ایک اور غلط خبر
یہ ویب سائٹ دنیا بھر میں بن بیاہے جوڑوں کو آپس میں وقت گزارنے کے لئے مختلف رومانوی جگہوں میں رومانس کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ سروے دنیا بھر میں موجود جوڑوں (DATING COUPLES) کے ردعمل کے نتیجے میں مرتب کیا گیا جس میں پاکستانی مردوں کو تیسرا نمبر دیا گیا ہے۔ سارا دن چینلز، اخبارات اور ویب سائٹس پر اس خبر کی جی بھر کر تشہیر کی گئی۔ خبر کی تفصیل جاننے سے پہلے تو میں ذاتی طور پر فخر محسوس کر رہا تھا کہ جہاں قدرت نے اس ملک کو بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازہ ہے وہیں یہ اعزاز بھی عطاء کردیا کہ یہاں کے مرد خوش شکل اور پر کشش ہیں۔
مگر جوں جوں خبر کی تحقیق کرتا گیا تو سر شرم سے جھکتا چلا گیا۔ ہمارا میڈیا جس خبر کو اعزاز سمجھ رہا تھا وہ اعزاز محب وطن پاکستانیوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر چند ایک افراد نے اس کی مخالفت میں آراء دی ہے اور اسے پاکستانیوں کے لئے جگ ہنسائی کا سبب سمجھا ہے۔ اگر آپ اِس موقع پر تحریر سے اختلاف کرنے کا سوچ رہے ہیں تو اُن سے گزارش ہے کہ ضرور کیجیے مگر ایک بار ویب سائٹ کا وزٹ ضرور کرلیا جائے کیونکہ وہاں جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا کسی بھی طرح مطلب پرکشش نہیں سمجھا جاسکتا۔
کیا پاکستانی قوم کی وہ خوبیاں جو ان میں حقیقت میں موجود ہیں انہیں رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا؟ دنیا بھر میں فحش ویب سائٹس وزٹ کرنے میں بھی پاکستانی سر فہرست ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں فحش ویب سائٹس بلاک ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ان ویب سائٹس کو سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔
دنیا میں پرکشش ترین مردوں کی جاری کی جانے والی ویب سائٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ غیر ملکی لڑکیاں رومانوی جگہوں پر سفر کرنے کے لئے پاکستانیوں کو ہمراہ لے جانا پسند کرتی ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز نے فنکاروں، کھلاڑیوں، سیاستدانوں کی تصاویر دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پُرکشش افراد انہیں کہا جاتا ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ تو پھر کیا ان کرداروں کا موازنہ ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والے افراد سے کیا جانا مناسب عمل ہے؟ مگر اس پر صرف افراد کو مورد الزا م ٹھہرانے کے بجائے معاشرے، میڈیا اور ہر فرد کا انفرادی احتساب کرنا ضروری نہیں؟ کیا ہمیں ان مسائل کا تدارک نہیں کرنا چاہئے جن کی وجہ سے پاکستان کا نام ایسی فہرستوں میں شامل ہو رہا ہے؟
ہمارے سماجی رویے، خاندانی نظام کی تباہی، مذہب سے بیزاری، تعلیمی نظام اور دیگر عوامل بھی یقینی طور پر اس کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستانی قوم دیانت دار، حب الوطن، بے شمار اور خداد داد صلاحیتوں کی مالک ہے، اِس لیے اِس کی مثبت صلاحیتوں کو جلا بخش کر ملک اور قوم کا نام سربلند و سرفراز کیا جا سکتا ہے۔
خاندانی نظام، سماجی اورمعاشرتی رویوں میں بہتری کے لئے سیرت و کردار کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں نوجوان جس طرح اخلاقی طور پر پستی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اس کے لئے میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
حکومت پاکستان، میڈیا مالکان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرے میں اہمیت رکھنے والے افراد کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے بچوں اور نوجوانوں کے کردار کو بلند کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ لیکن ایک ایسے دور میں جہاں کوکنگ آئل کے اشتہار میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کھانا پکانے سے پہلے دو چار ٹھمکے لگانا ضروری ہے اور وہ کھانا کھاتے ساتھ ہی سارا خاندان ناچنے لگتا ہے۔ چائے بنانے سے پہلے ناچنا اس کی لذت بڑھاتا ہے۔ موبائل فون کا میوزک اتنا لاؤڈ ہے کہ گانا لگتے ہی پورا گھر مجرا کرنے لگتا ہے اور بیٹری اتنی لمبی کہ (بھائی بہن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)، ''کہ رات ختم ہوجائے مگر مُنی کی باتیں ختم نہ ہوں'' اور ستم ظریفی یہ کہ ٹافی کھانا اتنا اہم ہوگیا ہے کہ ٹافی کھاتے ساتھ ہی کلاس مس اور بچے کلاس روم میں بھی ناچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور مٹکتی ہوئی لڑکی لڑکے کو وہ ٹافی کھلا کر پھانس لیتی ہے۔
جب اِس قدر خراب حالات میں بھی پیمرا اور پی ٹی اے اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرائے آرام سے بیٹھے ہیں، غیر ملکی کپمنیاں اپنی مرضی کے اشتہارات بنا کر چینلز اور اخبارات کو دیتی ہیں جو بغیر کسی پالیسی کے قوم کو دکھائے جا رہے ہیں تو بھلا پھر ایسی خبریں میڈیا پر چلا جائیں تو کسی کے کان پر کیوں جوں رینگے گی۔
بات کا آغاز تو پاکستانی مردوں کو ملنے والے اعزاز سے کیا تھا۔ کاش کہ ایسا شرمناک اعزاز ملنے کی بجائے پاکستانی مردوں کو اخلاقیات، تحقیق، کھیل اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بہتر کار کردگی پر کوئی اعزاز ملتا۔ اِس بات سے کوئی انکار نہیں کہ پاکستانی مرد واقعی پرکشش ہیں جنہیں گھروں میں بیگمات گھاس تک نہیں ڈالتی، ہاں مردوں کے علاوہ پاکستانی بیویوں کا دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں صف اول کی خواتین میں شمار ہونا چاہئے وہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر میں پاکستانی خواتین کو دنیا کی مظلوم ترین مخلوق بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
[poll id="403"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی