دیکھتے جایئے
عمرا ن نے ایک بار پھر انکشاف کیا ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف کے درمیان میچ فکس ہے
وزیر ستان امن مارچ اپنے طور پر کام ہی اتنا ''اُونچا'' تھا کہ اُس کا ذکر مزید کچھ عرصے چلے گا۔
اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی طرف سے تازہ ترین تبصرہ یہ ہے کہ ایک ہفتے میں پتہ چل جائے گا کہ وزیرستان مارچ کیوں کیا گیا؟ لازمی طور پر میاں صاحب کو ابھی سے اس بارے میں کافی کچھ معلوم ہوگا ۔ گویا اب تو بس '' پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ''۔ فی الحال انتظار فرمایئے اور دیکھتے جایئے۔
میاں نواز شریف اور عمران خان میں '' محبتوں'' کا تبادلہ کوئی نئی بات نہیں۔ عمرا ن نے ایک بار پھر انکشاف کیا ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف کے درمیان میچ فکس ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا یہ ترجمہ زیادہ آسان ہے اور ساتھ ہی زیادہ '' کیچی'' بھی۔ گذشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ زرداری اور نوازشریف دونوں اگلا الیکشن مل کر لڑیں گے۔ ظاہر ہے ، یہ '' پیش گوئی '' نہیں ، دل کا غبار اور غیرفنکارانہ قسم کا طنز ہے، ورنہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ نئی انتخابی صف بندی میں قاف لیگ اور پیپلزپارٹی ایک طرف ہیں اور نوازشریف دوسری طرف۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیںکہ پیپلزپارٹی نوازشریف سے ملکر الیکشن لڑنا چاہتی ہے نہ مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی سے انتخابی اتحاد بنا کر اپنا صفایا کروانا پسند کرے گی ۔
ہوسکتا ہے ، عمران خان عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش میں ہوں کہ وہ اتنی بڑی انتخابی طاقت بن چکے ہیں کہ ان سے بچنے کیلیے نوازشریف اور زرداری کے پاس اکٹھے ہو کر الیکشن لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ عمران خان اپنی مقبولیت سے متعلق غیر ملکی سرویز کو بہت فوقیت دیتے ہیں۔پورا نہیں تو آدھا یقین ضرور کرلیتے ہیں۔
آئی آر آئی کے سروے کو انھوں نے آدھا قبول کرلیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اب وزیرستان نجی سروے کے بعد انھیں پکا یقین ہوگیا ہو کہ امن مارچ کے بعد اُن کا یہ گراف واقعی اتنا بلند ہوگیا ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی یا انتخابی اتحاد کرنا پڑ جائے گا۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے نوازشریف کو چیلنج کیا کہ اگر وہ بہادر ہیں تو وزیرستان جا کے دکھائیں۔ مزے کی اِس بات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ خود بھی وزیرستان نہیں گئے۔ یہ کہہ کر واپس آگئے کہ فوج نے اجازت نہیں دی۔ یہ کام تو ہر وہ سیاسی لیڈر جس کی پارٹی میں بڑی بڑی گاڑیوں کی تعداد پچاس سے 100 تک ہو، آسانی سے کرسکتا ہے۔ قافلہ بنا کر وزیرستان کی طرف روانہ ہو اور پھر وزیرستان کی دہلیز کو چھُو کر یہ کہتے ہوئے واپس آ جائے کہ فوج نے اجازت نہیں دی۔ اور پھر''بہادری'' ناپ کر دکھانے لگے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان کے مخالف تجزیہ نگاروں نے میچ فکسنگ کا الزام خود عمران پر لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ بہت پہلے طے ہوچکا تھا کہ مارچ ٹانک سے آگے نہیں جائے گا وہیں جلسہ ہوگا اور وہیں سے واپسی ہوگی یعنی ساری تیاریاں بس ٹانک کے لیے ہی تھیں۔ عمران خان جانتے ہیں کہ آصف زرداری اور نوازشریف کسی بھی نکتے پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تاہم ان کا الزام اس حد تک درست ہے کہ جب بھی حکومت کے گرنے کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے،نوازشریف کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی قدم اُٹھا کر اُسے بچاتے ہیں۔ یہ '' وجہ'' اتنی زیادہ غیر حقیقی بھی نہیں ہے۔ ڈیڑھ دوبرس پہلے کی بات ہے متحدہ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور نوازشریف کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ نوازشریف اسی وقت عدم اعتماد تحریک لے آتے تو اس کا کامیاب ہونا یقینی تھا۔
