انٹرنیٹ ڈیٹا مشکل میں
انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی مقدار جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس پر انٹرنیٹ کی اسپیڈ بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لانے والی ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ کی گنجائش کا چُھو رہی ہے اور جلد ہی یہ ڈیٹا میں برق رفتار اضافے کا بوجھ سہارنے میں ناکام ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ ٹیلی ویژن، اسٹریمنگ سروسز اور پہلے سے زیادہ طاقت وَر اور تیز رفتار کمپیوٹرز کی آمد نے عالمی کمیونیکیشن انفرا اسٹرکچر پر دباؤ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ آٹھ برسوں میں لیپ ٹاپس، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے درمیان انفارمیشن کی نقل و حمل کرنے والی کیبلز اور فائبر آپٹکس اپنی گنجائش کو پہنچ جائیں گی۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران انجنیئرز، انٹرنیٹ کے استعمال میں بے تحاشا اضافے کے باوجود اس کی رفتار50 گنا تک بڑھانے میں کام یاب رہے ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق اب انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی مقدار جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، ماہرین کے لیے اس رفتار سے بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
2005 میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی زیادہ سے زیادہ رفتار 2 میگابائٹ فی سیکنڈ تھی۔ آج بیشتر خطوں میں 100 ایم بی فی سیکنڈ کی شرح سے ڈاؤن لوڈنگ کی جاسکتی ہے۔ تاہم فائبر آپٹکس کی گنجائش اپنی حدود کو چُھو رہی ہے ، اور اس میں مزید ڈیٹا کا بوجھ سہارنے کی سکت دم توڑ رہی ہے۔
اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے برطانیہ کی رائل سوسائٹی نے چوٹی کے ماہرین کی کانفرنس بلائی ہے۔ کانفرنس کے منتظم اور برمنگھم یونیورسٹی کے پرفیسر اینڈریو ایلس کے مطابق انٹرنیٹ کا موجودہ نظام اپنی گنجائش تک پہنچ رہا ہے۔ آنے والے آٹھ برس کے دوران انٹرنیٹ کا موجودہ نیٹ ورک ڈیٹا کا مزید بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔ پروفیسر کے مطابق اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا تو اس کا نتیجہ منہگے انٹرنیٹ کی صورت میں برآمد ہوگا۔
آپٹیکل فائبر، انسانی بال کی طرح باریک اور لچک دار اور شفاف دھاگے ہوتے ہیں۔ ان میں معلومات یا ڈیٹا روشنی کی صورت میں سفر کرتا ہے، اور اپنی منزل پر پہنچ کر دوبارہ ڈیٹا کی شکل میں آ جاتا ہے۔ اس وقت تک انٹرنیٹ کمپنیاں سنگل فائبر کے ذریعے ہی ڈیٹا کی ترسیل کررہی ہیں۔ تاہم آپٹیکل فائبر اپنی زیادہ سے زیادہ گنجائش کو پہنچ چکے ہیں اور بہت جلد روشنی کی مزید مقدار منتقل کرنے سے قاصر ہوجائیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا انٹرنیٹ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کمپنیوں کو اضافی آپٹیکل فائبر بچھانے ہوں گے جس پر نئے سرے سے اخراجات آئیں گے۔ اس طرح انٹرنیٹ استعمال کرنے کی قیمت بھی دگنی ہوجائے گی۔ پروفیسر ایلیس کے مطابق انٹرنیٹ، ڈیٹا کی منتقلی کے لیے بجلی کا استعمال کرتا ہے۔
ایک ترقی یافتہ ملک میں بجلی کی کھپت میں انٹرنیٹ کا حصہ 2 فی صد ہوتا ہے۔ کمپویٹر، اسمارٹ فونز، انٹرنیٹ ٹیلی ویژن میں استعمال ہونے والی بجلی اس کے علاوہ ہے۔ انٹرنیٹ کی رفتار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں بجلی کی کھپت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپٹیکل فائبر کا ایک اور جال بچھایا جائے تو انٹرنیٹ کی قیمتیں دگنی ہونے کے ساتھ جلی کی کھپت بھی دو گنا ہو جائے گی۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران انجنیئرز، انٹرنیٹ کے استعمال میں بے تحاشا اضافے کے باوجود اس کی رفتار50 گنا تک بڑھانے میں کام یاب رہے ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق اب انٹرنیٹ پر ڈیٹا کی مقدار جس رفتار سے بڑھ رہی ہے، ماہرین کے لیے اس رفتار سے بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
2005 میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی زیادہ سے زیادہ رفتار 2 میگابائٹ فی سیکنڈ تھی۔ آج بیشتر خطوں میں 100 ایم بی فی سیکنڈ کی شرح سے ڈاؤن لوڈنگ کی جاسکتی ہے۔ تاہم فائبر آپٹکس کی گنجائش اپنی حدود کو چُھو رہی ہے ، اور اس میں مزید ڈیٹا کا بوجھ سہارنے کی سکت دم توڑ رہی ہے۔
اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے برطانیہ کی رائل سوسائٹی نے چوٹی کے ماہرین کی کانفرنس بلائی ہے۔ کانفرنس کے منتظم اور برمنگھم یونیورسٹی کے پرفیسر اینڈریو ایلس کے مطابق انٹرنیٹ کا موجودہ نظام اپنی گنجائش تک پہنچ رہا ہے۔ آنے والے آٹھ برس کے دوران انٹرنیٹ کا موجودہ نیٹ ورک ڈیٹا کا مزید بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔ پروفیسر کے مطابق اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا تو اس کا نتیجہ منہگے انٹرنیٹ کی صورت میں برآمد ہوگا۔
آپٹیکل فائبر، انسانی بال کی طرح باریک اور لچک دار اور شفاف دھاگے ہوتے ہیں۔ ان میں معلومات یا ڈیٹا روشنی کی صورت میں سفر کرتا ہے، اور اپنی منزل پر پہنچ کر دوبارہ ڈیٹا کی شکل میں آ جاتا ہے۔ اس وقت تک انٹرنیٹ کمپنیاں سنگل فائبر کے ذریعے ہی ڈیٹا کی ترسیل کررہی ہیں۔ تاہم آپٹیکل فائبر اپنی زیادہ سے زیادہ گنجائش کو پہنچ چکے ہیں اور بہت جلد روشنی کی مزید مقدار منتقل کرنے سے قاصر ہوجائیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا انٹرنیٹ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کمپنیوں کو اضافی آپٹیکل فائبر بچھانے ہوں گے جس پر نئے سرے سے اخراجات آئیں گے۔ اس طرح انٹرنیٹ استعمال کرنے کی قیمت بھی دگنی ہوجائے گی۔ پروفیسر ایلیس کے مطابق انٹرنیٹ، ڈیٹا کی منتقلی کے لیے بجلی کا استعمال کرتا ہے۔
ایک ترقی یافتہ ملک میں بجلی کی کھپت میں انٹرنیٹ کا حصہ 2 فی صد ہوتا ہے۔ کمپویٹر، اسمارٹ فونز، انٹرنیٹ ٹیلی ویژن میں استعمال ہونے والی بجلی اس کے علاوہ ہے۔ انٹرنیٹ کی رفتار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں بجلی کی کھپت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپٹیکل فائبر کا ایک اور جال بچھایا جائے تو انٹرنیٹ کی قیمتیں دگنی ہونے کے ساتھ جلی کی کھپت بھی دو گنا ہو جائے گی۔