صحافت عرف ریٹینگ عرف اشتہارات عرف کمائی
تمام میڈیا ہاؤسز کو چاہئیے کہ پاکستانیوں کی رائے اور صحافتی اقدار کی روشنی میں اپنے خبری مواد کی سمت طے کریں۔
کتا انسان کو کاٹ لے یہ کوئی خبر نہیں۔ ہاں اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے۔ خبر کی اِس پُرانی تعریف کی نئے دور میں الگ ہی تشریح ہورہی ہے۔ آج کل کتا بھونک بھی لے تو خبر بن جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ کتا کسی اعلیٰ شخصیت کا ہونا چاہیے۔ میڈیا کا کردار تو''واچ ڈاگ'' کا ہوتا ہے لیکن آج کل کچھ چینلز کی کوریج دیکھ کرلگتا ہے کہ میڈیا واچ ڈاگ کے بجائے لیپ ڈاگ بن گیا ہے۔
قوم کی دلچسپی کی خبروں کے ساتھ ساتھ درباری اور محلاتی سازشوں کی خبریں بھی زیادہ سننے کو مل رہی ہیں۔ عوام کے اجتماعی مسائل کے بجائے زیادہ زور اشرافیہ اور شہرت یافتہ ہستیوں کے ذاتی مسائل پر دیا جارہا ہے۔ حکومتی ایوانوں میں چلنے والی ''گیم آف تھرونز'' کی خبریں ''گیم آف ریٹنگ'' کی نظر سے پورے ملک میں دکھائی جارہی ہیں۔ محسوس ہورہا ہے جیسے عوام کا میڈیا صرف درباری میڈیا ہی بن گیا ہو۔
ایان علی کیس کی مثال ہی لے لیں۔ ماڈل نے جتنی شہرت منی لانڈرنگ کے ذریعے کمائی شاید ماڈلنگ میں بھی نہ کمائی ہو۔ ملزمہ نے جرم کیا اور اس کی پاداش میں سزا کاٹ رہی ہے۔ لیکن میڈیا پیشیوں پر جانے کے مناظر ایسے دکھا رہا ہے جیسے کوئی ہیروئن ریمپ پر واک کر رہی ہو۔ زلفیں، ادائیں، حتیٰ کہ گردن پر بنے ٹیٹو پر بھی میڈیا پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ایک ذاتی کیس کو قوم کا ایجنڈا بناکر ناجانے کیا ثابت کیا جا رہا ہے۔ ملزمہ کو ہیروئن بنا کر پیش کرنا کیا قوم سے مذاق نہیں؟
سندھ کی بات کرلیں۔ یہاں ایک عدد اسمبلی ہے جو عوام کے مسائل کے بجائے شاید سیاستدانوں کے آپس کے مسائل حل کرنے کے لئے بنی ہے۔ امریکن ٹی وی سیریز 'گیم آف تھرون' کی طرح یہاں 'پاور گیم آف سندھ' کی فلم چلتی ہے اور میڈیا اس فلم کو پورے ملک میں چلاتا ہے۔ لارڈ شرجیل نے کیا کہا اور اس کے جواب میں لارڈ فیصل کا کیا جواب آیا۔ لیڈی شہلا نے کیا کہا اور لیڈی شرمیلا نے کیا ڈائیلاگ مارا۔ اس مچھلی منڈی میں تجارت ہوتی ہے تو صرف تندو تیز جملوں کی۔ عوام کی بات کوئی کرتا نہیں، بحث ہوتی ہے تو صرف سیاستدانوں کے ذاتی مسائل پر لیکن اِس گرما گرمی میں چسکا ہوتا ہے، شرارت ہوتی ہے اِس لئے میڈیا مصالحے دار خبریں چلا کر، تماشا لگا کر عوام کو انٹرٹین تو کردیتا ہے لیکن سیاسی تماشا لگانے والے کچھ مداری جگت بازی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے بعد اپنے مدار میں پھر ویسے ہی گھومنے لگتے ہیں۔
آج کل ذوالفقار مرزا کا مسئلہ بھی کافی گرم ہے۔ پیپلز پارٹی سے موصوف کے اختلافات ذاتی نوعیت کے ہوں گے، پارٹی ان کو شاید پسند بھی نہیں کرتی لیکن دونوں فریقوں کی طرف سے شکوہ اور جواب شکوہ کی تمام قسطیں میڈیا پر چل رہی ہیں۔ مرزا صاحب لفظی حملہ کریں تو خبر، تھانے پر حملہ کریں تو خبر، پولیس گرفتار کرنے کے لئے بدین کے فارم ہاؤس کا محاصرہ کریں تو خبر، ان کی بیوی پریس کانفرنس کرکے ذاتی معاملے ایک ہاتھ اور آگے لے جائیں تو خبر۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی خبروں سے عوام کو کیا لینا دینا؟ یہ خبر تو درحقیقت اُن پر جبر ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ تو سابق وزیر داخلہ سندھ سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی ان خواتین ارکان سے جو ذوالفقار مرزا کے نازیبا الفاظ کے استعمال پر ''نازیبا زبان" میں ہی ردعمل دے کر یہ کہتی ہیں کہ ''لیکن ہم ایسی زبان استعمال نہیں کریں گے''۔ لیکن پھر بھی خبرتو ہے، چلے گی کیونکہ باقی سب چلا رہے ہیں؟ باقی سب زرد صحافت کے کنویں میں چھلانگ لگائیں گے تو آپ کو بھی لگانا ہوگی کیونکہ ریٹنگ کا پانی شاید اسی کنویں سے ہی نکلے گا۔
اب تو ایک اور ذاتی نوعیت کی فلم نے پورے پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ بتا دیا اور وہ یہ ہے کہ گلوکارہ حمیرا ارشد کو ان کے شوہر احمد بٹ مارتے پیٹتے ہیں۔ میڈیا نے پہلے احمد بٹ کی پریس کانفرنس چلائی اور پھر حمیرا ارشد کی جوابی پریس کانفرنس بھی چلا کر ذاتی نوعیت کے مسئلے کو پوری قوم کا مسئلہ بنا دیا۔ ایک چینل نے تو اس لائیو پریس کانفرنس کے لئے اپنے اشتہارات تک کی قربانی دے دی حالانکی چینل کی ساری بھاگ دوڑ اِنہیں اشتہارات کے لیے ہوتی ہے۔ حمیرا ارشد کے آنسوؤں کو بھی خوب بیچا اور راہیں جدا کرنے والے میاں بیوی کے راستے اپنی ریٹنگ کا رستہ سیدھا کر لیا۔
شاید میڈیا کے ایجنڈے نے ایسے ذاتی معاملات کو ہائی لائیٹ کرکے عوام کا ٹیسٹ ہی ڈویلپ کردیا ہے یا عوام خود چاہتے ہیں کہ ان کو ایسے ہی معاملات بتائیں اور دکھائیں جائیں۔ یہاں بڑی خبر یا تو ''بُری خبر'' ہوتی ہے یا متنازعہ یا ذاتی نوعیت کے حملے۔ خوشی کہ خبر کو خوشی سے قبول کرنا بھی صحافتی پیمانے میں مشکل سے ہی فٹ بیٹھتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ ہمارے میڈیا کا مزاج ہے یا قوم کا؟
کیونکہ قوم کیا دیکھنا اور سننا چاہتی ہے اس کا فیصلہ بھی صحافی ہی کرتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ خبریت کو جانچنے کے لئے تمام میڈیا ہاؤسز مل کر پاکستانی عوام کا سروے کریں اور ان کی رائے اور صحافتی اقدار کی روشنی میں اپنے خبری مواد کی سمت طے کریں؟ تاکہ پتہ چل جائے کہ عوام کو کیسی خبروں کی بھوک ہے اور ہم انہیں کیا اور کیسے بیچ سکتے ہیں۔ شاید اس طرح ہم درباری اور چسکوری صحافت سے نکل کر احتسابی اور ترقیاتی صحافت کی ابتداء کرسکیں۔ جس کا براہ راست فائدہ ریاست کے عوام کو ہو۔
[poll id="405"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
قوم کی دلچسپی کی خبروں کے ساتھ ساتھ درباری اور محلاتی سازشوں کی خبریں بھی زیادہ سننے کو مل رہی ہیں۔ عوام کے اجتماعی مسائل کے بجائے زیادہ زور اشرافیہ اور شہرت یافتہ ہستیوں کے ذاتی مسائل پر دیا جارہا ہے۔ حکومتی ایوانوں میں چلنے والی ''گیم آف تھرونز'' کی خبریں ''گیم آف ریٹنگ'' کی نظر سے پورے ملک میں دکھائی جارہی ہیں۔ محسوس ہورہا ہے جیسے عوام کا میڈیا صرف درباری میڈیا ہی بن گیا ہو۔
ایان علی کیس کی مثال ہی لے لیں۔ ماڈل نے جتنی شہرت منی لانڈرنگ کے ذریعے کمائی شاید ماڈلنگ میں بھی نہ کمائی ہو۔ ملزمہ نے جرم کیا اور اس کی پاداش میں سزا کاٹ رہی ہے۔ لیکن میڈیا پیشیوں پر جانے کے مناظر ایسے دکھا رہا ہے جیسے کوئی ہیروئن ریمپ پر واک کر رہی ہو۔ زلفیں، ادائیں، حتیٰ کہ گردن پر بنے ٹیٹو پر بھی میڈیا پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ایک ذاتی کیس کو قوم کا ایجنڈا بناکر ناجانے کیا ثابت کیا جا رہا ہے۔ ملزمہ کو ہیروئن بنا کر پیش کرنا کیا قوم سے مذاق نہیں؟
