHERS بھی سارے معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ میں ہزاروں اسکول قائم ہیں اور لاکھوں اساتذہ ان اسکولوں میں کروڑوں طالب علموں کو تعلیم دے رہے ہیں مگر یہ سب دیوانے کا خواب ہے۔ اسکولوں کی تعلیم کا یہ حال ہے کہ گاؤں میں کالج کہاں سے بنیں گے اور شہروں کی جانبRural سےUrbanنقل مکانی کا سلسلہ کیسے رکے گا؟
جو حکومت نام نہاد دعوے کرتی جو کہ وہ لوگوں کو Door Steps پر سہولتیں مہیا کرے گی وہ اپنے ایک علاقے کے بچوں کی جانیں بچانے میں ناکام ہے اور قابل وزیر صحت فرماتے ہیں کہ بچے تو دنیا بھر میں مرتے ہیں۔ تھر میں کیا خاص بات ہے کہ بچے نہ مریں یہ ان کی بات کا مقصد سمجھ میں آتا ہے اخبارات بھوک کی تصاویر پیش کررہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے بچے نہیں مر رہے وجہ کوئی اور ہے بلکہ اور کئی وجوہات ہیں۔
خیر تو بات ہورہی تھی شاہ عبداللطیف گرلز کالج کی جو شاہ لطیف گرلز کالج ہے، لطیف آباد نمبر6 میں قائم اور موجود ہے یہ ادارہ حاذق علی اور بیگم عمر حاذق علی نے قائم کیا تھا جو 1947ء میں نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تھے اور لطیف آباد 9نمبر میں قیام سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی بڑی مالی حیثیت کے مالک نہ تھے ورنہ ڈیفنس میں بنگلہ ہوتا اور وہ زمین جائیداد کا کوئی کام کرنے اور اپنی حیثیت میں اضافہ کرتے مگر ایسی جگہ رہ کر انھوں نے علم کی شمع جلائی اور کالج قائم کیا جو آج بھی چل رہا ہے۔
اس کالج کو کئی بار بحرانوں کا سامنا رہا اور کئی بار یوں لگا کہ یہ کالج باقی نہ رہ سکے گا مگر اس کی حوصلہ مند طالبات نے اپنے کالج کو بچایا اور اسے جان پر کھیل کر برقرار رکھا اور اب یہ ایک پچاس سالہ تناور درخت بن چکا ہے۔
بیگم عمر حاذق علی سے موجودہ پرنسپل شاہدہ پروین تک سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا ہے، میں نے بیگم حاذق علی کو پسینہ پونچھتے دیکھا ہے کہ وہ ریڈیو پر بھی تقریر کرنے تشریف لایا کرتی تھیں۔ اب پرنسپل کا آفس ایئرکنڈیشنڈ ہے۔خیر یہ تو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے میرا مقصد ادارے کی ترقی بیان کرنا ہے اور دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بیگم عمر حاذق علی کی گرمیوں کے دن اور سردیوں کے شب و روز کی محنت کا صلہ قوم کو ملا ہے۔
وہ طالبات جنھوں نے اس کالج کو بچانے میں کردار ادا کیا کہ جو زمین اس ادارے کو ملی تھی وہ بلڈر مافیا نے کوشش کی تھی کہ ان سے چھین لی جائے اور جن TENTS میں طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھیں وہ جلا دیے جائیں تاکہ علم کی شمع بجھ جائے وہ ان طالبات نے بچائی اور آج وہ طالبات اس کالج کی اساتذہ بھی ہیں۔ یہ ادارہ ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ 7 اپریل کو اس کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی، میں دور اور خواتین کے ساتھ اس کے آخری دن ''تمثیل'' کے مقابلوں کا ایک جج تھا۔
