مقامی کمپنیاں نظرانداز ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد میں اضافہ
جولائی 2013 سے اب تک 10 ہزار سے زائد 3 سال پرانی ہائبرڈ گاڑیاں درآمد کی گئیں
گاڑیوں کی درآمد پر امپورٹرز کو بے جا مراعات اور مقامی کار ساز کمپنیوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ملک میں ایندھن کی بچت کرنے والی ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پرانی گاڑیوں کے درآمدکنندگان نے ڈیوٹیوں کی چھوٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جولائی 2013 سے اب تک 10 ہزار سے زائد تین سال پرانی ہائبرڈ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔ ان میں سے 8 ہزار گاڑیاں 1300سی سی اور 1500سی سی انجن والی گاڑیاں جبکہ باقی 1800سی سی کی بڑی لگژری گاڑیاں تھیں۔ 300 سے زائد پرانی ہائبرڈ گاڑیاں صرف گزشتہ دو ماہ میں درآمد کی گئی ہیں۔ دوسری طرف ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے سرکاری ڈیلرشپ کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں جو اب تک دوہرے ہندسے سے بھی آگے نہیں بڑھے ہیں۔ ایک مارکیٹ سروے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ امپورٹرز غیراستعمال شدہ نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدتے ہیں اور ہائبرڈ گاڑیوں پر دی جانے والے ڈیوٹی چھوٹ سے فائدہ اٹھا کر انہیں زیادہ قیمتوں پر فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کررہے ہیں۔
مقامی آٹو انڈسٹری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایس آر او 499(I)/2013 میں ترمیم کی جائے تاکہ نئی الیکٹرک ہائبرڈ گاڑیاں صارفین کیلیے سستی ہوسکیں اور درآمد اور فروخت سے حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔ اس طرح صارفین بھی گاڑیوں کی مرمت اور اسے ٹھیک کروانے کی پریشانی سے آزاد ہوسکیں۔پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن(پاما)نے اپنی بجٹ تجاویز 2015-16 میں بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہائبرڈ گاڑیوں کی فروخت اور درآمد کے مرحلوں پر انڈسٹری کو سیلز ٹیکس کے ضمن میں چھوٹ دی جائے۔ اس سہولت سے ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوگی اور سی بی یو گاڑیوں کی درآمد پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے گا جو سی کے ڈیز کی درآمد پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس آر او 499(I)/2013کے تحت ملک میں ڈیوٹی چھوٹ کے ساتھ ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت ہے جو مکمل گاڑی سی بی یو کی درآمد پر دی گئی ہے۔ موجودہ ڈیوٹی چھوٹ 1800cc تک کی گاڑیوں کے لیے 50 فیصد ہے جبکہ اس سے بڑی 2500cc کی گاڑیوں کے لیے 25 فیصد ڈیوٹی کی چھوٹ ہے۔ پاما نے کہا کہ یہ چھوٹ سی کے ڈی اور پرزہ جات کے لیے بھی دینی چاہیے تاکہ مقامی سطح پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوسکے۔ اس سہولت سے مقامی کارساز اداروں کو پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے میں مدد ملے گی۔اسی طرح ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات کی تیاری اور مقامی سطح پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات بھی مقامی سطح پر بنائیں جاسکیں گے۔اس طرح حکومت ایندھن کی بچت کے اپنے مقصد میں بھی کامیاب ہوسکے گی۔
پاما کی بجٹ تجاویز میں غیر رجسٹرڈ افراد اور غیر دستاویزی سیکٹر کو سیلز ٹیکس کی مد میں پہنچنے والے فرق کے فائدے کو بھی اجاگر کیا گیا۔ گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سیلز ٹیکس کے فرق کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ایس آر او کے تحت کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں چھوٹ صرف ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی ہے۔ رجسٹرڈ کمپنیوں کی طرف سے ان گاڑیوں کی فروخت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ ڈیلرز کو ایسا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا اور انہیں یہ گاڑیاں مزید سستی پڑتی ہیں۔ اسی طرح پرانی گاڑیوں کے امپورٹرز کو امپورٹ کے مرحلے پر بھی چھوٹ کا فائدہ ملتا ہے۔ غیر دستاویزی شعبے کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ ٹیکس دینے والا شعبہ اس سے محروم ہے۔
