درخت لگا کر زمین کو بچاؤ
گاؤں سے آنے والے لوگ ان درختوں کے نیچے بیٹھ کر پانی بھی پیتے تھے اور کچھ دیر آرام کرتے تھے۔
ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی وجہ سے زمین کی اوزون سطح میں سوراخ ہوگیا ہے اورگرمی بڑھ رہی ہے۔اس کی بہت ساری وجوہات ہیں،جن میں دن بہ دن ایندھن کا زیادہ استعمال جس میں خاص طور پر وہ گاڑیاں جو دھواں چھوڑ رہی ہیں، فیکٹریوں کا زہریلا مواد سمندر اور دریائے سندھ کے علاوہ میٹھے پانی کی جھیلوں میں پہنچ رہا ہے، جس کا پانی ہم پیتے ہیں، جانور، پرندے اور مچھلیاں بھی اس میں پل رہی ہیں۔
جس کا براہ راست اثر انسانوں پر بھی ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے پاس سندھ میں اتنے جنگلات تھے کہ اس سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہوتی تھی اور فضائی اور زمینی ماحول صاف اور بہتر تھا۔ درخت نہ صرف زمین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ انسان، چرند پرند اورکیڑے مکوڑوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں جس میں پھلدار بھی ہوتے ہیں جن سے ہماری معیشت اور روزگار بڑھتا ہے بلکہ ہم مختلف ذائقے والے پھل کھاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے بڑے ضروری ہیں۔میں جب چھوٹا تھا تو میں نے دیکھا کہ سندھ کے ہر شہر میں ہر جگہ مختلف اقسام کے درخت لگے ہوتے تھے جس کے نیچے پانی پینے کے مٹکے رکھتے ہوتے تھے۔
گاؤں سے آنے والے لوگ ان درختوں کے نیچے بیٹھ کر پانی بھی پیتے تھے اور کچھ دیر آرام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھی ایک درخت ضرورت لگایا جاتا تھا۔ میں خاص طور پر لاڑکانہ کی بات کروں جہاں محلوں کے علاوہ مین شہر میں بھی نیم، برگ اور دوسرے اقسام کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے ہوتے تھے جو اب کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہم جب رائس کینال، دادو کینال یا پھر دوران سفر شاہراہ کے دونوں اطراف درخت ہی درخت دیکھتے تھے جن پر سفید چونا لگا کر نمبر لکھے جاتے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے گنتی ہوتی تھی کہ کہیں کسی نے کوئی درخت کاٹ تو نہیں دیا۔ یہ قانون کی بالادستی تھی کہ بڑے سے بڑے زمیندار یا عمل دار کو ہمت نہیں تھی کہ وہ درخت کو ہاتھ بھی لگائیں۔
سرکاری دفاتر کے باہر چاروں طرف درخت لگے ہوتے تھے۔ ہر طرف پارک ہوتے تھے جہاں پر درختوں کے نیچے لوگ دوپہر کو آکر تاش کھیلتے یا پھر شام کو کچہری کرتے تھے۔درختوں کی حفاظت کے سلسلے میں انگریز حکومت کا بڑا ہاتھ تھا جن کا حکم تھا کہ ناجائز اور خوامخواہ درخت کاٹنا جرم تھا۔ لوگوں کو بھی لالچ اور حرص نہیں تھا نہ دولت کمانے کی کوئی دوڑ تھی اس لیے انھیں بھی درختوں سے محبت تھی۔
انگریز درخت لگانیوالوں کی ہمت افزائی کرتے تھے اور انھیں سرٹیفکیٹ بھی دیتے تھے۔ آبپاشی عملداروںاور ریونیو محکمہ والوں کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے تھے وہ کسی کو بھی درخت کاٹنے کے جرم میں سزا اور جرمانہ کردیتے تھے۔ سمندر کے کناروں پر کراچی سے ٹھٹھہ، بدین تک چاروں طرف درختوں کے جھنڈ ہوتے تھے جس سے ساحلی علاقوں کو نہ صرف تحفظ تھا بلکہ وہ پرندوں، جانوروں، مچھلیوں اور دوسرے جیوت کے لیے خوراک مہیا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو درختوں کی اہمیت وافادیت کوجانتے تھے اس لیے جب انھوں نے دیکھا کہ درخت کم ہوتے جا رہے ہیں تو اس نے باہر سے Octopus اور کونوکاریس کے درخت لاڑکانہ میں ایئرپورٹ روڈ پر لگوائے اور شجرکاری مہم کو تقویت پہنچائی اور سال میں دو مرتبہ پودے لگانیوالی اسکیم کو زندہ کیا جس میں فاریسٹ محکمے کو فعال بنایا گیا جس نے ایک مرحلہ فروری جسے اسپرنگ ٹری پلانٹیشن اور دوسری مہم اگست میں شروع کروائی جسے مون سون ٹری پلانٹیشن کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں شہروں میں اور گاؤں میں نرسریوں کو فروغ دیا اور ڈی سی، ایس ڈی ایم اور مختیارکار فاریسٹرز کے ساتھ مل کر اہم اجلاس کرتے تھے جس میں یہ لازم تھا کہ اسکولوں، کالجوں، سرکاری دفاتر، شہر اور گاؤں میں درخت لگائے جائیں گے جس کے لیے پودے فاریسٹ محکمہ 5 پیسے میں پھر ایک روپے میں اور کبھی مفت مہیا کرتا تھا۔
