آزادی صحافت ۔۔۔ مگر ذمہ داری کے ساتھ

رپورٹ فریڈم آف دی پریس 2014 کے مطابق دنیا کی صرف 14 فیصدآبادی ایسے ممالک پر مشتمل ہے جہاں پریس آزاد ہے

فریڈم ہاؤس نامی بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں صحافت آزاد نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
ریاست کا چوتھا ستون صحافت،آج ترقی پذیر ممالک میں اپنی تعمیری خوبیوں کی وجہ سے پابند سلاسل اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کے لئے برسر پیکار ہے تو ترقی یافتہ ممالک میں حاصل آزادی اظہار کے حق کی بنیاد پر اپنے معاشروں میں انسانی ترقی، گڈ گورننس، معاشرتی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنا بھر پور کردار تو ادا کر ہی رہا ہے لیکن چند مغربی ممالک کا کچھ میڈیا آزادی اظہار کے نام پر مذاہب اور قابلِ احترام مذہبی شخصیات کی بے حرمتی کا موجب بن کر امن کو سبو تاژ کرنے اور انسانی اقدار اور حقوق کی پامالی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ اپنے اس عمل کو وہ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کا نام دیتا ہے۔ اُس سے بھی زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ذمہ د اری کے تصور سے عاری آزادی اظہار کے نام نہاد حق کا استعمال کرنے والے ان چندصحافتی اداروں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ تو دوسری طرف آزادی اظہار کے نام پر کی جانے والی ان مذموم حرکات پر شدید ردعمل کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔



اس صورتحال میں بعض نازک معاملات میں صحافت کی آزادی کی غیر متعین شدہ حدود، اس کا جانبدارانہ اور غیرذمہ دارانہ استعمال ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔کیونکہ ستمبر 2005 ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار سے شروع ہونے والا گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا مذموم سلسلہ اب پھیلتا جا رہا ہے۔ اگر اسے بروقت نہ روکا گیا تو اس کے شدید ترین اثرات عالمی تعلقات اور امن پر مرتب ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جب ہولو کاسٹ کے حوالے سے آزادی اظہار کے حق کی حدود کا تعین کرنے کے لئے اقوام متحدہ متحرک ہو سکتا ہے تو پھر مذاہب اور قابلِ احترام مذہبی شخصیات کی شان میں کی جانے والی گستاخیوں کی روک تھام کے سلسلے میں اقدامات کیونکر تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں؟

اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک میں الیکٹرانک میڈیا ابھی اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ ان ممالک میں مسابقت کے ماحول میں کام کرنے والا نو عمر الیکٹرانک میڈیا آزادی صحافت کے نام پر بعض اوقات جانبداری، مایوسی اور خوف کی فضاء قائم کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ایسی صورتحال آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ دارانہ صحافت ( ضابطہ اخلاق) کی بھی متقاضی ہے۔



یعنی آج جب صحافت کی آزادی کی بات کی جائے تو ضروری ہے کہ اُس کے ذمہ دارانہ کردار کا بھی اس آزادی میں تعین کیا جائے۔ لیکن یہ تعین حکومتوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں، کاروباری اداروں، شدت و عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی طرف سے نہ ہو۔ بلکہ میڈیا، سول سوسائٹی اور عوامی نمائندوں کی جانب سے ہو ۔ مگر بدقسمتی سے میڈیا اور صحافیوں پر ذمہ دارنہ صحافت کے نام پر قدغن لگانے کی تمام تر ذمہ داری تیسری دنیا میں اُن لوگوں، اداروں اور گروہوں نے از خود لے رکھی ہے جو میڈیا کی تعمیری خوبیوں سے خوف زدہ ہیں اور اسے اپنا آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔

اور ایسا نہ کرنے کی پاداش میں وہ صحافتی اداروں اور صحافیوں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں اس کی ایک جھلک رپورٹرز کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ باڈرزکے ان اعدادوشمار سے نظر آتی ہے کہ گزشتہ سال 69 صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی پاداش میں دنیا بھر میں قتل کیا گیا۔ جبکہ 178 صحافیوں کو جیل کی کال کوٹھری کا مہمان بنایا گیا اور 853 کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2014 ء میں 119 صحافیوں کو اغواء کیا گیا جن میں سے 40 صحافی آج بھی یر غمال ہیں اور 1846 صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں یا پھر اُن پر حملے کئے گئے۔ جبکہ اس وقت بھی دنیا کے 31 ممالک میں 159 صحافی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

