عدالتی کمیشن

اس وقت ملک میں ہرادارہ اورہردرجہ کی حکومت کام کررہی ہے

raomanzarhayat@gmail.com

اس وقت ملک میں ہرادارہ اورہردرجہ کی حکومت کام کررہی ہے۔قانونی عدالتیں اپنے اوقات کے مطابق کُھل اورکام کررہی ہیں۔ مگر انصاف، عدل، یکساں انسانی حقوق اور معاشی مواقع محض کتابوںتک محدود رہ گئے ہیں۔ شفاف الیکشن بھی اسی طرح کی ایک کتابی بات ہے۔

ہرچیز ٹھیک ہے مگرجوہری طورپرکچھ بھی ٹھیک نہیں۔کسی آدمی سے پوچھیے کہ اپنے آپکودس برس کے بعد کہاں دیکھتاہے۔میں یہ جملہ دنیاوی اعتبارسے گزارش کررہا ہوں۔جواب خاموشی کے سواکچھ نہیں ملے گا۔اکثراوقات تویہ بھی کہاجاتاہے،کہ آپ دس برس کی بات کررہے ہیں' یہاں تواگلے دن کاکوئی پتہ نہیں کہ کیاہوجائے۔اگرمیری بات پریقین نہیں توآپ اپنے آپ سے یہی سوال پوچھیے۔ اگر جواب مل جائے تو مجھے بھی مطلع کیجیے گا۔

دس سال والاسوال کسی بھی مغربی ملک میں عام آدمی، تاجر، سیاستدان یاسرکاری ملازم سے کیجیے۔تحمل سے بتائیگاکہ اس کی تجارت اس مخصوص عرصہ کے بعدفلاں جگہ پر کھڑی ہوگی۔ وہ یہ بھی بتائیگا کہ دس برس کے بعد مالی حالات کیا ہوں گے اور ان کے مطابق وہ کئی ذاتی فیصلے کرچکاہوگا۔ہمارے اوران ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ ان لوگوں کواپنے نظام پرمکمل اعتماد ہے۔

انھیں یقین ہے کہ ملکی نظام میں اتنی مضبوطی ہے کہ طاقتورسے طاقتور شخص بھی انکاغیرقانونی طریقے سے بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ اکیلے بیٹھ کرغور کیجیے، تو آپکو ہمارے ہرمسئلہ کی بنیاد اور اس کا حل سمجھ میں آجائیں گے۔ ایک اورحقیقت آپکے سامنے رکھتا ہوں۔ غیرملکی شہریت دلوانے والی کاروباری کمپنیاں اورادارے ہمارے ہربڑے شہرمیں سیمینارکررہی ہیں۔ہرکمپنی وعدہ کرتی ہے کہ ایک محدودعرصے میں وہ آپکوبرطانیہ یاکسی بھی ترقی یافتہ ملک کی قانونی شہریت دلوادے گی۔

اس وقت ہرصاحب حیثیت شخص اس جانب رجوع کرچکاہے یاغور کررہا ہے۔کسی بھی حکومتی وعدے کے برعکس کوئی بھی امیرآدمی اپنے ملک میں رہنے کے لیے تیارنہیں۔پرسوں میرے پاس ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے انتہائی محترم اورمدبر صاحب تشریف لائے۔بتایاکہ انھیں گرین کارڈمل چکاہے اوراب انکااوران کے بچوں کامستقبل محفوظ ہے۔یہاں تک فرمانے لگے کہ اب تومیں شام کوصرف ایک بریف کیس کے ساتھ امریکا ہجرت کرسکتاہوں۔

اگرہمارے ملک کامقتدر طبقہ، تاجرحضرات،مذہبی علماء،سرکاری ملازم اوردیگرمتمول لوگ اپنے ملک میں رہنے کے لیے تیارنہیں تویہ ایک بھرپورمگرخاموش عدم اعتماد ہے۔بے یقینی کی یہ صورتحال میری دانست میںبڑھتی جائے گی۔اسکوآپ کسی بھی سیاسی لیڈرکے خوشنما بیانات سے تبدیل نہیں کرسکتے۔زمینی صورتحال اور ہمارے عمومی مسائل کسی بھی حکومت سے حل نہیں ہوئے۔

باقی باتیں، اعلانات،وعدے اورلچھے دارباتیں ہیں۔یہ چلتی رہیں گے۔میں سیاست اورروزمرہ کے سنسنی خیزمعاملات پر لکھنے سے گریزکرتاہوں۔اس کی کئی وجوہات ہیں،مگرایک وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے اندرونی معاملات کی چندفیصدآگاہی بھی ہوتی ہے۔اورمیں سچ کوجانتے ہوئے کوئی غیرحقیقی بات نہیں کرناچاہتا۔

