بلوچستان کیس پر عبوری حکم کی لپیٹ میں سب آئیں گے سپریم کورٹ

خدا کیلیے ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں، کلاشنکوف کہاں چلتی ہے کون مرتا ہے ایجنسی نے معلومات اکٹھی کرنی ہوتی ہے

راہداریوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں، معاملہ توہین عدالت تک پہنچ گیا ہے، کیسا آئی جی ہے یہ نہیں معلوم کیا ہورہا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی و عدالتی احکام پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر گذشتہ ایک ماہ سے ضلع خضدار کی بندش کو آئین کے نفاذ سے انکار قرار دیتے ہوئے بلوچستان بدامنی کیس سے متعلق عبوری حکم آج دینے کا فیصلہ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عبوری حکم جاری کریں گے جس کی لپیٹ میں سب آئیں گے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے بدھ کو تیسرے روز بھی سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان و لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت جاری رکھی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی سید فیصل سے دریافت کیا کہ ونی کیس میں طلب کی گئیں لڑکیاں اور مردکہاں ہیں؟۔

ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی نے عدالت کو بتایا کہ لڑکیوں کو گاڑیوں میں بٹھا کر بارکھان پہنچاد یا گیا ہے جہاں سے انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ پہنچادیا جائیگا۔ اس موقع پر ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان صوبائی اسمبلی میر طارق مسوری بگٹی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ونی کے حوالے سے ہونیوالے جرگے میں شرکت نہیں کی بلکہ ملتان میں انھوں نے اس طرح کے کسی جرگے کے انعقاد کی خبریں میڈیا کے ذریعے ملیں۔ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور ہم اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔


بینچ میں دلائل دیتے ہوئے ممتاز قانون دان راجہ سلمان نے خضدار شہر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خضدار میں لوگ حالات خراب کرنے والوں کا نام لیتے ہیں مگر ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جس پر چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس سے استفسار کیا کہ کیا خضدار شہرکی ایک ماہ سے بند ش آئین کے نفاذ سے انکار نہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں سپریم کورٹ نے اب تک 70 روز سماعت کی ہے، حکومت کی جانب سے یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں لیکن اس کے باوجود عدالت کے احکام پر عمل درآمد نہیں ہورہا تو پھر کیا سپریم کورٹ کچھ نہ کرے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک سکندر نے جب عدالت سے مزید مہلت کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان آپ لوگوں کی ترجیح نہیں ہے یہاں ایف سی اور حکومت پر الزامات لگ رہے ہیں لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی تباہی کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابقچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عبوری حکم جاری کریں گے جس کی لپیٹ میں سب آئیں گے۔ محکمہ دفاع کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ماحول آپ نے خراب کیا۔ خدا کے لیے ریاست کے اندر ریاست نہ بنائیں۔ کلاشنکوف کہاں کہاں چلتی ہے اور کون کون مرتا ہے۔ ایجنسی نے معلومات اکٹھی کرنا ہوتی ہیں۔

راہداریوں کے حوالے سے عدالت کا حکم ہے کہ تفصیلات اور فہرست لے کر آئیں۔ یہی بات ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ راہداریوں میں ایجنسیاں ملوث ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام غیر قانونی راہداریاں منسوخ کردی گئی ہیں لیکن لوگ اسلحہ لے کر دندناتے پھر رہے ہیں۔ سیکریٹری دفاع سے کہہ دیں ورنہ ہم نوٹس جاری کر دیں گے۔ یہ توہین عدالت کا کیس بن رہا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس بلوچستان پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کس قسم کے آئی جی ہیں، آپ کو یہ نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے۔ وقفے کے بعد جب امن وامان سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہبا زسے استفسار کیا کہ راہداریوں سے متعلق لسٹ ملی تو انھوں نے کہا کہ انہیں لسٹ ابھی تک نہیں ملی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انھوں نے ہمیں لسٹ دینی ہی نہیں ہے۔

کمانڈر شہباز نے استدعا کی کہ انھیں اس سلسلے میں کچھ وقت دیا جائے جس پر خلجی عارف حسین نے کہا کہ کل تک وہ اس سلسلے میں لسٹ دے سکتے ہیں۔ ہم کسٹم اور ٹریڈیشن نہیں جانتے صرف ہری کتاب کو جانتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کی جانب سے کسی کو بھی راہداری جاری نہیں کی گئی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سلسلے میں آرڈر پاس کیا تو سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story