بھٹو کے علاوہ وزرا، بیورو کریٹس، سیاسی شخصیات پودے لگاتے تھے تاکہ ملک اور سندھ کے اندر درختوں کی تعداد کو بڑھاکر ماحولیاتی پرابلم پر قابو پایاجائے۔مگر افسوس ہے کہ بھٹو کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ایک Formality رہ گیا، میٹنگز بھی ہوتی ہیں، پودے بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں صرف بڑے سیاستدان تصویر کھنچوانے اور ٹی وی کوریج کے لیے مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد مڑ کر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر سال لاکھوں پودے لگائے جاتے ہیں مگر کتنی تعداد ہے جو بچ گئے ہیں اور درخت بن گئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پودا لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر پودا لگانے کے بعد جو Post Care ہے وہ اہمیت رکھتا ہے۔ پودے کو پانی دینا، کھاد ڈالنا، اس کو مویشیوں سے بچانا وغیرہ شامل ہے جس کے لیے گاؤں میں کھجور کے پتوں سے اور شہروں میں لوہے کے گارڈز بناکر انھیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں مالی بھرتی کیے جاتے ہیں جو صرف افسران اور سیاستدانوں کے گھروں پر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے لگائے ہوئے درخت ختم ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس وقت پانی کی قلت نے شہروں اور گاؤں میں بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر کو پانی نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے پارک اور درخت سوکھ کر ختم ہو رہے ہیں جس کا منظر میں نے کچھ دن پہلے کراچی یونیورسٹی میں دیکھا جہاں پر چاروں طرف لگے ہوئے درخت سوکھے نظر آرہے تھے اور میدان بھی تھر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے باہر مین روڈ پرکچھ پرائیویٹ نرسریاں نظر آئیں جہاں پر پانی کی فراوانی نظر آئی۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ پورے سندھ میں جہاں بھی جاؤ مین روڈ، شہروں کے اندرونی اور بیرونی حصے خشک اور بغیر درختوں کے نظر آئیں گے۔
اس میں نہ صرف حکومت کا بلکہ ہم لوگوں کا بھی بڑا قصور ہے کہ ہم نے درختوں کی اہمیت سے منہ موڑ لیا ہے، لوگوں میں شعور کی کمی ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ درخت سے ان کے گھر میں جگہ کم ہوجاتی ہے، دکان چھپ جاتی ہے اور ان کے پاس وقت اور پانی کہاں ہے جو وہ پودوں کو سیراب کریں۔ بڑے بڑے جنگلات کاٹ کر ان پر مکان بنا دیے گئے ہیں، کھیت بنادیے گئے ہیں جہاں پر ہمیں مچھلی کے Artificial Ponds بھی نظر آئے۔ اس سلسلے میں حکومت نے یہ فاریسٹ یا تو کم قیمت پر لوگوں کو لیز کیا ہے یا پھر علاقے کے پاورفل زمینداروں نے قبضہ کرلیا ہے۔
حکومت صرف میڈیا اور اسمبلیوں میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں جب کہ عمل زیرو ہے۔اس سے پہلے کہ سندھ کی زمین مکمل طور پر بنجر بن جائے ہمیں اپنی بند آنکھیں کھولنی ہوں گی جس کے شعور کے لیے حکومت، میڈیا اور این جی اوز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ قانون کے ساتھ ساتھ عام اور خاص لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ آج کل ہم جس مسئلے سے گزر رہے ہیں جس میں بڑھتی ہوئی گرمی، پانی کی کمی، نیچرل ریسورسز کی تباہی اور ماحول کی گندگی شامل ہے اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور قدرتی آفتوں سے بچیں۔
