امتحانات لوڈشیڈنگ اور نقل
بدقسمتی سے آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنے طلباء کو بجلی نہیں دے سکتے، انہیں روشنی کے بجائے اندھیرے دے رہے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں انٹرمیڈیت کے امتحانات جاری ہیں۔ سخت گرم موسم کی وجہ سے کمرہ امتحان میں طلباء و طالبات پسینے سے شرابور ہیں بے چینی بھی بہت ہے اور امتحانی کاپی بھی پسینے کے باعث جگہ جگہ سے گیلی ہورہی ہے۔
یہ ساری صورتحال لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہے جو بدقسمتی سے امتحانات کے دوران بھی جاری و ساری ہے اور اس میں طلباء کو کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ امتحانی پرچوں کے اوقات میں بھی لوڈشیڈنگ تواتر کے ساتھ کی جارہی ہے۔ جسے دیکھ کر ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آج ہم یہ کہاں پر آکھڑے ہوئے ہیں جبکہ ماضی میں تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔
ایک طرف موسم گرما اپنے تیور دکھا رہا ہے تو دوسری طرف اربابِ اختیار اپنی روائتی بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور طلباء بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ طلباء کو لوڈشیڈنگ کا سامنا صرف کمرہ امتحان میں ہی نہیں ہے بلکہ گھروں میں امتحان کی تیاری کرتے ہوئے بھی اُنہیں ایسے ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نقصان حکمرانوں کو تو نہیں مگر طلباء کی تعلیم اور اُن کے مستقبل کو ضرور ہوتا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں دس سے سولہ گھنٹے تک کی طویل لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ جس نے جہاں ملک کی معیشت کا پہیہ جام کردیا ہے وہیں طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ آج میڈیا پر امتحانی مراکز میں کھلے عام نقل کی اطلاعات آرہی ہیں کہ طلبہ و طالبات کمرہ امتحان میں اپنے ساتھ نقل کا مواد لاتے ہیں پھر کھلے عام نقل کرتے ہیں اور مرکز کی انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر تی ہے۔ جب اس قدر طویل دورانئے کی لوڈشیڈنگ کی جائے گی اور طلباء اپنی امتحانی تیاری نہیں کر پائیں گے تو پھر وہ لازماً نقل کی طرف ہی مائل ہونگے۔
اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طلباء کی اکثریت مڈل کلاس ہے جس وجہ سے یو پی ایس اور جنریٹر کی متحمل نہیں ہوسکتے، اب اِس صورتحال میں طلباء جائیں تو کہاں جائیں۔ طلباء ملک کے مستقبل کے معمار ہیں اور یہی طلباء جو آج امتحانات میں نقل کررہے ہیں کل ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور ملکی نظم و نسق کا حصہ بنیں گے۔ لیکن جب صورتحال اِس قدر خراب ہوگی تو بھلا ہم کس طرح مستقبل میں ان سے مثبت توقعات وابستہ کرسکتے ہیں؟
طلباء کو اس اذیت ناک صورتحال سے نکالنے کے کیلئے ارباب اختیار کو امتحانات کے دوران لوڈشیڈنگ کو روکنا ہوگا تاکہ طلباء کو امتحانات میں تیاری اور اسٹڈی کے لیئے بہتر ماحول میسر آسکے، اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر امتحانی مراکز کو اسٹینڈ بائی جنریٹر مہیا کیئے جائیں تاکہ گرمی سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ اِس کے ساتھ ساتھ طلباء کو گھروں میں رات کے وقت پڑھائی کیلئے مفت چارجنگ لائٹس فراہم کی جائیں تاکہ پڑھائی کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا کچھ تدارک ممکن ہوسکے اور اِس طرح مستقبل کے معماروں کے نقل کی طرف راغب ہونے سے کسی حد تک بچایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ چند سالوں کے دوران لوڈشیڈنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کے خاتمے کے دعوے تو بہت کیئے گئے لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا۔ یہ جو موجودہ حکومت آج کل ہم پر مسلط ہے، درحقیقت یہ انتخابات میں کامیاب ہی اِس نعرے کی بنیاد پر ہوئی تھی کہ یہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرے گی۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ چھ ماہ تو کیا اب دو سال ہونے کو ہیں اور لوڈشیڈنگ جوں کی توں موجود ہے اور اب تو خود حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس کے خاتمے میں مزید تین سال لگیں گے۔
آج طلباء لالٹین اور موم بتی کی روشنی میں امتحانات کی تیاری کرتے نظر آرہے ہیں جسے دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے اور اب محض محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ شاید حقیقت بھی ہے کہ دنیا آگے کی جانب جارہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ مسلسلس پیچھے کی جانب سفر کررہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو احتمال ہے کہ کہیں پتھر کے زمانے میں نہ پہنچ جائیں کیونکہ بجلی بنیادی انسانی ضرورت ہے جس کی عدم فراہمی یا تعطل سے زندگی کے تمام ہی شعبہ جات پر برے اثرات پڑرہے ہیں جو مستقبل میں پسماندگی اور تخریب کا باعث بنیں گے۔
آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنے طلباء کو بجلی نہیں دے سکتے، انہیں روشنی کے بجائے اندھیرے دے رہے ہیں۔ اِس طرح اُن کا مستقبل تابناک ہونے کے بجائے مزید تاریکی میں دوب جائے گا۔ اگر ہم خواہشمند ہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار قابل تقلید ہو، ہمارا تعلیمی ماحول نقل کی لعنت سے پاک ہو اور ہمار ی جامعات کے فارغ التحصیل دنیا بھر میں اپنی لیاقت کا سکہ جمائیں تاکہ دنیا بھر میں ملک کا وقار بلند ہو تو اپنے طلباء کو اندھیروں کے بجائے روشنی دینا ہوگی اور سخت موسم میں راحت کا سامان کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں بجلی کا نظام درست ہوگا۔
