روشن قندیل
سبین محمود کے بہیمانہ قتل سے قابل مرد و خواتین کی بیرونِ ملک نقل مکانی میں مزید اضافہ ہو گا
ISLAMABAD:
مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی سبین محمود ایک ''روشن قندیل '' تھی جو بخوبی جانتی تھی کہ جہالت موت اور علم زندگی ہے۔ سبین محمود کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں تھا۔ سبین کا عزم معاشرے سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنا اور بے علم افراد کی حس کو بیدار کر کے اُن میں شعور پیدا کرنا تھا۔
اس مقصد کے لیے سبین محمود نے کراچی کی ایک مارکیٹ کے سیکنڈ فلور پر ایک کافی ہاؤس کھول رکھا تھا جس میں شعراء ، ادیب ، دانشور، سیاسی و سماجی کارکنان آتے اور علم سے سیراب ہوتے باوجود سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتے رہنے کے بھی سبین اپنے مقصد میں بلا خوف و خطر کامیابی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی جو طاقتور نادیدہ قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے عہدیداروں ماما قدیر بلو چ اور فرزانہ مجید بلوچ و دیگر افراد کے ساتھ ایک نشست کے اختتام کے بعد 24 اپریل کی شام جب سبین اپنے کافی ہاؤس سے اپنی والدہ کے ہمراہ گھر جا رہی تھیں کہ گھات لگائے نامعلوم موٹر سائیکل سوار افراد نے اُسے گو لیاں مار کر شہید کر دیا۔
ماضی کی تاریخ میں ایسی قوتوں کا ذکر پڑھنے کو ملتا ہے جو بزور طاقت عوام کو علم سے دور رکھتے اور ان پر اپنی جبری حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کا بدترین تشدد کیا کرتے یہاں تک کے عوام میں دہشت بٹھائے رکھنے کے لیے ان کو مارنے کے بعد چنگیز خان اور ہلاکو خان ا نسانی کھوپڑیوں کے مینار بھی بنایا کرتے تھے اور وہ جہاں جہاں بھی فتح حاصل کرتے اُس تہذیب یافتہ ممالک کی لائبریریاں جن میں رکھی کتابوں میں بے بہا اور نایاب علم ہوتا تھا، اُنہیں جلا دیا کرتے تھے ۔
1980ء کے عشرے میں جب پاکستان ایک آمر کے شکنجے میں تھا تو اسی آمر کی ایما پر لاہور کا ایک کافی ہاؤس جہاں، شعراء، ادیب، دانشور، قلمکار، سیاسی و سماجی کارکن مکالمے کے ذریعے علم و ادب اور شعوری مکالمہ کیا کرتے تھے کو بندکرا دیا گیا تھا۔ آج 21 ویں صدی میں بھی زبردستی عوام پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والی نادیدہ قوتیں اسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کرتے تھے، جبری کافی ہاؤس بند کرائے جاتے تھے اور آج گھات لگاؤ اور مار کر غائب ہو جاؤ دشمن بھی ختم، خوف و دہشت بھی پھیل گئی اور سبق بھی مل گیا۔
سبین محمود کا بہیمانہ قتل اسلامی تعلیمات کی نفی کرتا ہے جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ سبین کو مارنے والوں کا انسانیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں جن میں بے شمار جوہرِ قابل مرد و خواتین کو شہید کیا جاتا رہا ہے جس کی بنا پر بے شمار گوہرِ نایاب غیر ممالک میں نقلِ مکانی کر چکے ہیں۔
سبین محمود کے بہیمانہ قتل سے قابل مرد و خواتین کی بیرونِ ملک نقل مکانی میں مزید اضافہ ہو گا اگر اس عمل کو ریاست کی جانب سے روکا نہیں گیا تو پاکستان جہاں شرح خواندگی پہلے ہی بہت کم ہے وہ قابل لوگوں سے بانجھ ہو کر رہ جائے گا یہ خوشی کی اور اطمینان بخش بات ہے کہ اس کا فوری نوٹس ہماری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بر وقت لیا جس سے اُمید کی کرن لوٹتی نظر آ رہی ہے اس نوٹس سے قابل لوگوں کا خوف بھی دور ہو گا اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک سے (BRAIN DRAIN) کا خاتمہ ہو جائے گا جس سے ملک میں ترقی ہو گی اور نقل مکانی کرنے والے قابل مرد و خواتین ملک میں واپس لوٹنا شروع کر دیں گے۔
ناسا کے سائنسدانوں نے مریخ اور مشتری کے درمیان 6 سال قبل ایک سیارہ دریافت کیا تھا جس کا نام نہیں رکھا گیا تھا اور جب اس سیارے کا نام رکھنے کا وقت آیا تو مشترکہ طور پر سب نے اس کا نام '' ملالہ '' رکھا یہ اعزاز پاکستان کی کوئی دوسری شخصیت شاید ہی حاصل کر سکے۔ یہ ہے ترقی یافتہ ملک کے زندہ اور باشعور لوگوں کی پہچان جو بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان، مذہب کے شعور پھیلانے اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کا عزم رکھنے والوں کو ممتاز مقام دیتے ہیں جب کہ اس کا موازنہ ہمارے ملک سے کریں تو صورتحال یکسر اُلٹ نظر آتی ہے۔
چند دن قبل جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل ڈیبرا لوبو فائرنگ سے شدید زخمی ہوئیں اس کے بعد جامعہ کراچی کے معلم وحید الرحمان کا بہیمانہ قتل نادیدہ قوتوں کی جانب سے اشارے اور گہری سازش ہے جسے بغور غیر جانبدار ہو کر سوچنے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اور خود سے اس کا سراغ لگانے کی بھی ضرورت ہے۔
تحقیقاتی ادارے تو اپنی جانب سے اس کا کھوج لگائیں گے لیکن ضروری نہیں کہ آپ اس پر اکتفا کر لیں خود بھی سوچیں سمجھیں اور سراغ لگائیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے رکھنے سے طوفان ٹلا نہیں کرتے۔ طوفان ابھی آیا نہیں ہے لیکن اپنی آمد کے اشارے دے رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام روشن خیال علم دوست قوتیں متحد ہو کر ا س طوفان کے آگے بند باندھیں اور اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے مکالمے، لکھنے اور تحمل مزاجی کے فروغ کے عمل کو بھی جاری رکھیں درحقیقت آپ کا یہ عمل دقیانوسی سوچ رکھنے والی قوتوں کی شکست اور آپ کی جیت ہے۔
مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی سبین محمود ایک ''روشن قندیل '' تھی جو بخوبی جانتی تھی کہ جہالت موت اور علم زندگی ہے۔ سبین محمود کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں تھا۔ سبین کا عزم معاشرے سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنا اور بے علم افراد کی حس کو بیدار کر کے اُن میں شعور پیدا کرنا تھا۔
اس مقصد کے لیے سبین محمود نے کراچی کی ایک مارکیٹ کے سیکنڈ فلور پر ایک کافی ہاؤس کھول رکھا تھا جس میں شعراء ، ادیب ، دانشور، سیاسی و سماجی کارکنان آتے اور علم سے سیراب ہوتے باوجود سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتے رہنے کے بھی سبین اپنے مقصد میں بلا خوف و خطر کامیابی کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی جو طاقتور نادیدہ قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے عہدیداروں ماما قدیر بلو چ اور فرزانہ مجید بلوچ و دیگر افراد کے ساتھ ایک نشست کے اختتام کے بعد 24 اپریل کی شام جب سبین اپنے کافی ہاؤس سے اپنی والدہ کے ہمراہ گھر جا رہی تھیں کہ گھات لگائے نامعلوم موٹر سائیکل سوار افراد نے اُسے گو لیاں مار کر شہید کر دیا۔
ماضی کی تاریخ میں ایسی قوتوں کا ذکر پڑھنے کو ملتا ہے جو بزور طاقت عوام کو علم سے دور رکھتے اور ان پر اپنی جبری حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کا بدترین تشدد کیا کرتے یہاں تک کے عوام میں دہشت بٹھائے رکھنے کے لیے ان کو مارنے کے بعد چنگیز خان اور ہلاکو خان ا نسانی کھوپڑیوں کے مینار بھی بنایا کرتے تھے اور وہ جہاں جہاں بھی فتح حاصل کرتے اُس تہذیب یافتہ ممالک کی لائبریریاں جن میں رکھی کتابوں میں بے بہا اور نایاب علم ہوتا تھا، اُنہیں جلا دیا کرتے تھے ۔
1980ء کے عشرے میں جب پاکستان ایک آمر کے شکنجے میں تھا تو اسی آمر کی ایما پر لاہور کا ایک کافی ہاؤس جہاں، شعراء، ادیب، دانشور، قلمکار، سیاسی و سماجی کارکن مکالمے کے ذریعے علم و ادب اور شعوری مکالمہ کیا کرتے تھے کو بندکرا دیا گیا تھا۔ آج 21 ویں صدی میں بھی زبردستی عوام پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والی نادیدہ قوتیں اسی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کرتے تھے، جبری کافی ہاؤس بند کرائے جاتے تھے اور آج گھات لگاؤ اور مار کر غائب ہو جاؤ دشمن بھی ختم، خوف و دہشت بھی پھیل گئی اور سبق بھی مل گیا۔
سبین محمود کا بہیمانہ قتل اسلامی تعلیمات کی نفی کرتا ہے جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ سبین کو مارنے والوں کا انسانیت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں جن میں بے شمار جوہرِ قابل مرد و خواتین کو شہید کیا جاتا رہا ہے جس کی بنا پر بے شمار گوہرِ نایاب غیر ممالک میں نقلِ مکانی کر چکے ہیں۔
سبین محمود کے بہیمانہ قتل سے قابل مرد و خواتین کی بیرونِ ملک نقل مکانی میں مزید اضافہ ہو گا اگر اس عمل کو ریاست کی جانب سے روکا نہیں گیا تو پاکستان جہاں شرح خواندگی پہلے ہی بہت کم ہے وہ قابل لوگوں سے بانجھ ہو کر رہ جائے گا یہ خوشی کی اور اطمینان بخش بات ہے کہ اس کا فوری نوٹس ہماری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بر وقت لیا جس سے اُمید کی کرن لوٹتی نظر آ رہی ہے اس نوٹس سے قابل لوگوں کا خوف بھی دور ہو گا اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک سے (BRAIN DRAIN) کا خاتمہ ہو جائے گا جس سے ملک میں ترقی ہو گی اور نقل مکانی کرنے والے قابل مرد و خواتین ملک میں واپس لوٹنا شروع کر دیں گے۔
ناسا کے سائنسدانوں نے مریخ اور مشتری کے درمیان 6 سال قبل ایک سیارہ دریافت کیا تھا جس کا نام نہیں رکھا گیا تھا اور جب اس سیارے کا نام رکھنے کا وقت آیا تو مشترکہ طور پر سب نے اس کا نام '' ملالہ '' رکھا یہ اعزاز پاکستان کی کوئی دوسری شخصیت شاید ہی حاصل کر سکے۔ یہ ہے ترقی یافتہ ملک کے زندہ اور باشعور لوگوں کی پہچان جو بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان، مذہب کے شعور پھیلانے اور انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کا عزم رکھنے والوں کو ممتاز مقام دیتے ہیں جب کہ اس کا موازنہ ہمارے ملک سے کریں تو صورتحال یکسر اُلٹ نظر آتی ہے۔
چند دن قبل جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل ڈیبرا لوبو فائرنگ سے شدید زخمی ہوئیں اس کے بعد جامعہ کراچی کے معلم وحید الرحمان کا بہیمانہ قتل نادیدہ قوتوں کی جانب سے اشارے اور گہری سازش ہے جسے بغور غیر جانبدار ہو کر سوچنے اور سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اور خود سے اس کا سراغ لگانے کی بھی ضرورت ہے۔
تحقیقاتی ادارے تو اپنی جانب سے اس کا کھوج لگائیں گے لیکن ضروری نہیں کہ آپ اس پر اکتفا کر لیں خود بھی سوچیں سمجھیں اور سراغ لگائیں۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے رکھنے سے طوفان ٹلا نہیں کرتے۔ طوفان ابھی آیا نہیں ہے لیکن اپنی آمد کے اشارے دے رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام روشن خیال علم دوست قوتیں متحد ہو کر ا س طوفان کے آگے بند باندھیں اور اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے مکالمے، لکھنے اور تحمل مزاجی کے فروغ کے عمل کو بھی جاری رکھیں درحقیقت آپ کا یہ عمل دقیانوسی سوچ رکھنے والی قوتوں کی شکست اور آپ کی جیت ہے۔