درخت بچانے سے ہمارا گراؤنڈ واٹر بھی صاف اور زیادہ ہوگا، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہوگی۔ آپ اپنے ذہن میں تھر، کاچھو اور دوسرے حصوں کو لائیں کہ کئی سال سے پانی کی کمی نے خشک سالی پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے انسان، جانور، پرندے اور دوسری مخلوق بری طر متاثر ہو رہی ہے۔ میڈیا والوں کو لوگوں کے شعور کے لیے چھوٹے چھوٹے پروگرام مرتب کرنے چاہئیں۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اور درخت کاٹنا خون کرنے کے برابر ہے۔
جس کا براہ راست اثر انسانوں پر بھی ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے پاس سندھ میں اتنے جنگلات تھے کہ اس سے ہماری معیشت بھی مضبوط ہوتی تھی اور فضائی اور زمینی ماحول صاف اور بہتر تھا۔ درخت نہ صرف زمین کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ انسان، چرند پرند اورکیڑے مکوڑوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں جس میں پھلدار بھی ہوتے ہیں جن سے ہماری معیشت اور روزگار بڑھتا ہے بلکہ ہم مختلف ذائقے والے پھل کھاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے بڑے ضروری ہیں۔میں جب چھوٹا تھا تو میں نے دیکھا کہ سندھ کے ہر شہر میں ہر جگہ مختلف اقسام کے درخت لگے ہوتے تھے جس کے نیچے پانی پینے کے مٹکے رکھتے ہوتے تھے۔
گاؤں سے آنے والے لوگ ان درختوں کے نیچے بیٹھ کر پانی بھی پیتے تھے اور کچھ دیر آرام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھی ایک درخت ضرورت لگایا جاتا تھا۔ میں خاص طور پر لاڑکانہ کی بات کروں جہاں محلوں کے علاوہ مین شہر میں بھی نیم، برگ اور دوسرے اقسام کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے ہوتے تھے جو اب کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہم جب رائس کینال، دادو کینال یا پھر دوران سفر شاہراہ کے دونوں اطراف درخت ہی درخت دیکھتے تھے جن پر سفید چونا لگا کر نمبر لکھے جاتے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے گنتی ہوتی تھی کہ کہیں کسی نے کوئی درخت کاٹ تو نہیں دیا۔ یہ قانون کی بالادستی تھی کہ بڑے سے بڑے زمیندار یا عمل دار کو ہمت نہیں تھی کہ وہ درخت کو ہاتھ بھی لگائیں۔
سرکاری دفاتر کے باہر چاروں طرف درخت لگے ہوتے تھے۔ ہر طرف پارک ہوتے تھے جہاں پر درختوں کے نیچے لوگ دوپہر کو آکر تاش کھیلتے یا پھر شام کو کچہری کرتے تھے۔درختوں کی حفاظت کے سلسلے میں انگریز حکومت کا بڑا ہاتھ تھا جن کا حکم تھا کہ ناجائز اور خوامخواہ درخت کاٹنا جرم تھا۔ لوگوں کو بھی لالچ اور حرص نہیں تھا نہ دولت کمانے کی کوئی دوڑ تھی اس لیے انھیں بھی درختوں سے محبت تھی۔
انگریز درخت لگانیوالوں کی ہمت افزائی کرتے تھے اور انھیں سرٹیفکیٹ بھی دیتے تھے۔ آبپاشی عملداروںاور ریونیو محکمہ والوں کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے تھے وہ کسی کو بھی درخت کاٹنے کے جرم میں سزا اور جرمانہ کردیتے تھے۔ سمندر کے کناروں پر کراچی سے ٹھٹھہ، بدین تک چاروں طرف درختوں کے جھنڈ ہوتے تھے جس سے ساحلی علاقوں کو نہ صرف تحفظ تھا بلکہ وہ پرندوں، جانوروں، مچھلیوں اور دوسرے جیوت کے لیے خوراک مہیا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو درختوں کی اہمیت وافادیت کوجانتے تھے اس لیے جب انھوں نے دیکھا کہ درخت کم ہوتے جا رہے ہیں تو اس نے باہر سے Octopus اور کونوکاریس کے درخت لاڑکانہ میں ایئرپورٹ روڈ پر لگوائے اور شجرکاری مہم کو تقویت پہنچائی اور سال میں دو مرتبہ پودے لگانیوالی اسکیم کو زندہ کیا جس میں فاریسٹ محکمے کو فعال بنایا گیا جس نے ایک مرحلہ فروری جسے اسپرنگ ٹری پلانٹیشن اور دوسری مہم اگست میں شروع کروائی جسے مون سون ٹری پلانٹیشن کہا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں شہروں میں اور گاؤں میں نرسریوں کو فروغ دیا اور ڈی سی، ایس ڈی ایم اور مختیارکار فاریسٹرز کے ساتھ مل کر اہم اجلاس کرتے تھے جس میں یہ لازم تھا کہ اسکولوں، کالجوں، سرکاری دفاتر، شہر اور گاؤں میں درخت لگائے جائیں گے جس کے لیے پودے فاریسٹ محکمہ 5 پیسے میں پھر ایک روپے میں اور کبھی مفت مہیا کرتا تھا۔
