لیاری میں سیاسی کلچر
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری لیاری کے تاریخی ککری گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری لیاری کے تاریخی ککری گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے اگلے عام انتخابات کے لیے مہم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ آصف علی زرداری نے اس موقعے پر لیاری کے لیے ایک ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج اور اپنے بیٹے بلاول کے نام سے انجنیئرنگ کالج کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد ہوا۔
آصف زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ آمروں اور مشرف کی باقیات نے لیاری میں خون کی ہولی کھیلی اور ہم نسل در نسل خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اس جلسے میں عوام نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ اگرچہ اس جلسے میں لیاری کے کارکنوں کی تعداد کم تھی مگر لیاری میں سیاسی کلچر کا احیاء ایک اچھا شگون ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں جب پیپلزپارٹی قائم کی تو انھوں نے سب سے پہلے لیاری کو اپنا مرکز بنایا۔
اس وقت لیاری میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) فعال تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی انڈرگراؤنڈ تنظیم لیاری میں متحرک تھی۔ طلبہ کی تنظیمیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او)، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مزدور تنظیمیں، دانشوروں اور ادیبوں کے محاذ لیاری کی سیاسی فضاء کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
نیپ، بی ایس او اور دیگر تنظیمیں لیاری کے منشیات فروشوں کے خلاف جدوجہد کرتی تھیں مگر لیاری کراچی کا قدیم علاقہ ہونے کے باوجود پسماندگی کی آماجگاہ تھا۔ گھروں میں پانی کے کنیکشن نہیں تھے، گندے پانی کی نکاسی کے لیے جدید ڈرینج سسٹم نہیں تھا، مکینوں کے پاس مکان لیز نہیں تھے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے لیاری کو کچی آبادی قرار دے کر مکینوں کو بے دخل کرنے اور جدید فلیٹوں کی تعمیر کا ایک منصوبہ بنایا۔ عوامی سطح پر اس منصوبے کی مخالفت کی بناء پر یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا مگر عوام کے ذہنوں میں خوف موجود تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک رات چاکیواڑہ کے ایک ہوٹل پر چائے پی، پان کھایا اور لیاری کے مسائل کو حل کرنے کا اعلان کیا، وہ عوام کے دلوں میں بس گئے۔ بھٹو کے وعدے کے مطابق جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری کے ایک گراؤنڈ میں منعقد ہوا تھا۔ لیاری میں ترقی کا عمل شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں لیاری کے نوجوانوں نے بھٹو کی پھانسی کے خلاف اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک میں زبردست قربانیاں دیں۔
لیاری نے بے نظیر بھٹو کا زبردست خیر مقدم کیا، بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب بھی اس تاریخی ککری گراؤنڈ میں ہوئی ۔1988ء سے 1999ء تک پیپلز پارٹی دو دفعہ اقتدار میں آئی، لیاری کی ترقی کے لیے اربوں روپے کے پیکیج کے اعلانات تو ہوئے مگر لیاری کے حالت میں بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ 90ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب بلوچستان میں قوم پرست تحریک ایک نئی شکل میں ابھرنے لگی اور سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں تیز ہوئیں مگر پیپلز پارٹی کو قیادت نے ان جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کے نقصانات کو محسوس نہیں کیا۔ 2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے ان افراد سے ہم آہنگی پیدا کی۔
پیپلز پارٹی کی مخالفت نہ ہونے کی بناء پر جرائم پیشہ افراد کے جھگڑوں نے لیاری کے سیاسی کلچر کو متاثر کرنا شروع کیا۔ سیاسی کارکنوں، مزدوروں اور دانشوروں کو لیاری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ لیاری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر مشتمل پیپلز امن کمیٹی قائم ہوئی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پیپلز امن کمیٹی کو ایم کیو ایم کے خلاف استعمال کیا۔ یوں شہر کی تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچ مہاجر تضاد سامنے آیا ۔
ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے کارندوں نے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئیں اور اسٹریٹ کرائمز کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، اس طرح لیاری ہی نہیں بلکہ پورا شہر اس صورتحال سے متاثر ہوا۔ لیاری میں گینگ وار نے بائیں بازو کے دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو مشکل کر دیا۔ کچھ قوم پرست اس لڑائی میں جاں بحق ہوئے جب کہ اکثریت نے لیاری چھوڑ دیا۔
سینئر صحافی نادر شاہ عادل اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے اپنا آبائی گھر چھوڑ نے پر مجبور ہوئے۔ انتہا پسند مذہبی افراد بھی لیاری میں متحرک ہو گئے۔ کراچی میں ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث نوجوانوں کا تعلق لیاری سے نکلا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پیپلز امن کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا مگر پیپلز پارٹی نے گینگ وار میں ملوث گروہوں کے خلاف سیاسی جدوجہد اس طرح نہیں کی جس طرح 70ء کی دہائی میں نیپ اور بائیں بازو کی مختلف تنظیموں کے کارکنوں نے کی تھی۔
لیاری اور کراچی میں گینگ وار میں شامل گروہوں کے بارے میں پیپلز پارٹی کی پالیسی کے بارے میں گنجلگ صورتحال برقرار رہی۔ 15 سال گزر گئے جس کے بعد آخرکار پھر سے پیپلز پارٹی نے ایک بڑا جلسہ کر کے لیاری میں سیاسی کلچر کے احیاء کی کوشش کی ہے۔ لیاری میں اس سال کے دوران ہونے والے آپریشن کی بناء پر حالات اب بہتر ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی پیپلز پارٹی کے اس جلسے کو قیادت کی مثبت کوشش قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں۔ سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے سے عام آدمی کو تحفظ کا احساس ہو گا۔ سیاسی تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے نام پر انجنیئرنگ کالج کے قیام کو محض ایک خاندان کی پرستش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کالج کا نام لیاری کے کسی شہید کارکن یا لیاری میں تعلیم کے لیے کوشش کرنے والے کسی فرد کے نام کے ساتھ منسوب ہونا چاہیے۔
اس طرح شخصیت پرستی کا رجحان کم ہو گا۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زرداری کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی جلسے کریں اور شہر کے لیے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں۔ آصف زرداری کو ایک ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج پر شفاف طریقے سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ لیاری کی ترقی سے کراچی میں ترقی کا عمل تیز ہو گا اور لیاری میں امن سے شہر کا امن مستحکم ہو گا۔
آصف زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ آمروں اور مشرف کی باقیات نے لیاری میں خون کی ہولی کھیلی اور ہم نسل در نسل خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اس جلسے میں عوام نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ اگرچہ اس جلسے میں لیاری کے کارکنوں کی تعداد کم تھی مگر لیاری میں سیاسی کلچر کا احیاء ایک اچھا شگون ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں جب پیپلزپارٹی قائم کی تو انھوں نے سب سے پہلے لیاری کو اپنا مرکز بنایا۔
اس وقت لیاری میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) فعال تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی انڈرگراؤنڈ تنظیم لیاری میں متحرک تھی۔ طلبہ کی تنظیمیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او)، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مزدور تنظیمیں، دانشوروں اور ادیبوں کے محاذ لیاری کی سیاسی فضاء کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
نیپ، بی ایس او اور دیگر تنظیمیں لیاری کے منشیات فروشوں کے خلاف جدوجہد کرتی تھیں مگر لیاری کراچی کا قدیم علاقہ ہونے کے باوجود پسماندگی کی آماجگاہ تھا۔ گھروں میں پانی کے کنیکشن نہیں تھے، گندے پانی کی نکاسی کے لیے جدید ڈرینج سسٹم نہیں تھا، مکینوں کے پاس مکان لیز نہیں تھے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے لیاری کو کچی آبادی قرار دے کر مکینوں کو بے دخل کرنے اور جدید فلیٹوں کی تعمیر کا ایک منصوبہ بنایا۔ عوامی سطح پر اس منصوبے کی مخالفت کی بناء پر یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا مگر عوام کے ذہنوں میں خوف موجود تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک رات چاکیواڑہ کے ایک ہوٹل پر چائے پی، پان کھایا اور لیاری کے مسائل کو حل کرنے کا اعلان کیا، وہ عوام کے دلوں میں بس گئے۔ بھٹو کے وعدے کے مطابق جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو سندھ کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری کے ایک گراؤنڈ میں منعقد ہوا تھا۔ لیاری میں ترقی کا عمل شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں لیاری کے نوجوانوں نے بھٹو کی پھانسی کے خلاف اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک میں زبردست قربانیاں دیں۔
لیاری نے بے نظیر بھٹو کا زبردست خیر مقدم کیا، بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب بھی اس تاریخی ککری گراؤنڈ میں ہوئی ۔1988ء سے 1999ء تک پیپلز پارٹی دو دفعہ اقتدار میں آئی، لیاری کی ترقی کے لیے اربوں روپے کے پیکیج کے اعلانات تو ہوئے مگر لیاری کے حالت میں بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ 90ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب بلوچستان میں قوم پرست تحریک ایک نئی شکل میں ابھرنے لگی اور سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں تیز ہوئیں مگر پیپلز پارٹی کو قیادت نے ان جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کے نقصانات کو محسوس نہیں کیا۔ 2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے ان افراد سے ہم آہنگی پیدا کی۔
پیپلز پارٹی کی مخالفت نہ ہونے کی بناء پر جرائم پیشہ افراد کے جھگڑوں نے لیاری کے سیاسی کلچر کو متاثر کرنا شروع کیا۔ سیاسی کارکنوں، مزدوروں اور دانشوروں کو لیاری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ لیاری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر مشتمل پیپلز امن کمیٹی قائم ہوئی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے پیپلز امن کمیٹی کو ایم کیو ایم کے خلاف استعمال کیا۔ یوں شہر کی تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچ مہاجر تضاد سامنے آیا ۔
ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ لیاری گینگ وار کے کارندوں نے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئیں اور اسٹریٹ کرائمز کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، اس طرح لیاری ہی نہیں بلکہ پورا شہر اس صورتحال سے متاثر ہوا۔ لیاری میں گینگ وار نے بائیں بازو کے دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کی زندگیوں کو مشکل کر دیا۔ کچھ قوم پرست اس لڑائی میں جاں بحق ہوئے جب کہ اکثریت نے لیاری چھوڑ دیا۔
سینئر صحافی نادر شاہ عادل اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے اپنا آبائی گھر چھوڑ نے پر مجبور ہوئے۔ انتہا پسند مذہبی افراد بھی لیاری میں متحرک ہو گئے۔ کراچی میں ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث نوجوانوں کا تعلق لیاری سے نکلا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پیپلز امن کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا مگر پیپلز پارٹی نے گینگ وار میں ملوث گروہوں کے خلاف سیاسی جدوجہد اس طرح نہیں کی جس طرح 70ء کی دہائی میں نیپ اور بائیں بازو کی مختلف تنظیموں کے کارکنوں نے کی تھی۔
لیاری اور کراچی میں گینگ وار میں شامل گروہوں کے بارے میں پیپلز پارٹی کی پالیسی کے بارے میں گنجلگ صورتحال برقرار رہی۔ 15 سال گزر گئے جس کے بعد آخرکار پھر سے پیپلز پارٹی نے ایک بڑا جلسہ کر کے لیاری میں سیاسی کلچر کے احیاء کی کوشش کی ہے۔ لیاری میں اس سال کے دوران ہونے والے آپریشن کی بناء پر حالات اب بہتر ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری سے تعلق رکھنے والے صحافی پیپلز پارٹی کے اس جلسے کو قیادت کی مثبت کوشش قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں۔ سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے سے عام آدمی کو تحفظ کا احساس ہو گا۔ سیاسی تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے نام پر انجنیئرنگ کالج کے قیام کو محض ایک خاندان کی پرستش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کالج کا نام لیاری کے کسی شہید کارکن یا لیاری میں تعلیم کے لیے کوشش کرنے والے کسی فرد کے نام کے ساتھ منسوب ہونا چاہیے۔
اس طرح شخصیت پرستی کا رجحان کم ہو گا۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زرداری کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی جلسے کریں اور شہر کے لیے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کریں۔ آصف زرداری کو ایک ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج پر شفاف طریقے سے عملدرآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ لیاری کی ترقی سے کراچی میں ترقی کا عمل تیز ہو گا اور لیاری میں امن سے شہر کا امن مستحکم ہو گا۔