ذرائع کے مطابق پرانی گاڑیوں کے درآمدکنندگان نے ڈیوٹیوں کی چھوٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جولائی 2013 سے اب تک 10 ہزار سے زائد تین سال پرانی ہائبرڈ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔ ان میں سے 8 ہزار گاڑیاں 1300سی سی اور 1500سی سی انجن والی گاڑیاں جبکہ باقی 1800سی سی کی بڑی لگژری گاڑیاں تھیں۔ 300 سے زائد پرانی ہائبرڈ گاڑیاں صرف گزشتہ دو ماہ میں درآمد کی گئی ہیں۔ دوسری طرف ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے سرکاری ڈیلرشپ کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں جو اب تک دوہرے ہندسے سے بھی آگے نہیں بڑھے ہیں۔ ایک مارکیٹ سروے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ امپورٹرز غیراستعمال شدہ نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدتے ہیں اور ہائبرڈ گاڑیوں پر دی جانے والے ڈیوٹی چھوٹ سے فائدہ اٹھا کر انہیں زیادہ قیمتوں پر فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کررہے ہیں۔
مقامی آٹو انڈسٹری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایس آر او 499(I)/2013 میں ترمیم کی جائے تاکہ نئی الیکٹرک ہائبرڈ گاڑیاں صارفین کیلیے سستی ہوسکیں اور درآمد اور فروخت سے حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔ اس طرح صارفین بھی گاڑیوں کی مرمت اور اسے ٹھیک کروانے کی پریشانی سے آزاد ہوسکیں۔پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن(پاما)نے اپنی بجٹ تجاویز 2015-16 میں بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہائبرڈ گاڑیوں کی فروخت اور درآمد کے مرحلوں پر انڈسٹری کو سیلز ٹیکس کے ضمن میں چھوٹ دی جائے۔ اس سہولت سے ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوگی اور سی بی یو گاڑیوں کی درآمد پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے گا جو سی کے ڈیز کی درآمد پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایس آر او 499(I)/2013کے تحت ملک میں ڈیوٹی چھوٹ کے ساتھ ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت ہے جو مکمل گاڑی سی بی یو کی درآمد پر دی گئی ہے۔ موجودہ ڈیوٹی چھوٹ 1800cc تک کی گاڑیوں کے لیے 50 فیصد ہے جبکہ اس سے بڑی 2500cc کی گاڑیوں کے لیے 25 فیصد ڈیوٹی کی چھوٹ ہے۔ پاما نے کہا کہ یہ چھوٹ سی کے ڈی اور پرزہ جات کے لیے بھی دینی چاہیے تاکہ مقامی سطح پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری ممکن ہوسکے۔ اس سہولت سے مقامی کارساز اداروں کو پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے میں مدد ملے گی۔اسی طرح ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات کی تیاری اور مقامی سطح پر گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سے ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہائبرڈ گاڑیوں کے پرزہ جات بھی مقامی سطح پر بنائیں جاسکیں گے۔اس طرح حکومت ایندھن کی بچت کے اپنے مقصد میں بھی کامیاب ہوسکے گی۔
پاما کی بجٹ تجاویز میں غیر رجسٹرڈ افراد اور غیر دستاویزی سیکٹر کو سیلز ٹیکس کی مد میں پہنچنے والے فرق کے فائدے کو بھی اجاگر کیا گیا۔ گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سیلز ٹیکس کے فرق کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ ایس آر او کے تحت کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں چھوٹ صرف ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی ہے۔ رجسٹرڈ کمپنیوں کی طرف سے ان گاڑیوں کی فروخت پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ ڈیلرز کو ایسا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا اور انہیں یہ گاڑیاں مزید سستی پڑتی ہیں۔ اسی طرح پرانی گاڑیوں کے امپورٹرز کو امپورٹ کے مرحلے پر بھی چھوٹ کا فائدہ ملتا ہے۔ غیر دستاویزی شعبے کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ ٹیکس دینے والا شعبہ اس سے محروم ہے۔