اب میں اپنے اصل نفسِ مضمون کی طرف آتاہوں!اس وقت پاکستان میں اعلیٰ ترین عدالتی سطح کاایک تین رکنی کمیشن کام کررہاہے۔سپریم کورٹ کایہ بنچ ملک کے ایک سنجیدہ ترین مسئلہ کی حقیقت کوجاننے کی کوشش کررہاہے۔الیکشن میں منظم طریقے سے بے ضابطگی کی گئی ہے یا نہیں؟میں اس موضوع پرکئی صاحب علم،دانشوراوراعلیٰ پایہ کے وکلاء سے بات کرچکاہوں۔کسی ایک شخص نے یہ نہیں کہاکہ اس کمیشن کی رپورٹ فیصلہ کن ہوگی!ہرایک کے پاس اپنے اپنے درجہ کے دلائل اورتجزیے ہیں۔

ہوسکتاہے یہ تمام غلط ثابت ہوں۔مگر ایک دلیل سنکرمیں ششدررہ گیا۔لاہورکے ایک انتہائی کامیاب بیرسٹرکہنے لگے کہ کمیشن نے حقیقت تک پہنچنے کے لیے اپنے آپکوقانونی ضابطہ(Process)میں ڈال دیاہے۔یہ پراسس سارے معاملے کواتناطویل کردیگاکہ سچ یاحقیقت یاجھوٹ بالکل بے معنی ہوکررہ جائیگا۔اس اعلیٰ درجہ کے عدالتی کمیشن کوتوتمام سرکاری اداروں پراختیارحاصل ہے،توپھرابھی تک طاقتورترین نیوٹرل اداروں کی خدمات حاصل کیوں نہیں کی گئیں۔


میرے پاس اس بیرسٹرکی بات کاکوئی جواب نہیں تھا۔ عدالتی کمیشن کے متعلق اس طرح کاایک سوال لاہور ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈجج سے پوچھا۔انکاجواب بالکل مختلف تھا۔فرمانے لگے۔"We are courts of law, we are not courts of justice" "ہم قانون کی عدالتیں ہیں۔ہم انصاف کی عدالتیں نہیں ہیں"۔مفہوم یہ کہ ہم ایک مخصوص قانون کے ذریعہ سے انصاف دینے کی کوشش کرتے ہیں۔میرے لیے یہ جواب اوربھی حیران کن تھا۔ کیونکہ انصاف حاصل کرناتوپیچیدہ قانون اورطویل ضابطہ کے ماتحت ہوگیا۔دوسرے لفظوں میں انصاف کہاں گیا۔موجودہ حالات میں توکسی بھی انسان کوپاکستان میں انصاف نہیں مل سکتا۔یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے!

اگرمیں یہاں یہ عرض کروں کہ جج صاحبان کی معاونت کے لیے عام آدمی کوبھی Juryکی صورت میں اعلیٰ ترین عدالتوں میں بیٹھناچاہیے۔انھیں بہترین وکلاء کے دلائل سننے چاہیے، اوراس کے بعدعام آدمی کومشکل ترین قانونی پیچیدہ مسائل کے فیصلے کرنے چاہیے توشائداکثریت میری بات سے اتفاق نہ کرے۔بھلاعام آدمی کوقانون کاکیاپتہ۔ایک ڈرائیور،نائی،ترکھان،قصائی یامزدورکانظام انصاف سے کیا تعلق۔انھیں توقانون کی مشکل کتابوں کاایک لفظ تک نہیں پتہ،نہ ہی وہ پڑھ سکتے ہیں۔

مگرآپ حیران ہونگے کہ دنیاکے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکا میں تمام عدالتی فیصلے عام آدمی بطورجیوری کرتے ہیں۔وہ جج صاحبان کی بھرپورمعاونت کرتے ہیں۔تمام جج ان کے فیصلوں کوتسلیم کرتے ہیں۔ان لوگوں میں کوئی بھی قانون سے واقف نہیںہوتا۔یہ امریکی معاشرہ کے وہ معمولی لوگ ہوتے ہیںجوقانونی پیچیدگیوں کو بالکل نہیں سمجھتے۔مگرسچ اورحقیقت کوقانونی ضابطہ سے باہرنکال کرپرکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔اگرآپکے سامنے سچ آگیا توبات ہی ختم ہوگئی۔ہمارے ملک میں بدقسمتی سے سچ کوعدالتی نظام کی موشگافیوں کی بدولت کوئی بھی رنگ دیاجاسکتا ہے۔