لیکن ہوا یہ کہ اس پیغام کا مثبت جواب دینے کے بجائے مسلم لیگ کے رہنما چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں متحدہ پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں دونوں جماعتوں میں ٹی وی پر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور تحریک عدم اعتماد کی کوشش جو '' کسی جگہ'' سنجیدگی سے ہو رہی تھی وہ شوشہ بن کر دم توڑ گئی۔ یہ گلہ صرف عمران خان کو نہیں بعض تجزیہ نگاروں کو بھی ہے اس ضمن میں خاص طورسے عدلیہ بحالی کی تحریک کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر نوازشریف گوجرانوالہ میں نہ رُک جاتے تو اس رات حکومت ختم ہوسکتی تھی...ٹھیک۔ حکومت ختم ہوجاتی لیکن کیا اس کے بعد مڈٹرم الیکشن کا اعلان ہو جاتا؟ سب کو پتہ ہے کہ اس رات صرف حکومت نہیں۔ جمہوری نظام بھی ختم ہو جاتا اور پھر یا تو براہ راست مارشل لاء نافذ ہوتا یا فوج کی زیر قیادت کوئی سیٹ اپ آ جاتا ۔
نوازشریف اورآصف زرداری میں '' میچ فکسنگ'' اس حد تک ضرور ہے کہ جمہوریت کی بساط نہیں لپٹنے دی جائے گی اور اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی جائے گی تاکہ پاکستان میں حکومت بدلنے کا جمہوری طریقہ رائج ہو اور فوجی مداخلت کا امکان ختم ہو جائے۔ اس ایک نکتے پر اتفاق رائے کے سوا دونو ں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ داخلہ سے لے کر خارجہ اور معیشت سے لے کر معاشرتی پالیسی تک ہر میدان میں دونوں کی رائے، نقطہ نظر اور حکمت عملی یکسر مختلف ہے۔
عمران خان کے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل غصہ اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت غیر جمہوری انداز میں ختم کیوں نہیں ہو رہی۔ نوازشریف پر اکثر اوقات اُن کا قہر اسی وجہ سے نازل ہوتا ہے کہ اگر وہ ''فرینڈلی'' نہ ہوتے تو یہ حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ انتخابات کے بجائے کچھ اور ہو جاتا ، کسی انقلاب کو راستہ مل جاتا جو عمران خان کے '' انقلاب'' سے بالکل مختلف ہوتا۔ سچی بات یہ ہے کہ عمران خان جس طرز عمل کو زرداری ، نواز میچ فکسنگ کہہ رہے ہیں ، اسی میں ''سونامی'' کا بھی بھلا ہے۔ جس روز یہ حکومت غیر جمہوری طریقے سے ختم ہوئی تو سونامی ''بیٹھ ''جائے گا اور عمران خان کا وہ '' انقلاب'' بھی ''وزیرستان مارچ'' بن کر رہ جائے گا جسے برپا کر کے وہ ملک کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی طرف سے تازہ ترین تبصرہ یہ ہے کہ ایک ہفتے میں پتہ چل جائے گا کہ وزیرستان مارچ کیوں کیا گیا؟ لازمی طور پر میاں صاحب کو ابھی سے اس بارے میں کافی کچھ معلوم ہوگا ۔ گویا اب تو بس '' پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ''۔ فی الحال انتظار فرمایئے اور دیکھتے جایئے۔
میاں نواز شریف اور عمران خان میں '' محبتوں'' کا تبادلہ کوئی نئی بات نہیں۔ عمرا ن نے ایک بار پھر انکشاف کیا ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف کے درمیان میچ فکس ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا یہ ترجمہ زیادہ آسان ہے اور ساتھ ہی زیادہ '' کیچی'' بھی۔ گذشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ زرداری اور نوازشریف دونوں اگلا الیکشن مل کر لڑیں گے۔ ظاہر ہے ، یہ '' پیش گوئی '' نہیں ، دل کا غبار اور غیرفنکارانہ قسم کا طنز ہے، ورنہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ نئی انتخابی صف بندی میں قاف لیگ اور پیپلزپارٹی ایک طرف ہیں اور نوازشریف دوسری طرف۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیںکہ پیپلزپارٹی نوازشریف سے ملکر الیکشن لڑنا چاہتی ہے نہ مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی سے انتخابی اتحاد بنا کر اپنا صفایا کروانا پسند کرے گی ۔
ہوسکتا ہے ، عمران خان عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش میں ہوں کہ وہ اتنی بڑی انتخابی طاقت بن چکے ہیں کہ ان سے بچنے کیلیے نوازشریف اور زرداری کے پاس اکٹھے ہو کر الیکشن لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ عمران خان اپنی مقبولیت سے متعلق غیر ملکی سرویز کو بہت فوقیت دیتے ہیں۔پورا نہیں تو آدھا یقین ضرور کرلیتے ہیں۔
آئی آر آئی کے سروے کو انھوں نے آدھا قبول کرلیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اب وزیرستان نجی سروے کے بعد انھیں پکا یقین ہوگیا ہو کہ امن مارچ کے بعد اُن کا یہ گراف واقعی اتنا بلند ہوگیا ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی یا انتخابی اتحاد کرنا پڑ جائے گا۔ مزید مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے نوازشریف کو چیلنج کیا کہ اگر وہ بہادر ہیں تو وزیرستان جا کے دکھائیں۔ مزے کی اِس بات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ خود بھی وزیرستان نہیں گئے۔ یہ کہہ کر واپس آگئے کہ فوج نے اجازت نہیں دی۔ یہ کام تو ہر وہ سیاسی لیڈر جس کی پارٹی میں بڑی بڑی گاڑیوں کی تعداد پچاس سے 100 تک ہو، آسانی سے کرسکتا ہے۔ قافلہ بنا کر وزیرستان کی طرف روانہ ہو اور پھر وزیرستان کی دہلیز کو چھُو کر یہ کہتے ہوئے واپس آ جائے کہ فوج نے اجازت نہیں دی۔ اور پھر''بہادری'' ناپ کر دکھانے لگے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان کے مخالف تجزیہ نگاروں نے میچ فکسنگ کا الزام خود عمران پر لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ بہت پہلے طے ہوچکا تھا کہ مارچ ٹانک سے آگے نہیں جائے گا وہیں جلسہ ہوگا اور وہیں سے واپسی ہوگی یعنی ساری تیاریاں بس ٹانک کے لیے ہی تھیں۔ عمران خان جانتے ہیں کہ آصف زرداری اور نوازشریف کسی بھی نکتے پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تاہم ان کا الزام اس حد تک درست ہے کہ جب بھی حکومت کے گرنے کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے،نوازشریف کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی قدم اُٹھا کر اُسے بچاتے ہیں۔ یہ '' وجہ'' اتنی زیادہ غیر حقیقی بھی نہیں ہے۔ ڈیڑھ دوبرس پہلے کی بات ہے متحدہ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور نوازشریف کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ نوازشریف اسی وقت عدم اعتماد تحریک لے آتے تو اس کا کامیاب ہونا یقینی تھا۔
لیکن ہوا یہ کہ اس پیغام کا مثبت جواب دینے کے بجائے مسلم لیگ کے رہنما چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں متحدہ پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں دونوں جماعتوں میں ٹی وی پر گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور تحریک عدم اعتماد کی کوشش جو '' کسی جگہ'' سنجیدگی سے ہو رہی تھی وہ شوشہ بن کر دم توڑ گئی۔ یہ گلہ صرف عمران خان کو نہیں بعض تجزیہ نگاروں کو بھی ہے اس ضمن میں خاص طورسے عدلیہ بحالی کی تحریک کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر نوازشریف گوجرانوالہ میں نہ رُک جاتے تو اس رات حکومت ختم ہوسکتی تھی...ٹھیک۔ حکومت ختم ہوجاتی لیکن کیا اس کے بعد مڈٹرم الیکشن کا اعلان ہو جاتا؟ سب کو پتہ ہے کہ اس رات صرف حکومت نہیں۔ جمہوری نظام بھی ختم ہو جاتا اور پھر یا تو براہ راست مارشل لاء نافذ ہوتا یا فوج کی زیر قیادت کوئی سیٹ اپ آ جاتا ۔
نوازشریف اورآصف زرداری میں '' میچ فکسنگ'' اس حد تک ضرور ہے کہ جمہوریت کی بساط نہیں لپٹنے دی جائے گی اور اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی جائے گی تاکہ پاکستان میں حکومت بدلنے کا جمہوری طریقہ رائج ہو اور فوجی مداخلت کا امکان ختم ہو جائے۔ اس ایک نکتے پر اتفاق رائے کے سوا دونو ں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ داخلہ سے لے کر خارجہ اور معیشت سے لے کر معاشرتی پالیسی تک ہر میدان میں دونوں کی رائے، نقطہ نظر اور حکمت عملی یکسر مختلف ہے۔
عمران خان کے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصل غصہ اس بات پر ہے کہ موجودہ حکومت غیر جمہوری انداز میں ختم کیوں نہیں ہو رہی۔ نوازشریف پر اکثر اوقات اُن کا قہر اسی وجہ سے نازل ہوتا ہے کہ اگر وہ ''فرینڈلی'' نہ ہوتے تو یہ حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ انتخابات کے بجائے کچھ اور ہو جاتا ، کسی انقلاب کو راستہ مل جاتا جو عمران خان کے '' انقلاب'' سے بالکل مختلف ہوتا۔ سچی بات یہ ہے کہ عمران خان جس طرز عمل کو زرداری ، نواز میچ فکسنگ کہہ رہے ہیں ، اسی میں ''سونامی'' کا بھی بھلا ہے۔ جس روز یہ حکومت غیر جمہوری طریقے سے ختم ہوئی تو سونامی ''بیٹھ ''جائے گا اور عمران خان کا وہ '' انقلاب'' بھی ''وزیرستان مارچ'' بن کر رہ جائے گا جسے برپا کر کے وہ ملک کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