ویران میدان اور ہمارے کیمروں کی آنکھ
ایک وہ وقت تھا جب یہاں کے لوگوں کو کرکٹ کا جنون تھا، کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کے میدانوں میں ہزاروں شائقین کرکٹ اپنے ہر دل عزیز کھیل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ جو اس سہولت سے محروم رہتے وہ کانوں سے ریڈیو لگائے رکھتے یا گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ کے لمحات کو یادگار بنایا کرتے تھے۔
مگر پھر جیسے اس ملک کو اور یہاں کی کرکٹ کو کسی کی نظر لگ گئی۔ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی وجہ سے یہاں کے بازار، مساجد، عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے زیرِ عتاب آئے وہیں کرکٹ کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ تین مارچ 2009ء پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا جس دن کے بعد پاکستان کے خوبصورت میدان ویران ہوگئے۔
3 مارچ2009 کو پاکستان اور سری لنکا کے درمیان لاہور میں ہونے والے ٹیسٹ میچ کے موقع پر سری لنکن ٹیم پر اس وقت حملہ ہوا تھا جب وہ تیسرے دن کے کھیل کے لیے ہوٹل سے اسٹیڈیم جا رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوسکی اور پاکستانی ٹیم اپنی تمام تر انٹرنیشنل کرکٹ متحدہ عرب امارات میں کھیلنے پر مجبور ہے۔ لیکن اب امید کی شمع روشن ہوئی ہے اور میدان آباد ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے۔
زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے 6 سال بعد بالاخر پاکستان کے دورہ کے لیے حامی بھر لی ہے اور وہ 19مئی کو پاکستان پہنچے گی۔ مہمان ٹیم پاکستان میں 3 ون ڈے اور 2 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ٹی ٹوئنٹی میچز 22 اور 24 مئی کو کھیلے جائیں گے جب کہ ایک روزہ میچوں کی سیریز 26، 29 اور 31 مئی کو کھیلی جائے گی۔
زمبابوے کی ٹیم کا یہ دورہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اگر یہ دورہ پرسکون انداز میں اختتام پذیر ہوگیا تو ہم دنیا کو بتاسکتے ہیں کہ پاکستان کھیل کے لیے اب خطرناک ملک نہیں ہے لیکن اگر خدانخواستہ اِس بار بھی دہشتگرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے تو پھر شاید کھیل کے لیے پاکستان کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں۔
یقینی طور پر زمبابوے کا دورہ پاکستان ملک اور قوم کے لئے ایک خوشی و مسرت اور شادمانی کا باعث ہے۔ پاکستان کے دل لاہور میں تمام میچز کھیلے جائیں گے۔ زندہ دلان لاہور زمبابوے کی ٹیم کا جس بے صبری سے انتظار کررہے ہیں اس کی مثال آپ کو لاہور میں پارکوں، ہوٹلوں، کلاسز اور چائے خانوں میں ہر جگہ دکھائی دیں گی۔
مگر دوسری جانب پاکستان کے محب وطن ٹی وی چینلز ایان علی کی جلوے دکھانے میں مصروف و مگن ہیں، کیوں نہ ہوں؟ موصوفہ نے پاکستان کا نام جو پوری دنیا میں بدنام کیا ہے، ایان کے ہیر اسٹائل ہو یا کپڑوں کا انتخاب، بالوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہاتھ ہوں یا دیگر ناز وانداز، سب کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیے جارہے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ ایان کی گردن پر بنا ٹیٹو بھی ٹی سکرینوں پر قوم کو دکھایا جاتا رہا ہے۔
لاہور کے ایک پارک میں بیٹھے چند دوستوں کے ساتھ زمبابوے کی ٹیم کے دورہ پاکستان پر گفتگو کے دوران میڈیا کے کردار پر بات چلی تو دوستوں کا کہنا تھا کہ جناب قوم جو دیکھنا چاہتی ہے میڈیا وہی دکھاتا ہے۔
میں چاہتے ہوئے بھی اپنے دوستے اختلاف نہیں کرسکتا تھا کہ میڈیا کا قصور اپنی جگہ مگر خرابی خود ہمارے اندر بھی ہے کہ ہم بھی وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اور بس یہی وجہ ہے کہ جس خبر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہو وہی خبر ''بریکنگ نیوز'' بنتی جاتی ہے اور کیوں قوم کو اُمید کا پیغام اور خوشی کا سامان مہیا کرنے والی خبریں میڈیا کی ترجیحات نہیں بنتی۔
زمبابوے کی ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے بارش کا ایک قطرہ ثابت ہوگی۔ پاکستانی میڈیا کو اپنا کردارادا کرتے ہوئے دنیا کو امید کا پیغام دینا چاہئے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں اور یہاں کے لوگ بھی کھیل سے محبت کرتے ہیں۔پاکستان میں بم نہیں پھٹتے بلکہ پھولوں کی برسات ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم مایوسی کا نشان نہیں بلکہ امید کی علامت ہے۔
ملک ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے لیکن میڈیا کی ترجیحات ہی جدا ہیں۔ ظلم و تشدد، آگ اور خون، نفرت اور عصبیت کے مناظر ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر دکھانے کے بجائے اگر امن و سلامتی، پیار و محبت، باغ اور بہار کے رنگوں کو بکھیرا جائے تو ملک کا نام ساری دنیا میں روشن کیا جاسکتا ہے۔
ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہونے سے جہاں ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کو فروغ حاصل ہوگا وہیں دوسری جانب ایک کثیر سرمایہ محفوظ ہوگا۔ پڑوسی ملک پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ اس کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور حکام پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے میں ہروقت مصروف رہتے ہیں۔ ہم پروپیگنڈے کا جواب دینا تو درکنار اپنے چینلز کے ذریعے اتنا پیغام بھی نہیں دے پائے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے بحالی کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے۔
اس وقت میڈیا کو ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لئے کئے جانے والے اقدامات ساری دنیا کے سامنے لانے چائیے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی بدحالی اور خراب کارکردگی پر 24/7 براہ راست تبصرے اور تند و تیز طنز کے نشتر چلانے والے مبصرین کو تعمیری کام کرنے کے لئے بھی کردار ادا کرنا چاہیئے۔
قوم کی خوشیوں کو دوبالا کرنے، ان کے چہروں پر مسکراہٹوں کے رنگ بکھیرنے کے لئے میڈیا کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ زمبابوے کی ٹیم کی خیریت سے وطن واپسی کے لئے دعا گو رہیں اور آئندہ سالوں میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اصل چہرے کی تصویر نمایاں کرنے کی کوششیں تیز کریں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی اور میڈیا کو بھی اپنے کیمروں کا رخ بھی کرکٹ کے آباد ہوتے میدانوں کی جانب کرنے کی ضرورت ہے۔
[poll id="394"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی