حسینہ گل جنھیں پشتو کی پروین شاکر کہا جاتا ہے
حسینہ گل ادب کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ قرار دینے والوں کے سخت خلاف ہیں
ISLAMABAD:
پشتو کے قارئینِ شعروادب کے لیے حسینہ گُل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، لیکن اردو کا قاری اپنے سخن میں احساسات کی ایک دنیا بسائے اس شاعرہ سے ناواقف ہیں۔
علمی خاندان میں 22 جون 1968ء کو زیارت کاکا صاحب، نوشہرہ میں میاں مظہر شاہ کاکاخیل کے علمی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی حسینہ گل نے شاعری کا آغاز ا سکول کے زمانے میں اردو زبان سے کیا، مگر اردو میں لکھتے ہوئے وہ اپنی تحریروں میں ایک کمی محسوس کیا کرتی تھیں۔
جب انہوں نے اپنی اس بے اطمینانی کا اظہار اپنے والد سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ اردو کے بجائے اپنی مادری زبان پشتو میں لکھنا شروع کردیں۔ انھوں نے پشتو کو وسیلۂ اظہار بنایا اور ان کی کاوشوں کو پذیرائی ملنے لگی، جس سے حوصلہ پاکر حسینہ گل نے اپنے آپ کو پشتو زبان اور ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے وقف کردیا اور آہستہ آہستہ ان کی شاعری اور افسانوں کی مقبولیت نوشہرہ سے نکل کر پورے صوبے میں پھیل گئی گئی۔
حسینہ گل نے ریڈیو کے لیے ڈرامے، فیچرز ادبی اور خصوصاًً خواتین کے لیے مختلف موضوعات پر اسکرپٹ لکھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ وہ ریڈیو اور مختلف میگزین کے لیے لکھتی ہیں۔ کافی عرصے تک ریڈیو کے ادبی پروگرام ''ادبی کاروان'' کی کمپیئرنگ کرچکی ہیں۔ اب تک سیکڑوں کی تعداد میں ریڈیائی اور پشاور ٹیلی وژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھ چکی ہیں۔
ادبی سرگرمیوں کے ساتھ وہ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔ اب تک ان کی شاعری، افسانوں، تحقیق اور سفرناموں پر مبنی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ وہ2001 کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے گاؤں کی یونین کونسل سے کونسلر منتخب ہوئیں تھیں اور پورے تحصیل نوشہرہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی ضلع نوشہرہ کی کوآرڈینیٹر بھی رہی ہیں۔ بہت سے ادبی اور علمی سیمیناروں کانفرنسوں میں اندرون اور بیرون ملک شرکت کرچکی ہیں۔
حسینہ گُل اپنے ہر جذبے اور احساس کو خوب صور تخلیقی زبان میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔انہیں ترقی پسند فکر سے دلی لگاؤ ہے۔ وہ پشتو شاعری کو اپنی روایات کی امین کہتی ہیں۔ عوامی اصناف کو نئے رنگ اور طرز میں پیش کرنے کے حق میں ہیں۔
انہیں روایتی قصے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بہت شوق ہے اور اسے اپنی تاریخ کا ایک اہم باب کہتی ہیں۔ وہ ادب کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ قرار دینے والوں کے سخت خلاف ہیں۔ پشتو زبان کے جملہ مسائل کا حل سرکاری سرپرستی کو قرار دیتی ہیں۔ حسینہ گل کے خیال میں آج پوری دنیا بدل چکی ہے زبانوں اور ثقافتوں کا وہ رنگ قائم نہیں رہا لیکن پھر بھی ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے۔ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ادب اور زندگی ان تبدیلیوں سے ضرور متاثر ہوتی ہے ۔
وہ آزاد نظم کو ایک مشکل صنف قرار دیتی ہیں۔ ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے ادبی اور قومی تحریکوں کو خوش آئند قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقتاً فوقتاً جو بھی قومی تحریک اٹھی ہے وہ پشتو زبان و ادب کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے، مثلاً بایزید انصاری المعروف پیر روخان کی روشنائی تحریک اس کے مخالف اخون درویزہ بابا کی تحریک۔ وہ خوش حال خان خٹک اور بیسویں صدی میں خان عبدالغفارخان کی خدائی خدمت گار تحریک کو پشتو زبان اور ادب کی ترقی کی بنیاد قرار دیتی ہیں۔
شاعری میں مناسب تلمیح، علامات اور خوب صورت استعاروں کو شاعری کی روح کانام دیتی ہیں۔ وہ تمام فنون لطیفہ کو قدرت کی جانب سے ایک مقدس عطیہ قرار دیتی ہیں۔ ادب کو ایک سماجی عمل اور خدمت گردانتی ہیں۔ ادب اور فن کی دنیا کو پیار ومحبت کی خوب صورت دنیا کا نام دیتی ہیں۔
ان کی شاعری میں انسانی المیوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ وہ عورت کی شخصی آزادی کی طرف دار ہیں اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک شاعرہ پیدا کیا ہے اور پھر ان کے جیون ساتھی وارث نایاب بھی ایک اچھے شاعر ادیب ہیں۔
حسینہ گل مرحوم امیر حمزہ خان شنواری کی غزل، خاطر آفریدی کی شاعری کی سادگی اور بے ساختگی کی گرویدہ ہیں۔ اردو شعراء میں غالب اور پشتو میں رحمان بابا کو آئیڈیل قرار دیتی ہیں۔ قلندر مومند اور سلیم راز کو بیسویں اور اکیسویں صدی کے بڑے پشتون نقاد مانتی ہیں۔ اب تک ہندوستان، افغانستان اورقطر کے ادبی دورے کرچکی ہیں۔
انہیں بہترین شاعری، افسانہ نگاری اور ڈراما نگاری پر کئی غیرسرکاری ادبی اور ثقافتی تنظیموں نے ایوارڈز اور اسناد سے نوازا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کا سفر نامہ بھی لکھا ہے، جو طباع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں اور ڈراموں کے کئی مسودے اشاعت کے منتظر ہیں۔
پشتو میں بڑے جرأت مندانہ انداز میں نسوانی جذبات اور احساسات کو خوب صورت ادبی قالب اور زبان میں پیش کرنے کی وجہ سے انہیں پشتو کی پروین شاکر اور کشور ناہید بھی کہا جاتا ہے۔
پشتو کے قارئینِ شعروادب کے لیے حسینہ گُل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، لیکن اردو کا قاری اپنے سخن میں احساسات کی ایک دنیا بسائے اس شاعرہ سے ناواقف ہیں۔
علمی خاندان میں 22 جون 1968ء کو زیارت کاکا صاحب، نوشہرہ میں میاں مظہر شاہ کاکاخیل کے علمی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی حسینہ گل نے شاعری کا آغاز ا سکول کے زمانے میں اردو زبان سے کیا، مگر اردو میں لکھتے ہوئے وہ اپنی تحریروں میں ایک کمی محسوس کیا کرتی تھیں۔
جب انہوں نے اپنی اس بے اطمینانی کا اظہار اپنے والد سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ اردو کے بجائے اپنی مادری زبان پشتو میں لکھنا شروع کردیں۔ انھوں نے پشتو کو وسیلۂ اظہار بنایا اور ان کی کاوشوں کو پذیرائی ملنے لگی، جس سے حوصلہ پاکر حسینہ گل نے اپنے آپ کو پشتو زبان اور ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے وقف کردیا اور آہستہ آہستہ ان کی شاعری اور افسانوں کی مقبولیت نوشہرہ سے نکل کر پورے صوبے میں پھیل گئی گئی۔
حسینہ گل نے ریڈیو کے لیے ڈرامے، فیچرز ادبی اور خصوصاًً خواتین کے لیے مختلف موضوعات پر اسکرپٹ لکھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ وہ ریڈیو اور مختلف میگزین کے لیے لکھتی ہیں۔ کافی عرصے تک ریڈیو کے ادبی پروگرام ''ادبی کاروان'' کی کمپیئرنگ کرچکی ہیں۔ اب تک سیکڑوں کی تعداد میں ریڈیائی اور پشاور ٹیلی وژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھ چکی ہیں۔
ادبی سرگرمیوں کے ساتھ وہ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں۔ اب تک ان کی شاعری، افسانوں، تحقیق اور سفرناموں پر مبنی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ وہ2001 کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے گاؤں کی یونین کونسل سے کونسلر منتخب ہوئیں تھیں اور پورے تحصیل نوشہرہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی ضلع نوشہرہ کی کوآرڈینیٹر بھی رہی ہیں۔ بہت سے ادبی اور علمی سیمیناروں کانفرنسوں میں اندرون اور بیرون ملک شرکت کرچکی ہیں۔
حسینہ گُل اپنے ہر جذبے اور احساس کو خوب صور تخلیقی زبان میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔انہیں ترقی پسند فکر سے دلی لگاؤ ہے۔ وہ پشتو شاعری کو اپنی روایات کی امین کہتی ہیں۔ عوامی اصناف کو نئے رنگ اور طرز میں پیش کرنے کے حق میں ہیں۔
انہیں روایتی قصے کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بہت شوق ہے اور اسے اپنی تاریخ کا ایک اہم باب کہتی ہیں۔ وہ ادب کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ قرار دینے والوں کے سخت خلاف ہیں۔ پشتو زبان کے جملہ مسائل کا حل سرکاری سرپرستی کو قرار دیتی ہیں۔ حسینہ گل کے خیال میں آج پوری دنیا بدل چکی ہے زبانوں اور ثقافتوں کا وہ رنگ قائم نہیں رہا لیکن پھر بھی ہمیں اپنے ماضی پر فخر ہے۔ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ادب اور زندگی ان تبدیلیوں سے ضرور متاثر ہوتی ہے ۔
وہ آزاد نظم کو ایک مشکل صنف قرار دیتی ہیں۔ ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے ادبی اور قومی تحریکوں کو خوش آئند قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وقتاً فوقتاً جو بھی قومی تحریک اٹھی ہے وہ پشتو زبان و ادب کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے، مثلاً بایزید انصاری المعروف پیر روخان کی روشنائی تحریک اس کے مخالف اخون درویزہ بابا کی تحریک۔ وہ خوش حال خان خٹک اور بیسویں صدی میں خان عبدالغفارخان کی خدائی خدمت گار تحریک کو پشتو زبان اور ادب کی ترقی کی بنیاد قرار دیتی ہیں۔
شاعری میں مناسب تلمیح، علامات اور خوب صورت استعاروں کو شاعری کی روح کانام دیتی ہیں۔ وہ تمام فنون لطیفہ کو قدرت کی جانب سے ایک مقدس عطیہ قرار دیتی ہیں۔ ادب کو ایک سماجی عمل اور خدمت گردانتی ہیں۔ ادب اور فن کی دنیا کو پیار ومحبت کی خوب صورت دنیا کا نام دیتی ہیں۔
ان کی شاعری میں انسانی المیوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ وہ عورت کی شخصی آزادی کی طرف دار ہیں اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک شاعرہ پیدا کیا ہے اور پھر ان کے جیون ساتھی وارث نایاب بھی ایک اچھے شاعر ادیب ہیں۔
حسینہ گل مرحوم امیر حمزہ خان شنواری کی غزل، خاطر آفریدی کی شاعری کی سادگی اور بے ساختگی کی گرویدہ ہیں۔ اردو شعراء میں غالب اور پشتو میں رحمان بابا کو آئیڈیل قرار دیتی ہیں۔ قلندر مومند اور سلیم راز کو بیسویں اور اکیسویں صدی کے بڑے پشتون نقاد مانتی ہیں۔ اب تک ہندوستان، افغانستان اورقطر کے ادبی دورے کرچکی ہیں۔
انہیں بہترین شاعری، افسانہ نگاری اور ڈراما نگاری پر کئی غیرسرکاری ادبی اور ثقافتی تنظیموں نے ایوارڈز اور اسناد سے نوازا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کا سفر نامہ بھی لکھا ہے، جو طباع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں اور ڈراموں کے کئی مسودے اشاعت کے منتظر ہیں۔
پشتو میں بڑے جرأت مندانہ انداز میں نسوانی جذبات اور احساسات کو خوب صورت ادبی قالب اور زبان میں پیش کرنے کی وجہ سے انہیں پشتو کی پروین شاکر اور کشور ناہید بھی کہا جاتا ہے۔