دنیا بھر میں صحافت کو قابو میں رکھنے کے لئے بہت سے اَن دیکھے حربے بھی استعمال کئے جاتے ہیں جو آزادیء صحافت پر کاری ضرب کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہ حربے صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک جہاں صحافت آزاد تصور کی جاتی ہے وہاں بھی صحافیوں کو ضمیر کی آواز کی تر جمانی کا خمیازہ اکثر نوکریوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میںبھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں کی زندگیاں ترقی پذیر ممالک کی نسبت قدرے محفوظ ہیں۔



اُنھیں اتنی آسانی سے گرفتار اور پابند سلاسل نہیں کیا جاسکتا جتنا کہ ترقی پذیر دنیا میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو دھونس دھمکیاں دینا اور اُن پر حملہ کرنا ترقی پذیر ممالک کی نسبت ترقی یافتہ ممالک میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس وقت دنیا کے 7 میں سے صرف ایک فردآزاد صحافت کے حامل ممالک میں رہتا ہے۔

فریڈم ہاؤس نامی بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ فریڈم آف دی پریس 2014 کے مطابق دنیا کی صرف 14 فیصدآبادی ایسے ممالک پر مشتمل ہے جہاں پریس آزاد ہے جبکہ 42 فیصد آبادی کسی حد تک آزاد صحافت کے حامل ممالک میں رہتی ہے۔ جبکہ دنیا کی 44 فیصد آبادی ایسے ممالک میں موجود ہے جہاں کا پریس غلام ہے اور زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔

اگر اس صورتحال کو ممالک کے تناظر میں دیکھیں تو رپورٹ کے مطابق 2013 ء میں دنیا کے 32 فیصد ممالک میں صحافیوں کے تحفظ کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔ میڈیا کے معاملات میں حکومتی عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے اور پریس سخت اور بھاری معاشی اور قانونی دباؤ سے آزاد ہے یعنی وہاں صحافت مکمل طور پر آزاد ہے۔




اسی طرح دنیا کے 35 فیصد ممالک میں صحافت کی آزادی آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق ہے، یعنی نہ آزاد ہے اور نہ ہی غلام، بس ملی جلی کیفیت کی حامل ہے۔ جبکہ 33 فیصد ممالک میں صحافت جبر کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ اور جی حضوری کی روش اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن یہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔کیونکہ 2003 ء میں دنیا کے صرف 23 فیصد ممالک میں صحافت آزاد،20 فیصد میں کسی حد تک آزاد اور 57 فیصد یعنی آدھی دنیا کی صحافت پابند سلاسل تھی۔

فریڈم ہاؤس نامی بین الاقوامی ادارے نے پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں صحافت آزاد نہیں ہے۔ جبکہ رپورٹرز ودآوٹ باڈرزکے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 2015 ء کے مطابق پاکستان دنیا کے 180ممالک میں آزادی صحافت کے حوالے سے 159 ویں نمبر پر ہے کیونکہ پاکستان میں ظاہر اور پوشیدہ بہت سے عوامل آزاد صحافت کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔ اُس پر ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کے باعث آزاد صحافت تو درکنارصحافت کرنے کے لئے ہی حالات مشکل تر ہوتے جارہے ہیں ۔

ملک کے بعض حصوں میں صحافت جان خطرے میں ڈالنے کہ مترادف ہو چکی ہے کیونکہ گزشتہ 13 سالوں کے دوران ملک میں 65 صحافی اپنے فرائض کی بجا آوری کے سلسلے میں جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں جو مجموعی طور پر عالمی سطح پر مارے جانے والے صحافیوں کی تعدادکا 7.5 فیصد ہے۔ رپورٹرز ودآوٹ باڈرز کے مطابق پاکستان میں 2002 ء سے 2014 ء کے دوران 2010 ء کا سال صحافیوں کے لئے بھیانک ترین رہا ۔



اس سال ملک میں 11 صحافی فرائض کی انجام دہی کی پاداش میں اپنی جانوں سے گئے اور یہ تعداد مذکورہ سال جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی مجموعی عالمی تعداد کا 15 فیصد تھی اور جاں بحق ہونے والے صحافیوں کی دنیا بھر میں سب سے بڑی انفرادی تعداد تھی ۔ یہ صورتحال 2011 ء میں بھی برقرار رہی جب دنیا بھر میں سب سے زیادہ صحافی پاکستان میں جاں بحق ہوئے جن کی تعداد 10 تھی۔ جبکہ2012 ء میں ملک میںصحافیوں کی دوسری بڑی تعداد اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے جاں بحق ہوئی۔

لیکن پھر بھی اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ملک کے طول و عرض میں موجود صحافی اپنے فرائض کی بجا آوری کو یقینی بنا رہے ہیں اور پاکستان میں موجود 644 اخبارات وجرائد، 95 سرکاری اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور 190 سرکاری اور نجی ریڈیو اسٹیشنز کو رواں دواں رکھتے ہوئے عوام کی ابلاغی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں ۔ آج کا دن یقیناً ان سب صحافیوںکی عظمت کو سلام پیش کرتا ہے جوحق گوئی کانشانہ بنے اورنامساعد حالات میں بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

آزادیٔ صحافت کا اسلامی تصور
پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی،شعبہ علومِ اسلامیہ، جامعہ پنجاب کا کہنا ہے کہ اسلام کے تصور صحافت پر غور کریں تو صحافت کی آزادی کا بھی تصور خود بخود سامنے آجاتا ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کو صحیفے عطاء فرمائے، اور ان صحیفوں کے متعلق قرآن صحف مطہرہ کہتاہے (البینہ: ۲) اسی طرح ایک مقام پر ان صحیفوں کے متعلق صحف مکرمۃ (عبس :۱۳)کہا گیا ۔ ان دو آیات کی روشنی میں صحافت کی خصوصیات بھی سامنے آتی ہیں اور اس کی آزادی کی حدود بھی کہ صحافت کی آزادی وہاں تک ہے جہاں تک :

۱) اس کی طہارت اور پاکیزگی متاثر نہ ہو ، صحافت میں اس طرح کی آزادی جو اس کو پاکیزہ خیالات اور پاکیزہ احساسات وجذبات سے دور لے جائے، ایسی آزادی اسلام کے تصور صحافت کے خلاف قرار پائے گی ۔ اسی طرح ایسی آزادی صحافت جو دوسروں کی طہارت اور پاکیزہ زندگی پر حملہ آور ہو ، ایسی آزادی بھی اسلام کے تصور آزادی صحافت کے خلاف قرار پائے گی۔

۲) صحف مکرمہ سے مراد صحافت کا ایسا تصور جو اعزاز و اکرام کا سر چشمہ ہو، اس کا اپنا رویہ بھی ایسی متانت اور سنجیدگی رکھتا ہوکہ لوگ اس پیشہ سے وابستہ افراد کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھیں اور دوسری جانب آزادی صحافت ایسی حدود میں رہے جو دوسروں کی عزت کی محافظ بنے نہ کہ دوسروں کی عزت کو اچھالنے والی ہو ۔ اسلام کا آزادی صحافت کا تصور کبھی یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ کسی بھی شخصیت کا اس طرح تمسخر اڑایا جائے کہ جس سے نہ صرف یہ کہ اس شخصیت کی عزت واحترام پر حرف آتا ہو بلکہ اس آزادی کے استعمال سے کسی قوم کے جذبات و احساسات مجروح ہوتے ہوں ۔

آزادیٔ صحافت کا مغربی تصور
ڈاکٹر محمد راشد خان، استاد و محقق، سنٹر فار سائوتھ ایشین سٹڈیز، جامعہ پنجاب کہتے ہیں کہ مغرب کی آزادیء صحافت کے دو رخ ہیں۔
۱ ) مغربی ممالک کا آزادی صحافت کا تصور اپنے خطے اور عوام کے بنیادی حقوق کا پاسدار اور تعمیری سوچ کا عکاس ہے۔

مغربی معاشرے کی صحافتی اقدار ترقی پذیر ممالک سے یکسر مختلف ہیں ۔ وہاں میڈیا اجتماعی طوراپنے عوام کے لئے بہت زیادہ ذمہ داری سے منسلک اور انسانی حقوق کی پاسداری کا خیال رکھتا ہے۔ خاص طور پر سیاست یا جرائم کی خبروں کے مقابلے میں سماج میں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے والے افراد اور موضوعات کو نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔

وہاں کے اخبارات کی شہ سرخیاں اور مندرجات محض بیانات پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ ٹھوس اقدامات کو خبر کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ادارے اپنے Content میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ اپنے معاشرے کے کسی فرد یا گروہ کے بارے میں ایسا انداز اختیارنہ کیا جائے جو کسی کی تضحیک یا دل آزاری کا موجب بنے۔

۲) جبکہ مغربی ممالک کے صحافتی ادارے دیگر ممالک کے واقعات اور معاملات کو اپنے بین الاقوامی تعلقات اور مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک خاص انداز سے پیش کرتے ہیں۔ جس سے صحافتی معروضیت قائم نہیں رہتی اور سیاسی و معاشی مقاصد کا حصول ایک بنیادی میڈیا پالیسی کا حصہ بن جاتا ہے۔
Load Next Story