ایک اور ٹارگٹ کلنگ

راقم کے خیال میں ہمارے استاد کی مذکورہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

apro_ku@yahoo.com

جب ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز میں سبین محمود کی ٹارگٹ کلنگ کی خبر نشر ہوئی تو دل یک دم اداس ہوگیا کہ کس قدر خوبصورت چہرہ اور اس کی قابل دید مسکراہٹ لمحے بھر میں ختم کردی گئی۔ چند روز تک دل میں یہی خیال آرہا تھا کہ اس شہر سے کتنے ہی مسکراتے چہرے یوں لمحے بھر میں ختم کیے جاتے رہے ہیں۔ ابھی کچھ ذہنی طور پر سکون میسر آیا ہی تھا کہ ایک اور ہنستا مسکراتا چہرہ فیڈرل بی ایریا کراچی کے علاقے میں ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔

جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر جو یاسر رضوی کے نام سے پہچانے جاتے تھے جن کا اصل نام وحید الرحمن تھا جب ٹارگٹ کلنگ کرکے قتل کردیے گئے تو ان کی اس شہادت پر بھی ان کے ساتھیوں اور طلبا کو یقین نہیں آتا تھا۔ صبح و شام ہم جس چہرے کو ہنستا، مسکراتا اور ہنساتا دیکھتے تھے وہ یکدم خاموش ہوگیا، ہمیشہ کے لیے۔ پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اس واقعے پر آنسوؤں کے ساتھ رو رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ میرا اس سے خونی رشتہ نہیں تھا مگر آج لگ رہا ہے کہ میرا بیٹا اس دنیا سے چلا گیا۔

اس شہر میں ایسے لوگوں کو ٹارگٹ کرکے ختم کیا جارہا ہے کہ جن کے بارے میں یہ رائے ہے کہ ان کا کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا یا تنازعہ نہ تھا بلکہ وہ تو انتہائی پر امن اور ملنسار لوگ تھے۔ یقیناً یہ سوال بڑا اہم ہے کہ آخر اس قسم کی ٹارگٹ کلنگ کرنے یا کرانے والے کیا چاہتے ہیں؟ مجھے نہیں معلوم کہ اس سوال کا جواب کیا ہے تاہم یہاں دو چھوٹی چھوٹی کہانیاں پیش کررہا ہوں کہ شاید کسی کی سمجھ میں کوئی بات آجائے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ پرائمری کلاس میں اردو کی ایک کتاب میں ایک غریب آدمی کی کہانی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس غریب آدمی کی جھونپڑی کے قریب ایک امیر آدمی کی کوٹھی تھی۔ امیر آدمی اکثر یہ سوچتا تھا کہ غریب آدمی کی جھونپڑی اس کی کوٹھی کی خوبصورتی اور اہمیت کو کم کررہی ہے، چنانچہ اس امیر آدمی نے ایک روز منصوبے کے تحت رات کے وقت غریب آدمی کی جھونپڑی میں آگ لگوادی۔ جب جھونپڑی جلنے لگی تو امیر آدمی دل ہی دل میں بہت خوش ہورہا تھا کہ چلو آج قصہ تمام ہوا۔ کچھ ہی دیر بعد اتفاق سے جلتی ہوئی جھونپڑی سے ایک چنگاری اڑ کر امیر آدمی کی کوٹھی پر اس طرح گری کہ اس میں بھی آگ لگ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امیر آدمی کی کوٹھی بھی جل کر راکھ بن گئی۔

ایک اور کہانی جو راقم نے کہیں پڑھی تھی یہ ہے کہ ایک شخص ٹائر پنکچر کا کام کرتا تھا۔ اس کی ایک بہن تھی جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور اس کی شادی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتاتھا۔ پنکچر کے کام میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے اور اپنی بہن کی شادی کرنے کے لیے وہ ہر وقت سوچتا رہتا تھا۔ زیادہ رقم کمانے کے لیے اس نے اپنی پنکچر کی دکان کے قریب راستے میں دور تک کیل اس طرح بکھیر کر رکھ دیے تھے کہ جو بھی گاڑی وہاں سے گزرتی اس میں پنکچر ضرور ہوجاتا اور چوں کہ قریب میں کوئی اور پنکچر والا بھی نہیں تھا اس لیے سب گاڑی والے اس کی دکان سے ہی پنکچر لگواتے تھے۔


خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز اس کی بہن کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور ایمرجنسی میں اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس منگوائی گئی۔ ابھی ایمبولینس اس کی بہن کو لے کر چلی ہی تھی کہ پنکچر ہوگئی۔ اس شخص نے کہاکہ کوئی مسئلہ نہیں میں ابھی پنکچر لگادیتا ہوں، اس نے جلدی جلدی پنکچر لگادیا مگر گاڑی دوبارہ اور پھر تیسر بار پنکچر ہوگئی۔ یوں اس کی بہن بروقت اسپتال نہ پہنچنے کے باعث اس کی آنکھوں کے سامنے ایمبولینس میں ہی دم توڑ گئی اور یوں وہ عمل جس کے ذریعے وہ اپنی بہن کی شادی کا جہیز جمع کرنے کی کوشش کررہا تھا اسی عمل یعنی گاڑیاں پنکچر کرنے کی حکمت عملی نے اس کی بہن کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔

انسان جب اپنی عقل کے بل بوتے پر قوانین فطرت اور خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑ کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے بظاہر تو وہ اس میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن آخر کار کبھی بھی مطلوبہ نتائج صد فی صد حاصل نہیں ہوتے اور آخر کار پچھتاوا رہ جاتا ہے۔

معاشرتی مسائل اور معاشرتی انتشار ایک دن ہی ظہور پذیر نہیں ہوتے، گویا وقت کرتا ہے برسوں پرورش، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ جس وقت جامعہ کراچی میں اساتذہ اپنے ساتھی کی ٹارگٹ کلنگ پر اظہار خیال کررہے تھے ان ہی میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے ایک استاد نے بڑی اہم بات کی طرف توجہ مبذول کرائی، ان کا کہناتھا کہ ایک استاد ہی معاشرے کے افراد کی تربیت کرتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے طلبا کی درست تربیت نہیں کررہے ہیں، اس لیے معاشرے میں اس قسم کے افراد آج ہم سب کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں، اگر ہم اچھے طلبا پیدا کریں تو معاشرے کے ہر ادارے میں بھی اچھے لوگ نظر آئیںگے خواہ وہ پولیس افسر ہی کیوں نہ ہوں۔

راقم کے خیال میں ہمارے استاد کی مذکورہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آج اگر غور کیا جائے تو ہمارے ہاں ایک معاشرتی خرابی یہ بھی ہے کہ والدین بھی بچوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی صحیح تربیت نہیں کرتے بلکہ عموماً صرف پیسہ کمانے کی ہوشیاری سکھاتے ہیں، اس لیے آج جامعات میں بھی ان ہی شعبوں میں داخلوں کے لیے زبردست مانگ ہے جن سے فارغ التحصیل طلبا کو اچھی نوکریاں ملتی ہیں یعنی وہ مضامین جو پروفیشنل ہیں۔ دانشور پیدا کرنے والے شعبہ جات کی آج کوئی مانگ نہیں۔ دوسری خرابی اس معاشرے کی یہ ہے کہ اساتذہ بھی طلبا کو وقت نہیں دیتے نہ ہی ان کی تربیت یعنی اخلاق و کردار کی طرف توجہ دیتے ہیں، تعلیمی اداروں میں طالب علم کو اپنے اساتذہ سے علم نہیں مل رہا، مل رہا ہے تو کوچنگ سینٹرز سے کہ جہاں شام کو وہی استاد محنت سے پڑھا رہا ہے جو صبح کے وقت اپنے طلبا کو وقت بھی پوری طرح نہیں دیتا۔

آج کے ایک استاد کو اور محلے داروں اور والدین کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہم اپنی نئی نسل کو وقت کیوں نہیں دیتے؟ ان کے اخلاق و کردار کے حوالے سے ہم کیا کررہے ہیں؟

آیئے کچھ دیر کے لیے غور کریں کہ اس معاشرے کو اس مقام تک پہنچانے میں ہم سب کا کس حد تک ہاتھ ہے؟ ہم سب اس معاشرے کو بہتر بنانے میں کیاکچھ کردار ادا کرسکتے ہیں، ہم کیا بورہے ہیں اور کل کیا کاٹنے کی توقع کررہے ہیں؟ کیا ہم کل وہی کچھ نہیں کاٹیں گے جو آج بورہے ہیں؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہم سب کو ایک سبزی فروش والے سے لے کر اس ملک کے کسی بھی ادارے کے ایک اعلیٰ عہدیدار تک۔
Load Next Story