سندھ کی بات کرلیں۔ یہاں ایک عدد اسمبلی ہے جو عوام کے مسائل کے بجائے شاید سیاستدانوں کے آپس کے مسائل حل کرنے کے لئے بنی ہے۔ امریکن ٹی وی سیریز 'گیم آف تھرون' کی طرح یہاں 'پاور گیم آف سندھ' کی فلم چلتی ہے اور میڈیا اس فلم کو پورے ملک میں چلاتا ہے۔ لارڈ شرجیل نے کیا کہا اور اس کے جواب میں لارڈ فیصل کا کیا جواب آیا۔ لیڈی شہلا نے کیا کہا اور لیڈی شرمیلا نے کیا ڈائیلاگ مارا۔ اس مچھلی منڈی میں تجارت ہوتی ہے تو صرف تندو تیز جملوں کی۔ عوام کی بات کوئی کرتا نہیں، بحث ہوتی ہے تو صرف سیاستدانوں کے ذاتی مسائل پر لیکن اِس گرما گرمی میں چسکا ہوتا ہے، شرارت ہوتی ہے اِس لئے میڈیا مصالحے دار خبریں چلا کر، تماشا لگا کر عوام کو انٹرٹین تو کردیتا ہے لیکن سیاسی تماشا لگانے والے کچھ مداری جگت بازی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے بعد اپنے مدار میں پھر ویسے ہی گھومنے لگتے ہیں۔
آج کل ذوالفقار مرزا کا مسئلہ بھی کافی گرم ہے۔ پیپلز پارٹی سے موصوف کے اختلافات ذاتی نوعیت کے ہوں گے، پارٹی ان کو شاید پسند بھی نہیں کرتی لیکن دونوں فریقوں کی طرف سے شکوہ اور جواب شکوہ کی تمام قسطیں میڈیا پر چل رہی ہیں۔ مرزا صاحب لفظی حملہ کریں تو خبر، تھانے پر حملہ کریں تو خبر، پولیس گرفتار کرنے کے لئے بدین کے فارم ہاؤس کا محاصرہ کریں تو خبر، ان کی بیوی پریس کانفرنس کرکے ذاتی معاملے ایک ہاتھ اور آگے لے جائیں تو خبر۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی خبروں سے عوام کو کیا لینا دینا؟ یہ خبر تو درحقیقت اُن پر جبر ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کو نہ تو سابق وزیر داخلہ سندھ سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کی ان خواتین ارکان سے جو ذوالفقار مرزا کے نازیبا الفاظ کے استعمال پر ''نازیبا زبان" میں ہی ردعمل دے کر یہ کہتی ہیں کہ ''لیکن ہم ایسی زبان استعمال نہیں کریں گے''۔ لیکن پھر بھی خبرتو ہے، چلے گی کیونکہ باقی سب چلا رہے ہیں؟ باقی سب زرد صحافت کے کنویں میں چھلانگ لگائیں گے تو آپ کو بھی لگانا ہوگی کیونکہ ریٹنگ کا پانی شاید اسی کنویں سے ہی نکلے گا۔
اب تو ایک اور ذاتی نوعیت کی فلم نے پورے پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ بتا دیا اور وہ یہ ہے کہ گلوکارہ حمیرا ارشد کو ان کے شوہر احمد بٹ مارتے پیٹتے ہیں۔ میڈیا نے پہلے احمد بٹ کی پریس کانفرنس چلائی اور پھر حمیرا ارشد کی جوابی پریس کانفرنس بھی چلا کر ذاتی نوعیت کے مسئلے کو پوری قوم کا مسئلہ بنا دیا۔ ایک چینل نے تو اس لائیو پریس کانفرنس کے لئے اپنے اشتہارات تک کی قربانی دے دی حالانکی چینل کی ساری بھاگ دوڑ اِنہیں اشتہارات کے لیے ہوتی ہے۔ حمیرا ارشد کے آنسوؤں کو بھی خوب بیچا اور راہیں جدا کرنے والے میاں بیوی کے راستے اپنی ریٹنگ کا رستہ سیدھا کر لیا۔
شاید میڈیا کے ایجنڈے نے ایسے ذاتی معاملات کو ہائی لائیٹ کرکے عوام کا ٹیسٹ ہی ڈویلپ کردیا ہے یا عوام خود چاہتے ہیں کہ ان کو ایسے ہی معاملات بتائیں اور دکھائیں جائیں۔ یہاں بڑی خبر یا تو ''بُری خبر'' ہوتی ہے یا متنازعہ یا ذاتی نوعیت کے حملے۔ خوشی کہ خبر کو خوشی سے قبول کرنا بھی صحافتی پیمانے میں مشکل سے ہی فٹ بیٹھتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ ہمارے میڈیا کا مزاج ہے یا قوم کا؟
کیونکہ قوم کیا دیکھنا اور سننا چاہتی ہے اس کا فیصلہ بھی صحافی ہی کرتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ خبریت کو جانچنے کے لئے تمام میڈیا ہاؤسز مل کر پاکستانی عوام کا سروے کریں اور ان کی رائے اور صحافتی اقدار کی روشنی میں اپنے خبری مواد کی سمت طے کریں؟ تاکہ پتہ چل جائے کہ عوام کو کیسی خبروں کی بھوک ہے اور ہم انہیں کیا اور کیسے بیچ سکتے ہیں۔ شاید اس طرح ہم درباری اور چسکوری صحافت سے نکل کر احتسابی اور ترقیاتی صحافت کی ابتداء کرسکیں۔ جس کا براہ راست فائدہ ریاست کے عوام کو ہو۔
[poll id="405"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی