زباں فہمی اُردو تو ہے لشکری زبان
ایک لفظ یا فقرہ کسی بھی دوسری زبان میں دوسری طرح استعمال ہوتا ہےتوضروری نہیں کہ اردو میں بھی ہوجائے
1990 کی بات ہے کہ راقم کو شادی کی ایک تقریب میں ایک بزرگ سے مختصر ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جو وفاقی حکومت میں سیکرٹری کے عہدے سے سبک دوش ہوئے تھے۔ پاکستان کی معیشت پر میرے استفسار کا جو جواب انہوں نے دیا،وہ فی الحال خارج از بحث ہے، مگر تعلیم کے شعبے پر ہلکا پھلکا طنز کرتے ہوئے موصوف نے ایک لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے کہ میرے فُلاں دوست، وزارت تعلیم میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔
گذشتہ دنوں ملے تو کافی پریشان تھے، میں نے کہا کیا ہوا، خیریت ہے کہنے لگے بس بھائی کیا بتائوں، دوسروں کا وزیر ہوتا ہے، میرا وزیر ''ہوتی ''ہے۔ واضح رہے اس زمانے میں وفاقی وزیرتعلیم محمد علی ہوتی تھے۔ کسی قسم کے لسانی تعصب کے شبہ کیے بغیر یہ دیکھیے کہ اگلے وقتوں کے لوگ، کس طرح بات سے بات پیدا کرنا جانتے تھے۔
اب ایسے اہل زبان کسی بھی شعبہ زندگی میں خال خال ہی ملتے ہیں۔ ہر طرف ایسے افراد کا بول بالا ہے جو غلط زبان بول کر فخریہ کہتے ہیں کہ کیا ہوا، اردو ہی تو ہے۔ اردو تو لشکری زبان ہے۔ کل تک یہ مسئلہ ان لوگو ں کا تھا جو انگریز کی یادگار شمار ہوتے تھے، مگر آج ہر طبقے میں ایسے ہی افراد کا راج ہے۔
اچھا یہ بتائیے کہ عوام ہوتی ہے کہ ہوتے ہیں، اخبار ہوتی ہے کہ ہوتا ہے، بینک ہوتا ہے کہ ہوتی ہے، کال آتی ہے کہ آتا ہے، فون اٹھایا جاتا ہے کہ سنا جاتا ہے.........کہیے چکراگئے ناں۔ زبان کا یہ بگاڑ اکثر دو وجوہ (وجوہات نہیں) سے ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ ایک تو اندھی تقلید، خاص کر انڈین ٹیلی وژن چینلز اور فلموں کی (معاف کیجیے گا ان کے یہاں جب اچھی، بامحاورہ زبان بولی جارہی ہو، تو ہمارے ناظرین کے سروں سے گزرجاتی ہے، تقلید تو دور کی بات) اور دوسری، دیگر زبانوں کی بغیر سوچے سمجھے نقل۔ راقم اپنی تحریروتقریر میں ( تجربے کی بناء پر) یہ بات کھل کے کہتا ہے کہ اگر میں کوئی مقامی، علاقائی زبان بولوں اور کہیں ذرا سی بھی غلطی کروں تو اہل زبان سے برداشت نہیں ہوتا، تو حضور! اردو نے کیا قصور کیا ہے۔
بات کی بات ہے کہ اردو کا لشکری زبان ہونا تو مُسَلّم (میم پر پیش، سین پر زبر اور لام پر زبر کے ساتھ تشدید) ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قواعد کی خلاف ورزی سے بات شروع ہواور غلط محاورے ، سُوقیانہ اور گھٹیا فقروں یا روزمَرّہ پر ختم ہو۔ بندہ یہاں قصداً مثالیں دینے سے گریز کررہا ہے کہ بقول میرانیسؔ؎ ٹھیس نہ لگ جائے آب گینوں کو۔
ایک لفظ یا فقرہ کسی بھی دوسری زبان میں دوسری طرح استعمال ہوتا ہے یا اُس کے قواعد کی رُو سے درست ہے تو ضروری نہیں کہ اردو میں بھی ہوجائے۔ ان دنوں عوام پر ہی کیا موقوف، ہمارے اہل قلم بھی زبان و بیان کی ایک ہی جیسی اغلاط دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں۔ قواعد کی دو عام غلطیاں ملاحظہ فرمائیں:
۱۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ خود اس حلقے میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں۔ (درست: وزیر اعظم نے کہا کہ میں خود اس حلقے میں جائوں گا، کیوں کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں)۔