اس تقریب کی مہمان خصوصی ایک اور شخصیت جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا اور بول رہا ہے علم و فن کے ایوانوں میں مہتاب اکبر راشدی ممبر صوبائی اسمبلی تھیں۔ ریڈیو کے حوالے سے ہم ایک دوسرے سے واقف ہیں ہم اردو کے صداکار ہے۔ مہتاب اکبر راشدی اردو ڈراموں میں بے حد خوبصورت کردار نگاری اور آواز کے پیچ و خم سے حقیقت کے رنگ ابھارا کرتی تھیں۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے انھوں نے ریڈیو اور زبیدہ کالج کے اپنی زندگی میں اہم کردار کا حوالہ اپنی تقریر میں دیا۔ بڑی بات ہے یہ ایک لوگ ان جگہوں پر پہنچ کر اپنے STARTING POINT کو فراموش نہ کریں یہ جذبہ احسان مندی ہے اور لائق تعریف ہے۔
کاش ہمارے اسکول کالج حقیقتاً آزاد ہوجائیں، اقربا پروری، سیاست، لالچ اور بد دیانتی سے آزاد ہمارے اساتذہ میں غیرت پیدا ہوجائے اور وہ GHOST TEACHER نہ بنیں اور عوام میں وہ طاقت پیدا ہوجائے کہ وہ سرکاری اسکول جو ان کے لیے ہیں وڈیروں سے چھین لیں اپنے ادارے آزاد کرا لیں اور تعلیم کے لیے وہی جد وجہد کریں جو شاہ لطیف گرلز کالج لطیف آباد کی طالبات نے کیں تو ہر جگہ ایسے ادارے قائم ہو جائیں گے اور کاش حکومت کو بھی ہوش آجائے اور وہ سرکاری ادارے NGOs کو نہ دیں جو ان کو مستقل کمائی کا مرکز بنا لیں گے اور کل غریب کی بیٹی اور بیٹا ان اداروں میں قدم بھی نہ رکھ سکیں گے۔ لائق مبارکباد ہیں شاہ لطیف گرلز کالج کے وہ لوگ جنھوں نے گزشتہ سے موجودہ کو پیوستہ رکھا ہے اور جو آیندہ میں قدم رکھنے والے ہیں۔ خوش مزاج لوگو! خدا آپ کو کامیاب کرے۔
سندھ کے شہر کسی زمانے میں زیادہ تر تعلیمی اداروں کے حوالے سے مشہور ہوا کرتے تھے جن میں شکارپور، میرپورخاص، حیدرآباد، کراچی، سکھر خاص طور پر بہت معروف تھے۔ لاہور، پشاور، راولپنڈی، کوئٹہ، ملتان، قلات، خضدار، سیالکوٹ، بہاولپور، ایبٹ آباد، ہری پور اور بہت سے چھوٹے شہر بہت جانے پہچانے ہیں۔ کچھ گزشتہ نصف صدی میں معروف اور اب شاید معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں یعنی وجہ شہرت شاید وہ نہ رہے۔
حیدرآباد شہر کے تعلیمی ادارے جواب نصف صدی گزر جانے کے بعد قدیمی اداروں میں شمار ہونے لگیں گے ان کے ساتھ ساتھ جو صدی پوری کرنے کے قریب ہیں یا صدی سے آگے جا چکے ہیں۔
حیدرآباد میں لڑکیوں کی تعلیم کے ادارے زبیدہ گرلز کالج، خان بہادر گرلز کالج، اب قاسم آباد میں قائم گرلز کالج اور شاہ لطیف گرلز کالج قابل ذکر ہیں۔پورے ملک میں تعلیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور رکھا جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جس ملک کے بجٹ کا ''خیراتی فی صد'' تعلیم پر خرچ ہوتا ہو، وہ ملک کتنا خوش قسمت ہے کہ پھر بھی اس ملک سے قابل عزت، قابل ذکر خواتین نے تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں مقام حاصل کیا، اگر بڑے خاندانوں میں ہونا یا بڑے خاندانوں سے تعلق ہی سب کچھ ہے تو شاید ایسے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
مگر بہت سی ایسی خواتین بھی نامور ہوئیں اور ہیں جن کا بنیادی طور پر بڑے خاندانوں سے تعلق نہیں ہے یعنی مال و دولت جائیداد وغیرہ۔ علم کی دولت تو وہ تو آج بھی بے مثال ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دولت نہیں کر سکتی اور کل بھی اس نے اپنے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ بانی پاکستان کے ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو بہت بڑے خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر علم کے میدان میں وہ بہت بڑی حیثیتوں کے مالک تھے، ہم حیدرآباد کے کالجوں کا ذکر کر رہے تھے ان کالجوں کو برقرار رہنے میں بہت دشواریوں کا سامنا رہا ہے بہت سی مافیاز نے ان کالجوں کو بھی کچھ سے کچھ کرنے کی بہت کوشش کی مگر ان کالجوں کی طالبات نے اپنے عزم و ہمت سے ان کالجوں کو قائم رکھنے میں خاص کردار ادا کیا۔
تعلیم کے میدان میں بہت سی شخصیات آج بھی لوگوں کے دلوں میں احترام کا درجہ رکھتی ہیں چاہے۔ ان کے عمل نے انھیں وہ مقام عطا کیا ہے کہ جب تک یہ تعلیمی ادارے قائم ہیں ان لوگوں کو یاد کیا جاتا رہے گا اور لوگ ان کے اس جذبے سے مہمیز ہوتے رہیں گے۔ حاذق علی اور بیگم عمر حاذق علی کے نام اس شہر کے لیے اجنبی نہیں۔ لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے قائم کیے ہوئے ادارے آج شان سے سر اونچا کیے کھڑے ہیں اور ان کی یاد دلا رہے ہیں۔
پورے سندھ میں GHOST SCHOOLS کا جال بچھا ہوا ہے اور GHOST TEACHERS بھی سارے معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ میں ہزاروں اسکول قائم ہیں اور لاکھوں اساتذہ ان اسکولوں میں کروڑوں طالب علموں کو تعلیم دے رہے ہیں مگر یہ سب دیوانے کا خواب ہے۔ اسکولوں کی تعلیم کا یہ حال ہے کہ گاؤں میں کالج کہاں سے بنیں گے اور شہروں کی جانبRural سےUrbanنقل مکانی کا سلسلہ کیسے رکے گا؟
جو حکومت نام نہاد دعوے کرتی جو کہ وہ لوگوں کو Door Steps پر سہولتیں مہیا کرے گی وہ اپنے ایک علاقے کے بچوں کی جانیں بچانے میں ناکام ہے اور قابل وزیر صحت فرماتے ہیں کہ بچے تو دنیا بھر میں مرتے ہیں۔ تھر میں کیا خاص بات ہے کہ بچے نہ مریں یہ ان کی بات کا مقصد سمجھ میں آتا ہے اخبارات بھوک کی تصاویر پیش کررہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ غذائی قلت کی وجہ سے بچے نہیں مر رہے وجہ کوئی اور ہے بلکہ اور کئی وجوہات ہیں۔
خیر تو بات ہورہی تھی شاہ عبداللطیف گرلز کالج کی جو شاہ لطیف گرلز کالج ہے، لطیف آباد نمبر6 میں قائم اور موجود ہے یہ ادارہ حاذق علی اور بیگم عمر حاذق علی نے قائم کیا تھا جو 1947ء میں نقل مکانی کرکے پاکستان آئے تھے اور لطیف آباد 9نمبر میں قیام سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی بڑی مالی حیثیت کے مالک نہ تھے ورنہ ڈیفنس میں بنگلہ ہوتا اور وہ زمین جائیداد کا کوئی کام کرنے اور اپنی حیثیت میں اضافہ کرتے مگر ایسی جگہ رہ کر انھوں نے علم کی شمع جلائی اور کالج قائم کیا جو آج بھی چل رہا ہے۔
اس کالج کو کئی بار بحرانوں کا سامنا رہا اور کئی بار یوں لگا کہ یہ کالج باقی نہ رہ سکے گا مگر اس کی حوصلہ مند طالبات نے اپنے کالج کو بچایا اور اسے جان پر کھیل کر برقرار رکھا اور اب یہ ایک پچاس سالہ تناور درخت بن چکا ہے۔
بیگم عمر حاذق علی سے موجودہ پرنسپل شاہدہ پروین تک سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا ہے، میں نے بیگم حاذق علی کو پسینہ پونچھتے دیکھا ہے کہ وہ ریڈیو پر بھی تقریر کرنے تشریف لایا کرتی تھیں۔ اب پرنسپل کا آفس ایئرکنڈیشنڈ ہے۔خیر یہ تو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے میرا مقصد ادارے کی ترقی بیان کرنا ہے اور دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بیگم عمر حاذق علی کی گرمیوں کے دن اور سردیوں کے شب و روز کی محنت کا صلہ قوم کو ملا ہے۔
وہ طالبات جنھوں نے اس کالج کو بچانے میں کردار ادا کیا کہ جو زمین اس ادارے کو ملی تھی وہ بلڈر مافیا نے کوشش کی تھی کہ ان سے چھین لی جائے اور جن TENTS میں طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھیں وہ جلا دیے جائیں تاکہ علم کی شمع بجھ جائے وہ ان طالبات نے بچائی اور آج وہ طالبات اس کالج کی اساتذہ بھی ہیں۔ یہ ادارہ ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ 7 اپریل کو اس کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی، میں دور اور خواتین کے ساتھ اس کے آخری دن ''تمثیل'' کے مقابلوں کا ایک جج تھا۔
اس تقریب کی مہمان خصوصی ایک اور شخصیت جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا اور بول رہا ہے علم و فن کے ایوانوں میں مہتاب اکبر راشدی ممبر صوبائی اسمبلی تھیں۔ ریڈیو کے حوالے سے ہم ایک دوسرے سے واقف ہیں ہم اردو کے صداکار ہے۔ مہتاب اکبر راشدی اردو ڈراموں میں بے حد خوبصورت کردار نگاری اور آواز کے پیچ و خم سے حقیقت کے رنگ ابھارا کرتی تھیں۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے انھوں نے ریڈیو اور زبیدہ کالج کے اپنی زندگی میں اہم کردار کا حوالہ اپنی تقریر میں دیا۔ بڑی بات ہے یہ ایک لوگ ان جگہوں پر پہنچ کر اپنے STARTING POINT کو فراموش نہ کریں یہ جذبہ احسان مندی ہے اور لائق تعریف ہے۔
کاش ہمارے اسکول کالج حقیقتاً آزاد ہوجائیں، اقربا پروری، سیاست، لالچ اور بد دیانتی سے آزاد ہمارے اساتذہ میں غیرت پیدا ہوجائے اور وہ GHOST TEACHER نہ بنیں اور عوام میں وہ طاقت پیدا ہوجائے کہ وہ سرکاری اسکول جو ان کے لیے ہیں وڈیروں سے چھین لیں اپنے ادارے آزاد کرا لیں اور تعلیم کے لیے وہی جد وجہد کریں جو شاہ لطیف گرلز کالج لطیف آباد کی طالبات نے کیں تو ہر جگہ ایسے ادارے قائم ہو جائیں گے اور کاش حکومت کو بھی ہوش آجائے اور وہ سرکاری ادارے NGOs کو نہ دیں جو ان کو مستقل کمائی کا مرکز بنا لیں گے اور کل غریب کی بیٹی اور بیٹا ان اداروں میں قدم بھی نہ رکھ سکیں گے۔ لائق مبارکباد ہیں شاہ لطیف گرلز کالج کے وہ لوگ جنھوں نے گزشتہ سے موجودہ کو پیوستہ رکھا ہے اور جو آیندہ میں قدم رکھنے والے ہیں۔ خوش مزاج لوگو! خدا آپ کو کامیاب کرے۔