انقلاب محمدیؐ امن عالم کے لیے مشعل راہ

پورے انقلاب میں مخالف گروہ میں سے کسی کے ساتھ کبھی ناموس پر دست درازی کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

رسول انقلاب رحمۃ للعالمینؐ کا لایا ہوا نظام زندگی ساری دنیا کے لیے رحمت و برکت کا ذریعہ ہے اور یہی وہ واحد نظام ہے جس میں تمام دنیا کی فلاح وبہبود پوشیدہ ہے، یہی وہ واحد راستہ ہے جو تمام انسانیت کی نجات کا ذریعہ ہے اور یہی وہ نقش قدم ہیں جن پر چل کر دنیا تباہی سے بچ سکتی ہے اور طبقاتی، لسانی، قومی، علاقائی، سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور روحانی مسائل حل کرسکتی ہے۔

اسی نظام رحمت کی بدولت انسان رحمت کامل سے سرفراز اور بہرہ مند ہوسکتا ہے اور آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ جانے کے باوجود اپنی دنیا آپ گل وگلزار بنا سکتا ہے، رسول آخر الزماںؐ کا لایا ہوا یہ نظام رحمت آخری بھی ہے کامل بھی اور اس نظام کو لانے اور غالب کرنے والے بھی تنہا نبی کریمؐ ہی ہیں۔ آپؐ ہی کی معرفت سے دنیا اس نظام سے آشنا ہوئی، دین اسلام کی صورت میں یہ نظام تمام انسانوں کی طرف اللہ کا آخری پیغام ہے، یہ ایسا نظام کامل ہے کہ جس کے بعد دنیا کو کسی نئے انسان ، نئے نبی، نئے پیغام اور نئے نظام کی قطعی ضرورت نہیں، یہ نظام انسانیت، نظام رحمت ہے جو انسانیت کے لیے کامل اور کافی و شافی ہے۔

رحمۃللعالمینؐ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے، جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔ اس دین کو ہمارے نبی کریمؐ نے نہ صرف لوگوں کو بتایا اور سکھایا بلکہ ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کرکے دکھایا لہٰذا جس طرح رسول اکرمؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ بحیثیت ایک معلم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اسی طرح بحیثیت ایک ماہر سیاست اور مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔

حقیقی فضیلت وہ ہوتی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کریں، بنگالی ہندو، انٹرنیشنل کمیونسٹ آرگنائزیشن کے رکن ایم این رائے نے کہا ''اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمدؐ نے برپا کیا۔'' امریکی عیسائی مصنف ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے کتاب "The 100" لکھی اس کتاب میں اس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ میں سے ایسے ایک سو انسانوں کا انتخاب کرکے ان کی درجہ بندی کی ۔

جنھوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رخ کو موڑنے میں موثر کردار ادا کیا اور اس درجہ بندی میں وہ نمبر ایک پر لایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور تیسرے نمبر پر حضرت مسیحؑ کو رکھا، ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں ایک ہے مذہب، اخلاق اور روحانیت کا میدان جب کہ ایک ہے تمدن، تہذیب اور معاشرے کا میدان اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب انسانی تاریخ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

اسلام کا بدترین دشمن، عیسائی مورخ ایچ جی ویلز اپنی معروف تاریخ عالم میں آنحضورؐ کے خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا ''اگرچہ انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمدؐ ہی تھے جنھوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔''


چنانچہ دشمنوں کی گواہی سے بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا جو محمد رسول اللہؐ نے برپا فرمایا، انقلاب محمدیؐ کا انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے تقابل کریں تو نظر آتا ہے کہ انقلاب فرانس میں صرف سیاسی نظام بدلا اور انقلاب روس میں صرف معاشی نظام تبدیل ہوا۔ لیکن انقلاب محمدیؐ میں ہر چیز بدل گئی، مذہب، عقائد، رسومات بدل گئیں، سیاسی نظام، معاشی نظام اور معاشرت بھی بدل گئی۔

کوئی شے بھی اپنی سابقہ حالت پر قائم نہیں رہی، دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے وہ سب جزوی تھے، دنیا کا جامع ترین انقلاب محمد عربیؐ کا ہی انقلاب ہے، رسول اﷲ نے انقلابی دعوت کا آغاز بھی خود ہی فرمایا اور اسے کامیابی کی آخری منزل تک بھی خود پہنچایا، دنیا کے دیگر انقلابات میں سے کوئی بھی دوسرا انقلاب ایک حیات انسانی کے عرصے میں پورا نہیں کیا گیا، بلکہ فکر دینے والے مر کھپ گئے بعد میں کہیں وہ فکر پروان چڑھی اور اس کی بنیاد پر کہیں انقلاب آگیا اور وہ بھی کامل نہیں بلکہ جزوی یا ادھورا انقلاب، جب کہ محمد رسول اللہؐ کا انقلاب اس اعتبار سے منفرد اور لاثانی و لاجواب ہے کہ ایک انسانی زندگی کے اندر کل 23برس کے مختصر عرصے میں کامل انقلاب کے تمام مراحل بحسن و خوبی طے پاگئے۔

رسول انقلابؐ نے صرف 23 سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تربیت و تبلیغ سے پوری قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ قوم ایک بن گئی اور قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلا استثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا، آپؐ نے عرب جیسے ملک میں امن وعدل کی حکومت قائم فرمائی، قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں آپؐ کے انقلاب سے لرز اٹھیں، مشرکین و یہود آپؐ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے، سرکشوں کی اس طرح سرکوبی کی گئی کہ تمام انقلاب میں انسانی خون بہت کم بہا، نبی رحمتؐ سے قبل کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلاب میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن نبی کریمؐ کے دست مبارک سے جو عظیم ترین انقلاب وقوع پذیر ہوا اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود ان افراد کی تعداد چند سو سے زائد نہیں جو اس ساری جدوجہد کے دوران رحمۃ للعالمین کے ساتھیوں میں شہید ہوئے یا دشمنانان اسلام میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

پورے انقلاب میں مخالف گروہ میں سے کسی کے ساتھ کبھی ناموس پر دست درازی کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا، آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج اور حقیقی روح کے مطابق آگے بڑھایا کہ آپؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے تین بڑے براعظموں میں اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص کی کمی محسوس نہ ہوئی۔

انقلاب محمدیؐ نبی رحمتؐ کا واحد کمال نہیں بلکہ حضورؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے جب کہ پوری سیرت نبویؐ امت کے لیے بہترین نمونہ اور مشعل راہ ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کی ترقی و تعمیر اور فلاح و بہبود نیز امن و استحکام کا راز مضمر ہے۔

اسلامی نظریے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں انقلاب پہلے پیدا کرتا ہے اور بعد میں پھر خارج میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں دوسرے خودساختہ نظریات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ خارج میں تبدیلی کا منصوبہ تو پیش کرتے ہیں لیکن اندرون سے کوئی بحث نہیں کرتے جب کہ اسلام سب سے پہلے ایمان و اصلاح اور اللہ و رسولؐ کی محبت پر زور دیتا ہے اور جب یہ خصوصیات دل میں بسیرا کرلیتی ہیں تو فکر و نظر کا پیمانہ بدل جاتا ہے، سوچنے سمجھنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے، رجحان اور نقطہ نظر تبدیل ہوجاتا ہے اور انسان کی پوری شخصیت میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ ایسا انقلاب جو حقیقی معنوں میں دنیا کو بدل دیتا ہے، ایسے ہی حقیقی انقلاب کی دنیا کو آج پھر ضرورت ہے۔
Load Next Story