بھٹو کے علاوہ وزرا، بیورو کریٹس، سیاسی شخصیات پودے لگاتے تھے تاکہ ملک اور سندھ کے اندر درختوں کی تعداد کو بڑھاکر ماحولیاتی پرابلم پر قابو پایاجائے۔مگر افسوس ہے کہ بھٹو کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ایک Formality رہ گیا، میٹنگز بھی ہوتی ہیں، پودے بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں صرف بڑے سیاستدان تصویر کھنچوانے اور ٹی وی کوریج کے لیے مہم میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد مڑ کر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر سال لاکھوں پودے لگائے جاتے ہیں مگر کتنی تعداد ہے جو بچ گئے ہیں اور درخت بن گئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پودا لگانا کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر پودا لگانے کے بعد جو Post Care ہے وہ اہمیت رکھتا ہے۔ پودے کو پانی دینا، کھاد ڈالنا، اس کو مویشیوں سے بچانا وغیرہ شامل ہے جس کے لیے گاؤں میں کھجور کے پتوں سے اور شہروں میں لوہے کے گارڈز بناکر انھیں محفوظ کیا جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں مالی بھرتی کیے جاتے ہیں جو صرف افسران اور سیاستدانوں کے گھروں پر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے لگائے ہوئے درخت ختم ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس وقت پانی کی قلت نے شہروں اور گاؤں میں بڑا مسئلہ پیدا کردیا ہے خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر کو پانی نہیں ملتا ہے جس کی وجہ سے پارک اور درخت سوکھ کر ختم ہو رہے ہیں جس کا منظر میں نے کچھ دن پہلے کراچی یونیورسٹی میں دیکھا جہاں پر چاروں طرف لگے ہوئے درخت سوکھے نظر آرہے تھے اور میدان بھی تھر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے باہر مین روڈ پرکچھ پرائیویٹ نرسریاں نظر آئیں جہاں پر پانی کی فراوانی نظر آئی۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ پورے سندھ میں جہاں بھی جاؤ مین روڈ، شہروں کے اندرونی اور بیرونی حصے خشک اور بغیر درختوں کے نظر آئیں گے۔
اس میں نہ صرف حکومت کا بلکہ ہم لوگوں کا بھی بڑا قصور ہے کہ ہم نے درختوں کی اہمیت سے منہ موڑ لیا ہے، لوگوں میں شعور کی کمی ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ درخت سے ان کے گھر میں جگہ کم ہوجاتی ہے، دکان چھپ جاتی ہے اور ان کے پاس وقت اور پانی کہاں ہے جو وہ پودوں کو سیراب کریں۔ بڑے بڑے جنگلات کاٹ کر ان پر مکان بنا دیے گئے ہیں، کھیت بنادیے گئے ہیں جہاں پر ہمیں مچھلی کے Artificial Ponds بھی نظر آئے۔ اس سلسلے میں حکومت نے یہ فاریسٹ یا تو کم قیمت پر لوگوں کو لیز کیا ہے یا پھر علاقے کے پاورفل زمینداروں نے قبضہ کرلیا ہے۔
حکومت صرف میڈیا اور اسمبلیوں میں باتیں کرتے نظر آتے ہیں جب کہ عمل زیرو ہے۔اس سے پہلے کہ سندھ کی زمین مکمل طور پر بنجر بن جائے ہمیں اپنی بند آنکھیں کھولنی ہوں گی جس کے شعور کے لیے حکومت، میڈیا اور این جی اوز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ قانون کے ساتھ ساتھ عام اور خاص لوگوں کے دماغ میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ آج کل ہم جس مسئلے سے گزر رہے ہیں جس میں بڑھتی ہوئی گرمی، پانی کی کمی، نیچرل ریسورسز کی تباہی اور ماحول کی گندگی شامل ہے اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور قدرتی آفتوں سے بچیں۔
درخت بچانے سے ہمارا گراؤنڈ واٹر بھی صاف اور زیادہ ہوگا، ماحولیاتی آلودگی میں کمی ہوگی۔ آپ اپنے ذہن میں تھر، کاچھو اور دوسرے حصوں کو لائیں کہ کئی سال سے پانی کی کمی نے خشک سالی پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے انسان، جانور، پرندے اور دوسری مخلوق بری طر متاثر ہو رہی ہے۔ میڈیا والوں کو لوگوں کے شعور کے لیے چھوٹے چھوٹے پروگرام مرتب کرنے چاہئیں۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اور درخت کاٹنا خون کرنے کے برابر ہے۔