جہد مسلسل
مسئلہ کشمیر ہمارے قومی اہداف کا اہم جزو ہے ہم اس مسئلے کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے
RAWALPINDI:
جس طرح ہر ملک کے اپنے قومی نظریات ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ قومی اہداف بھی ہوتے ہیں جنھیں مقدس و مقدم خیال کیا جاتا ہے اور ان کے حصول کے لیے پر خلوص جدوجہد کی جاتی ہے اور اگر انھیں حاصل کرلیا جاتا ہے تو ایسی قومیں کامیاب وکامران کہلاتی ہیں اور انھیں دوسری قومیں ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔
مسئلہ کشمیر ہمارے قومی اہداف کا اہم جزو ہے ہم اس مسئلے کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اس کا حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہیں نکلتا۔ پاکستانی قوم اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں اس لیے زیادہ جذباتی ہے کیونکہ یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا یہ احسان عظیم ہے کہ ان کے مدبرانہ اوردوراندیش وژن کی وجہ سے آج پاکستان کشمیر پر اپنا حق جتا رہا ہے اور وہ کشمیر کے ایک تہائی حصے کا مالک ہے۔ چونکہ پاکستان کے سارے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔
اسی لیے قائد اعظم نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کے قبضے میں ہے جسے آزاد کرانے کے لیے کشمیریوں کے ساتھ ملکر ہماری جدوجہد جاری ہے۔ بدقسمتی سے اب ہماری قوم میں کچھ ایسے بھی لوگ نظر آرہے ہیں جو کشمیرکو ایک بے جان مسئلہ اور اس کے حصول کو ناممکن سمجھنے لگے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ آخر وہ ایسا کیوں سمجھنے لگے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔
اس کی طاقت ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، چنانچہ اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے پھر اس وقت وہ مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے کیونکہ وہ ایک بڑی تجارتی منڈی ہے چنانچہ بہتر یہی ہے کہ اس کی معاشی ترقی سے فائدہ اٹھایا جائے اورکشمیر کے مسئلے کو آیندہ کے لیے اٹھا کر رکھ دیا جائے۔
بھارت سے تجارتی تعلقات نہ صرف اس کی مرضی کیمطابق استوار کیے جائیں بلکہ اسے فوری طور پر موسٹ فیورایبل نیشن کا درجہ دے دیا جائے اور مزید یہ کہ اسے افغانستان کے لیے راہداری دی جائے۔مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں میڈیا پاکستان کی طرح آزاد نہیں ہے وہاں کے اخبارات اہم ایشوز پر بھارتی حکومت کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے اور پھر بات ہو دشمن نمبر ایک پاکستان کی تو بھلا بھارتی اخبار یا کوئی ٹی وی چینل کی کیا مجال کہ وہ اپنی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسی کے خلاف جاسکے بلکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بھارت سرکار کی پالیسی سے دو ہاتھ بڑھ کر پاکستان کی مخالفت پر چار کرتے رہتے ہیں۔
اپنے عوام کے سامنے پاکستان کی وہ تصویرکشی کرتے رہتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ پاکستان ایک غریب لاچار اور دوسروں کے رحم وکرم پر پلنے والا ناکام ملک ہے۔
چینی صدرکے حالیہ پاکستان دورے کے بارے میں بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے دل کھول کر پاکستان کے خلاف پرچار کیا اور پاکستان کو زمین فروش تک کہا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا بھارت کبھی پاکستان کے ساتھ ایک سنجیدہ پڑوسی کا کردار ادا کرسکے گا؟ لگتا ہے ایسا ہونا بہت مشکل ہے کیوں کہ جس ملک نے پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہ کیا ہو اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بھارتی حکمرانوں کے دلوں سے پاکستان سے نفرت ختم نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے تعلقات سے تلخی ختم ہوسکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو اس مسئلے کو حل کرنے کے حق میں تھے ان کی ہی حکومت اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے کر گئی تھی اور انھوں نے اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کیا تھا پھر وہ کئی سال تک اپنے وعدے پر قائم رہے مگر انتہا پسند ذہنیت رکھنے والے کانگریسیوں اور مہاسبھائیوں نے انھیں اپنے وعدے کو پورا کرنے سے روکے رکھا۔
پھر اپنی عمر کے آخری ایام میں انھوں نے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیج کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کے اچانک انتقال کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ چونکہ کانگریس پارٹی اس مسئلے کے بھیانک مضمرات سے واقف ہے چنانچہ من موہن سنگھ کی حکومت نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی پیش رفت کرلی تھی مگر بدقسمتی سے یہ بات بھی آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ مشرف حکومت کا زوال شروع ہوگیا بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں اس مسئلے کو یکسر سردخانے میں ڈال دیا گیا اس میں بھی شک نہیں کہ اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف نے بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں کافی پیش رفت کی تھی مگر بی جے پی دراصل آر ایس ایس کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔
چنانچہ بی جے پی کوئی قدم آر ایس ایس کی اجازت کے بغیر نہیں اٹھا سکتی۔ اب حالات و واقعات سے پتہ چل رہا ہے کہ آر ایس ایس مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی نہیں بلکہ وہ کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانا چاہتی ہے۔
آر ایس ایس کی اسی پالیسی کو نریندر مودی لے کر چل رہے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارتی آئین سے شق 370کو خارج کرنے کے لیے بحث چھیڑ دی مگر کشمیریوں نے مودی کی چال کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا بلکہ پاکستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وادی میں بڑی بڑی ریلیاں نکال کر ان میں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے اور پاکستانی پرچموں کو خوب لہرایا گیا۔
ابھی حال میں جیل سے رہا کیے گئے حریت رہنما مسرت عالم نے ان ریلیوں کے انعقاد میں آزادی کشمیر کے عظیم رہنما علی شاہ گیلانی کا پہلو بہ پہلو ساتھ دیا۔ بی جے پی کی حکومت ان ریلیوں سے اس قدر لرز گئی کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو فوراً حکم صادر کردیا کہ وہ ان ریلیوں کو روکے پاکستان زندہ باد کے نعروں اور پاکستانی پرچموں کے لہرانے کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
مفتی سعید حکومت نے بی جے پی کی اس دھمکی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اس لیے کہ اب کشمیر کے بھارت نواز رہنماؤں کے رویوں میں بھی کافی تبدیلی آچکی ہے۔ وہ اب کشمیریوں پر بھارتی سات لاکھ فوج کے ڈھائے گئے ظلم و ستم کا خود کو ذمے دار سمجھنے لگے ہیں۔ محبوبہ مفتی پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی ملنا چاہیے نیز بھارت پاکستان سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کا جلد حل نکالے۔عمر عبداللہ کا رویہ بھی اب بھارت کے تئیں کافی بدل چکا ہے۔
چنانچہ ایسے حالات میں اب بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے پیش قدمی کرنا چاہیے۔ دراصل اسی میں دونوں ممالک کے عوام کی فلاح مضمر ہے اور خطے کا امن بھی یہی تقاضا کرتا ہے۔
جس طرح ہر ملک کے اپنے قومی نظریات ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ قومی اہداف بھی ہوتے ہیں جنھیں مقدس و مقدم خیال کیا جاتا ہے اور ان کے حصول کے لیے پر خلوص جدوجہد کی جاتی ہے اور اگر انھیں حاصل کرلیا جاتا ہے تو ایسی قومیں کامیاب وکامران کہلاتی ہیں اور انھیں دوسری قومیں ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔
مسئلہ کشمیر ہمارے قومی اہداف کا اہم جزو ہے ہم اس مسئلے کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اس کا حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہیں نکلتا۔ پاکستانی قوم اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں اس لیے زیادہ جذباتی ہے کیونکہ یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کا یہ احسان عظیم ہے کہ ان کے مدبرانہ اوردوراندیش وژن کی وجہ سے آج پاکستان کشمیر پر اپنا حق جتا رہا ہے اور وہ کشمیر کے ایک تہائی حصے کا مالک ہے۔ چونکہ پاکستان کے سارے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔
اسی لیے قائد اعظم نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کے قبضے میں ہے جسے آزاد کرانے کے لیے کشمیریوں کے ساتھ ملکر ہماری جدوجہد جاری ہے۔ بدقسمتی سے اب ہماری قوم میں کچھ ایسے بھی لوگ نظر آرہے ہیں جو کشمیرکو ایک بے جان مسئلہ اور اس کے حصول کو ناممکن سمجھنے لگے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ آخر وہ ایسا کیوں سمجھنے لگے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔
اس کی طاقت ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، چنانچہ اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے پھر اس وقت وہ مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے کیونکہ وہ ایک بڑی تجارتی منڈی ہے چنانچہ بہتر یہی ہے کہ اس کی معاشی ترقی سے فائدہ اٹھایا جائے اورکشمیر کے مسئلے کو آیندہ کے لیے اٹھا کر رکھ دیا جائے۔