[poll id="401"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ ساری صورتحال لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہے جو بدقسمتی سے امتحانات کے دوران بھی جاری و ساری ہے اور اس میں طلباء کو کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ امتحانی پرچوں کے اوقات میں بھی لوڈشیڈنگ تواتر کے ساتھ کی جارہی ہے۔ جسے دیکھ کر ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آج ہم یہ کہاں پر آکھڑے ہوئے ہیں جبکہ ماضی میں تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔
ایک طرف موسم گرما اپنے تیور دکھا رہا ہے تو دوسری طرف اربابِ اختیار اپنی روائتی بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور طلباء بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ طلباء کو لوڈشیڈنگ کا سامنا صرف کمرہ امتحان میں ہی نہیں ہے بلکہ گھروں میں امتحان کی تیاری کرتے ہوئے بھی اُنہیں ایسے ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نقصان حکمرانوں کو تو نہیں مگر طلباء کی تعلیم اور اُن کے مستقبل کو ضرور ہوتا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں دس سے سولہ گھنٹے تک کی طویل لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ جس نے جہاں ملک کی معیشت کا پہیہ جام کردیا ہے وہیں طلباء کی تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ آج میڈیا پر امتحانی مراکز میں کھلے عام نقل کی اطلاعات آرہی ہیں کہ طلبہ و طالبات کمرہ امتحان میں اپنے ساتھ نقل کا مواد لاتے ہیں پھر کھلے عام نقل کرتے ہیں اور مرکز کی انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر تی ہے۔ جب اس قدر طویل دورانئے کی لوڈشیڈنگ کی جائے گی اور طلباء اپنی امتحانی تیاری نہیں کر پائیں گے تو پھر وہ لازماً نقل کی طرف ہی مائل ہونگے۔
اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طلباء کی اکثریت مڈل کلاس ہے جس وجہ سے یو پی ایس اور جنریٹر کی متحمل نہیں ہوسکتے، اب اِس صورتحال میں طلباء جائیں تو کہاں جائیں۔ طلباء ملک کے مستقبل کے معمار ہیں اور یہی طلباء جو آج امتحانات میں نقل کررہے ہیں کل ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور ملکی نظم و نسق کا حصہ بنیں گے۔ لیکن جب صورتحال اِس قدر خراب ہوگی تو بھلا ہم کس طرح مستقبل میں ان سے مثبت توقعات وابستہ کرسکتے ہیں؟
طلباء کو اس اذیت ناک صورتحال سے نکالنے کے کیلئے ارباب اختیار کو امتحانات کے دوران لوڈشیڈنگ کو روکنا ہوگا تاکہ طلباء کو امتحانات میں تیاری اور اسٹڈی کے لیئے بہتر ماحول میسر آسکے، اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر امتحانی مراکز کو اسٹینڈ بائی جنریٹر مہیا کیئے جائیں تاکہ گرمی سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کا خاتمہ ہوسکے۔ اِس کے ساتھ ساتھ طلباء کو گھروں میں رات کے وقت پڑھائی کیلئے مفت چارجنگ لائٹس فراہم کی جائیں تاکہ پڑھائی کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا کچھ تدارک ممکن ہوسکے اور اِس طرح مستقبل کے معماروں کے نقل کی طرف راغب ہونے سے کسی حد تک بچایا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ چند سالوں کے دوران لوڈشیڈنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کے خاتمے کے دعوے تو بہت کیئے گئے لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا۔ یہ جو موجودہ حکومت آج کل ہم پر مسلط ہے، درحقیقت یہ انتخابات میں کامیاب ہی اِس نعرے کی بنیاد پر ہوئی تھی کہ یہ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرے گی۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ چھ ماہ تو کیا اب دو سال ہونے کو ہیں اور لوڈشیڈنگ جوں کی توں موجود ہے اور اب تو خود حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس کے خاتمے میں مزید تین سال لگیں گے۔
آج طلباء لالٹین اور موم بتی کی روشنی میں امتحانات کی تیاری کرتے نظر آرہے ہیں جسے دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے اور اب محض محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ شاید حقیقت بھی ہے کہ دنیا آگے کی جانب جارہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ مسلسلس پیچھے کی جانب سفر کررہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رُکا تو احتمال ہے کہ کہیں پتھر کے زمانے میں نہ پہنچ جائیں کیونکہ بجلی بنیادی انسانی ضرورت ہے جس کی عدم فراہمی یا تعطل سے زندگی کے تمام ہی شعبہ جات پر برے اثرات پڑرہے ہیں جو مستقبل میں پسماندگی اور تخریب کا باعث بنیں گے۔
آج ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنے طلباء کو بجلی نہیں دے سکتے، انہیں روشنی کے بجائے اندھیرے دے رہے ہیں۔ اِس طرح اُن کا مستقبل تابناک ہونے کے بجائے مزید تاریکی میں دوب جائے گا۔ اگر ہم خواہشمند ہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار قابل تقلید ہو، ہمارا تعلیمی ماحول نقل کی لعنت سے پاک ہو اور ہمار ی جامعات کے فارغ التحصیل دنیا بھر میں اپنی لیاقت کا سکہ جمائیں تاکہ دنیا بھر میں ملک کا وقار بلند ہو تو اپنے طلباء کو اندھیروں کے بجائے روشنی دینا ہوگی اور سخت موسم میں راحت کا سامان کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ملک میں بجلی کا نظام درست ہوگا۔
[poll id="401"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی