لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی برآمد پر پابندی دبئی کی کمپنیوں نے لگوائی

متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانہ کئی سال سے لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی کی سفارش کررہا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانہ کئی سال سے لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی کی سفارش کررہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

ISLAMABAD:
متحدہ عرب امارات کے نئے قانون کے مطابق کھانے پینے کی غیرمعیاری اور ناقص اشیا کی سپلائی کرنے والے کو 3سال قید اور 2ملین اماراتی درہم جرمانے کا سامنا ہوسکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانہ کئی سال سے لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی کی سفارش کررہا ہے۔ پاکستانی وزارت تجارت نے ایک سال قبل ہی پھلوں کے پاکستانی ایکسپورٹرز کو مطلع کردیا تھا کہ آم کی ایکسپورٹ کے آئندہ سیزن سے تین ماہ قبل لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کردی جائیگی۔ دبئی میں پھلوں کی تجارت کرنے والی 40 بڑی کمپنیوں نے بھی پاکستان سے لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی درآمد پر پابندی کی حمایت کی ہے۔ لکڑی کی پیٹیوں میںپھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی سے متعلق پیدا کیے گئے ابہام دور ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس کو موصول ہونیوالی دستاویزات کے مطابق ابوظہبی میں پاکستانی سفارتخانے نے ایک سال قبل20اپریل 2014کو پاکستانی وزارت تجارت کو ارسال کردہ خط میں لکڑی کی پیٹیوں میں پھلوں کی ایکسپورٹ پر پابندی کی سفارش کی تھی اس خط میں خلیجی جریدے میں شائع ہونیوالی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے نئے قانون کے تحت ناقص اور غیرمعیاری خوردنی اشیا کی سپلائی کرنے والوں کو 3سال قید اور 2لاکھ اماراتی درہم تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ صرف پاکستان ایک واحد ملک ہے جو متحدہ عرب امارات کو لکڑی کی پیٹیوں اور کھلے ہوئے کنٹینرز میں پھل ایکسپورٹ کررہا ہے جس کیوجہ سے پھلوں کا معیار خراب ہوتاہے۔


اس خط کی روشنی میں وفاقی وزارت تجارت کے جوائنٹ سیکریٹری محمد عرفان تارڑ کے زیر صدارت 13جون 2014کو ہونے والے ایک اجلاس میں لکڑی کی پیٹیوں سے پاکستانی ایکسپورٹ کو درپیش خدشات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں ٹی ڈی اے پی، ایف بی آر، ڈی پی پی، پی ایچ ڈی ای سی سمیت پی ایف وی اے کے چیئرمین عبدالمالک، اسلم پکھالی اور محمد انصرنے شرکت کی اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان سے پھل درآمد کرنے والی ایک کمپنی الطاف اینڈ خماس کی ایک بڑی کنسائمنٹ لکڑی کی پیٹیوں میں پیکنگ کی وجہ سے اتھارٹیز نے قبضے میں لے لی اور آئندہ کے لیے سخت وارننگ جاری کی گئی۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات کو ایکسپورٹ کے لیے گتے کے کارٹن استعمال ہوں گے اور پابندی کا فیصلہ آئندہ سال یعنی 2015 کے سیزن شروع ہونے سے تین ماہ قبل کیا جائے گا تاکہ ایکسپورٹرز اور پیکنگ کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پاکستانی وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اینڈ ریسرچ کو ابوظہبی میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے 14اپریل 2015کو ایک مراسلہ اور متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی فروٹ مارکیٹ ''الاویر'' کی لگ بھگ 40 ٹریڈنگ کمپنیوں اور تھوک فروشوں کا اجتماعی خط بھی موصول ہوا۔ اے اے کے مڈل ایسٹ ، میراک ٹریڈنگ، تکبیر ٹریڈنگ کمپنی، ڈیزی فروٹ ٹریڈنگ، کرامات اینڈ خماس ٹریڈنگ، بن یاروف ٹریڈنگ، محمود ملک انٹرنیشنل جنرل ٹریڈنگ، ایم ڈی ایس فروٹ، جاسم خماس، رائل فروٹ ٹریڈنگ، العجم ٹریڈنگ، الشمسی فوڈ اسٹف، فریش فوڈ کمپنی، الہلال الفدی ٹریڈنگ، الطاف اینڈ خماس ٹریڈنگ، سالکو انٹرپرائزز، گلزار ٹریڈنگ اور دیگر سرفہرست کمپنیوں نے اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ لکڑی کی پیٹیوں پر پابندی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیرآصف درانی کے ذریعے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، ساتھ ہی پھلوں کا معیار بہتر بنانے اور مسابقت آسان بنانے کے لیے کھلے ہوئے کنٹینرز اور لکڑی کی کشتیوں کے ذریعے بھی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کی جائے۔

ٹریڈنگ کمپنیوں نے اپنے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی پھلوں کی غیر محفوظ لکڑی کی پیٹیوں اور اوپن ٹاپ کنٹینرز میں ایکسپورٹ نہ صرف دبئی کے فرماں رواشیخ محمد بن راشد المکتوم کے ویژن کے بھی منافی ہے۔ اس ویژن کی تکمیل کے لیے الاویر مارکیٹ میں قائم کی گئی خصوصی کمیٹی دبئی کی میونسپل کارپوریشن کی مدد سے کول چین انفرااسٹرکچر تعمیر کررہی ہے تاہم پاکستانی پھلوں کی عالمی معیار کے برعکس لکڑی کی پیٹیوں میں ایکسپورٹ سے کول چین برقرار رکھنے کیلیے اٹھائے گئے اقدامات کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
Load Next Story