بھارت سے تجارتی تعلقات نہ صرف اس کی مرضی کیمطابق استوار کیے جائیں بلکہ اسے فوری طور پر موسٹ فیورایبل نیشن کا درجہ دے دیا جائے اور مزید یہ کہ اسے افغانستان کے لیے راہداری دی جائے۔مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں میڈیا پاکستان کی طرح آزاد نہیں ہے وہاں کے اخبارات اہم ایشوز پر بھارتی حکومت کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے اور پھر بات ہو دشمن نمبر ایک پاکستان کی تو بھلا بھارتی اخبار یا کوئی ٹی وی چینل کی کیا مجال کہ وہ اپنی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسی کے خلاف جاسکے بلکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ بھارت سرکار کی پالیسی سے دو ہاتھ بڑھ کر پاکستان کی مخالفت پر چار کرتے رہتے ہیں۔
اپنے عوام کے سامنے پاکستان کی وہ تصویرکشی کرتے رہتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ پاکستان ایک غریب لاچار اور دوسروں کے رحم وکرم پر پلنے والا ناکام ملک ہے۔
چینی صدرکے حالیہ پاکستان دورے کے بارے میں بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے دل کھول کر پاکستان کے خلاف پرچار کیا اور پاکستان کو زمین فروش تک کہا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا بھارت کبھی پاکستان کے ساتھ ایک سنجیدہ پڑوسی کا کردار ادا کرسکے گا؟ لگتا ہے ایسا ہونا بہت مشکل ہے کیوں کہ جس ملک نے پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہ کیا ہو اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بھارتی حکمرانوں کے دلوں سے پاکستان سے نفرت ختم نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے تعلقات سے تلخی ختم ہوسکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو اس مسئلے کو حل کرنے کے حق میں تھے ان کی ہی حکومت اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے کر گئی تھی اور انھوں نے اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کا وعدہ کیا تھا پھر وہ کئی سال تک اپنے وعدے پر قائم رہے مگر انتہا پسند ذہنیت رکھنے والے کانگریسیوں اور مہاسبھائیوں نے انھیں اپنے وعدے کو پورا کرنے سے روکے رکھا۔
پھر اپنی عمر کے آخری ایام میں انھوں نے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیج کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کے اچانک انتقال کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ چونکہ کانگریس پارٹی اس مسئلے کے بھیانک مضمرات سے واقف ہے چنانچہ من موہن سنگھ کی حکومت نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کافی پیش رفت کرلی تھی مگر بدقسمتی سے یہ بات بھی آگے نہ بڑھ سکی کیوں کہ مشرف حکومت کا زوال شروع ہوگیا بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں اس مسئلے کو یکسر سردخانے میں ڈال دیا گیا اس میں بھی شک نہیں کہ اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف نے بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں کافی پیش رفت کی تھی مگر بی جے پی دراصل آر ایس ایس کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے۔
چنانچہ بی جے پی کوئی قدم آر ایس ایس کی اجازت کے بغیر نہیں اٹھا سکتی۔ اب حالات و واقعات سے پتہ چل رہا ہے کہ آر ایس ایس مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی نہیں بلکہ وہ کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ بنانا چاہتی ہے۔
آر ایس ایس کی اسی پالیسی کو نریندر مودی لے کر چل رہے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارتی آئین سے شق 370کو خارج کرنے کے لیے بحث چھیڑ دی مگر کشمیریوں نے مودی کی چال کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا بلکہ پاکستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وادی میں بڑی بڑی ریلیاں نکال کر ان میں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے اور پاکستانی پرچموں کو خوب لہرایا گیا۔
ابھی حال میں جیل سے رہا کیے گئے حریت رہنما مسرت عالم نے ان ریلیوں کے انعقاد میں آزادی کشمیر کے عظیم رہنما علی شاہ گیلانی کا پہلو بہ پہلو ساتھ دیا۔ بی جے پی کی حکومت ان ریلیوں سے اس قدر لرز گئی کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو فوراً حکم صادر کردیا کہ وہ ان ریلیوں کو روکے پاکستان زندہ باد کے نعروں اور پاکستانی پرچموں کے لہرانے کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
مفتی سعید حکومت نے بی جے پی کی اس دھمکی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اس لیے کہ اب کشمیر کے بھارت نواز رہنماؤں کے رویوں میں بھی کافی تبدیلی آچکی ہے۔ وہ اب کشمیریوں پر بھارتی سات لاکھ فوج کے ڈھائے گئے ظلم و ستم کا خود کو ذمے دار سمجھنے لگے ہیں۔ محبوبہ مفتی پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی ملنا چاہیے نیز بھارت پاکستان سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کا جلد حل نکالے۔عمر عبداللہ کا رویہ بھی اب بھارت کے تئیں کافی بدل چکا ہے۔
چنانچہ ایسے حالات میں اب بھارت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے پیش قدمی کرنا چاہیے۔ دراصل اسی میں دونوں ممالک کے عوام کی فلاح مضمر ہے اور خطے کا امن بھی یہی تقاضا کرتا ہے۔