سچ کوجھوٹ بنایاجاسکتاہے۔امریکی نظام عدل اس صورتحال کو تجربے کی بنیادپرسمجھ چکاہے۔لہذااس نے عام آدمی کو اختیار دیا ہے کہ وہ عدالت میں جج کے ساتھ بیٹھنے اورحقیقت جاننے میں پوری کوشش اورمحنت کریں۔ان کی رائے کوماننااعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان پرلازم ہوتاہے۔امریکا کی سپریم کورٹ نے1968ء میں ڈنکن بنام لوزینا(Duncan v Louisina)کیس میں انتہائی دانائی والی بات کی ہے۔ خلاصہ ہے ـ"کہ عام آدمی کوجیوری میں بٹھانے کامقصد،ملزم کوکرپٹ یاتواناحکومتی وکیل، متعصب شکایت کنندہ اورایک عجیب وغریب اجنبی جج (Eccentric) جج سے بچانامقصودہے ـ"۔ہمارے ملک میں ایساہوناتودرکنار، عدل پرمبنی اس نایاب کلیہ کوسوچنے تک پرپابندی ہے۔

1954ء تک امریکا میں ایک تکلیف دہ قانون تھا۔ اس کے مطابق سیاہ فام اورگورے بچوں کی تعلیمی درسگاہیں اور اسکول بالکل علیحدہ تھے۔وہ تمام ایک جیسانصاب پڑھتے تھے۔ایک جیسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔مگر اسکول بالکل مختلف تھے۔

اس قانون کو"مختلف مگربرابر" (Separate But equal)کانام دیاگیاتھا۔جب یہ معاملہ عدالت میں پیش ہوا،توجج نے فوری طورپرعام آدمیوں پرمشتمل جیوری تشکیل دیدی۔قانون سے نابلد، جیوری نے اس قانون کوآئین کے مخالف قراردیدیا۔جج نے جیوری کی بات تسلیم کی۔ا حکومت کوحکم دیاگیاکہ یہ قانون ختم کردے۔عام آدمیوں کے اس فیصلے نے امریکا کامقدر تبدیل کرڈالا۔یہ فیصلہ تمام لوگوں کے یکساں ـ "انسانی حقوق" کی مہم کی بنیادبن گیا۔اگروہ چھ سادہ سے آدمی یہ فیصلہ نہ کرتے توآج بھی امریکا میں، بچے رنگ کی بنیادپرعلیحدہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوتے۔اس کیس کوBrown v. Board of education of Topeka کہا جاتا ہے۔

امریکی صدررونالڈریگن پر30مارچ1981ء میں قاتلانہ حملہ ہوتاہے اور انھیں کئی گولیاں لگتی ہیں۔یہ واقعہ واشنگٹن میں سینٹرل ہوٹل کے باہرپیش آتاہے۔ حادثہ سیکڑوں ٹی وی کیمروں نے محفوظ کیاہوتاہے۔ہزاروں لوگ چشم دیدگواہ ہوتے ہیں۔ملزم جان ہنکلے(john Henckley Jr) موقعہ پرگرفتارہوتاہے۔مقدمہ عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ امریکی نظام کے مطابق عام آدمیوں پر مشتمل جیوری تشکیل دیجاتی ہے۔

ہنکلے نے صرف ایک بات کی کہ وہ دماغی مرض میں مبتلا ہے۔ جیوری نے اسے دماغی مریض قراردیتے ہوئے بری کر دیا اسے دماغی امراض کے اسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ امریکی حکومت اپنے بے پناہ اختیارات کی موجودگی میں بھی عام آدمیوں پرمشتمل جیوری کے حکم کے سامنے بے بس ہوگئی۔ وہ کچھ نہ کرپائی۔اب سوچیے، اگریہ حادثہ پاکستان میں کسی طاقتور حکمران کے ساتھ پیش ہوا ہوتا،توکیاملزم کوعدالت تک جانے کی بھی اجازت دیجاتی۔ ایک معمولی سے پولیس مقابلہ میں ملزم کے پورے خاندان کونیست ونابودکردیاجاتا۔

ہم اتنے مشکل مقام پرکھڑے ہیں جسکا تصورکرنابھی مشکل ہے!ہرجانب سے ہم پریلغارہے،دوست اور دشمن سب شامل ہیں!ہمارامستقبل غیریقینی ہے! مگر ہمارے پاس کوئی ایسافورم(Forum) نہیں جس میں ہم سچ یا حقیقت کوجاننے کی کوشش کرسکیں۔عام آدمی کو نظامِ عدل میں شامل کرناتوشائدخواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا!ہم ضابطہ میں بندھے ہوئے وہ کولہوکے بیل ہیں جو پوری عمردائرے میں پیدل چلتے رہتے ہیں مگرکسی قسم کی مسافت طے نہیں کرتے!
Load Next Story