۲۔جناب رشید جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں نے کہا کہ ہم پاکستان کے حامی ہیں۔(درست: جناب رشید نے، جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں، کہا کہ ہم پاکستان کے حامی ہیں)۔
ایک اور بہت عام غلطی جو صحافت کے حوالے سے ہمارے مشاہدے میں آتی ہے: پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ٹرائل میں فُلاں فُلاں کھلاڑیوں سمیت شاہد آفریدی نے بھی شرکت کی۔ (درست: شاہد آفریدی سمیت متعدد کھلاڑیوں نے شرکت کی)۔
ایک معاصر ادیب نے اپنے جریدے میں ایک بزرگ کو جھاڑ پِلائی تھی کہ جناب آپ کو تو یہی پتا نہیں کہ لفظ 'دَوران' کے بعد 'میں' نہیں آتا، یہ غلط ہے۔ موصوف سرکاری بیان کے مطابق، راقم سے ایک برس چھوٹے ہیں، سو خاکسار اپنے خُورد کی اطلاع کے لیے عرض کرتا ہے کہ لفظ دَوران کا مطلب ہے، عرصہ۔ کبھی آپ نے سنایا پڑھا کہ کوئی کہے، اس عرصہ یہ بات ہوئی یا واقعہ ہوا؟ (راقم کے پاس ایک بزرگ کی مدلل نگارش موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہرچند رواج میں، دَوران کے بعد، میں کا اضافہ نہیں کیا جاتا، مگر ضروری ہے تاکہ جملہ بامعنی ہو)۔
معنی کے لحاظ سے سرزد ہونے والی بے شمار اغلاط میں (جو عوام الناس سے لے کر خواص یعنی مشاہیر ادب تک سب میں مشترک ہیں ) سرفہرست ہے: استحصال۔ اس لفظ کا جو استیصال پچھلے تیس چالیس برس میں ہوا، بیان سے باہر ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے، حاصل کرنا جیسے استحصال ِ علم یعنی علم حاصل کرنا۔ کوئی چیز جبراً حاصل کی جائے تو استحصال بالجبر درست، مگر یہ کہنا کہ فُلاں کو عوام کے استحصال کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، بالکل غلط ہے۔ یہاں درست لفظ ہے: استیصال یعنی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، تباہ وبربادکردینا۔
گذشتہ دنوں ملے تو کافی پریشان تھے، میں نے کہا کیا ہوا، خیریت ہے کہنے لگے بس بھائی کیا بتائوں، دوسروں کا وزیر ہوتا ہے، میرا وزیر ''ہوتی ''ہے۔ واضح رہے اس زمانے میں وفاقی وزیرتعلیم محمد علی ہوتی تھے۔ کسی قسم کے لسانی تعصب کے شبہ کیے بغیر یہ دیکھیے کہ اگلے وقتوں کے لوگ، کس طرح بات سے بات پیدا کرنا جانتے تھے۔
اب ایسے اہل زبان کسی بھی شعبہ زندگی میں خال خال ہی ملتے ہیں۔ ہر طرف ایسے افراد کا بول بالا ہے جو غلط زبان بول کر فخریہ کہتے ہیں کہ کیا ہوا، اردو ہی تو ہے۔ اردو تو لشکری زبان ہے۔ کل تک یہ مسئلہ ان لوگو ں کا تھا جو انگریز کی یادگار شمار ہوتے تھے، مگر آج ہر طبقے میں ایسے ہی افراد کا راج ہے۔
اچھا یہ بتائیے کہ عوام ہوتی ہے کہ ہوتے ہیں، اخبار ہوتی ہے کہ ہوتا ہے، بینک ہوتا ہے کہ ہوتی ہے، کال آتی ہے کہ آتا ہے، فون اٹھایا جاتا ہے کہ سنا جاتا ہے.........کہیے چکراگئے ناں۔ زبان کا یہ بگاڑ اکثر دو وجوہ (وجوہات نہیں) سے ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ ایک تو اندھی تقلید، خاص کر انڈین ٹیلی وژن چینلز اور فلموں کی (معاف کیجیے گا ان کے یہاں جب اچھی، بامحاورہ زبان بولی جارہی ہو، تو ہمارے ناظرین کے سروں سے گزرجاتی ہے، تقلید تو دور کی بات) اور دوسری، دیگر زبانوں کی بغیر سوچے سمجھے نقل۔ راقم اپنی تحریروتقریر میں ( تجربے کی بناء پر) یہ بات کھل کے کہتا ہے کہ اگر میں کوئی مقامی، علاقائی زبان بولوں اور کہیں ذرا سی بھی غلطی کروں تو اہل زبان سے برداشت نہیں ہوتا، تو حضور! اردو نے کیا قصور کیا ہے۔
بات کی بات ہے کہ اردو کا لشکری زبان ہونا تو مُسَلّم (میم پر پیش، سین پر زبر اور لام پر زبر کے ساتھ تشدید) ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قواعد کی خلاف ورزی سے بات شروع ہواور غلط محاورے ، سُوقیانہ اور گھٹیا فقروں یا روزمَرّہ پر ختم ہو۔ بندہ یہاں قصداً مثالیں دینے سے گریز کررہا ہے کہ بقول میرانیسؔ؎ ٹھیس نہ لگ جائے آب گینوں کو۔
ایک لفظ یا فقرہ کسی بھی دوسری زبان میں دوسری طرح استعمال ہوتا ہے یا اُس کے قواعد کی رُو سے درست ہے تو ضروری نہیں کہ اردو میں بھی ہوجائے۔ ان دنوں عوام پر ہی کیا موقوف، ہمارے اہل قلم بھی زبان و بیان کی ایک ہی جیسی اغلاط دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں۔ قواعد کی دو عام غلطیاں ملاحظہ فرمائیں:
۱۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ خود اس حلقے میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں۔ (درست: وزیر اعظم نے کہا کہ میں خود اس حلقے میں جائوں گا، کیوں کہ میں عوام کا نمائندہ ہوں)۔
۲۔جناب رشید جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں نے کہا کہ ہم پاکستان کے حامی ہیں۔(درست: جناب رشید نے، جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں، کہا کہ ہم پاکستان کے حامی ہیں)۔
ایک اور بہت عام غلطی جو صحافت کے حوالے سے ہمارے مشاہدے میں آتی ہے: پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ٹرائل میں فُلاں فُلاں کھلاڑیوں سمیت شاہد آفریدی نے بھی شرکت کی۔ (درست: شاہد آفریدی سمیت متعدد کھلاڑیوں نے شرکت کی)۔
ایک معاصر ادیب نے اپنے جریدے میں ایک بزرگ کو جھاڑ پِلائی تھی کہ جناب آپ کو تو یہی پتا نہیں کہ لفظ 'دَوران' کے بعد 'میں' نہیں آتا، یہ غلط ہے۔ موصوف سرکاری بیان کے مطابق، راقم سے ایک برس چھوٹے ہیں، سو خاکسار اپنے خُورد کی اطلاع کے لیے عرض کرتا ہے کہ لفظ دَوران کا مطلب ہے، عرصہ۔ کبھی آپ نے سنایا پڑھا کہ کوئی کہے، اس عرصہ یہ بات ہوئی یا واقعہ ہوا؟ (راقم کے پاس ایک بزرگ کی مدلل نگارش موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہرچند رواج میں، دَوران کے بعد، میں کا اضافہ نہیں کیا جاتا، مگر ضروری ہے تاکہ جملہ بامعنی ہو)۔
معنی کے لحاظ سے سرزد ہونے والی بے شمار اغلاط میں (جو عوام الناس سے لے کر خواص یعنی مشاہیر ادب تک سب میں مشترک ہیں ) سرفہرست ہے: استحصال۔ اس لفظ کا جو استیصال پچھلے تیس چالیس برس میں ہوا، بیان سے باہر ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے، حاصل کرنا جیسے استحصال ِ علم یعنی علم حاصل کرنا۔ کوئی چیز جبراً حاصل کی جائے تو استحصال بالجبر درست، مگر یہ کہنا کہ فُلاں کو عوام کے استحصال کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، بالکل غلط ہے۔ یہاں درست لفظ ہے: استیصال یعنی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، تباہ وبربادکردینا۔