تھیلیسیمیا کی دوا سے متاثرہ بچوں میں خون بننے لگا
تحقیق کے بعد نئی دوا ملک بھر میں3 ہزار تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں پر استعمال کی گئی۔
MURREE:
قومی ادارہ برائے امراض خون (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز) نے پہلی بار ایسی دوا پر تحقیق کامیابی سے مکمل کرلی جس کے استعمال سے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کی نگرانی میں ڈاکٹرثاقب انصاری کی تحقیق میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ ہائیڈروک سی یوریا Hydroxyurea دوا کے استعمال سے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا اس سے قبل تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کو زندگی بچانے کیلیے ہر ماہ 2 بار انتقال خون کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا، تحقیق کے بعد نئی دوا ملک بھر میں3 ہزار تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں پر استعمال کی گئی۔
جس سے ان کے جسم میں خون بننے کا عمل ازخود شروع ہوگیا یہ تحقیق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز میں2002 میں شروع کی گئی تھی جو 2014 میں مکمل ہوئی یہ تحقیق ادارے کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی کی نگرانی میں ڈاکٹرثاقب انصاری نے کی جس میں انکشاف کیاگیا ہے، تھیلیسیمیاکے بچوں میں مذکورہ دواکے استعمال سے متاثرہ بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اس وقت ملک میں 3ہزار سے زائد بچے اس نئی دوا کوکامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔
ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے تھیلیسیمیا کے عالمی دن کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں تھیلسیمیاکے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے اور ایک مریض پرانتقال خون سمیت دیگر دوائوں سے علاج کی مد میں سالانہ 2 لاکھ 85 ہزار روپے خرچ آتا ہے جس کا مطلب سالانہ پاکستانی قوم28 ارب سے زیادہ تھیلیسیمیاکے بچوں پرخرچ کررہی ہے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں این آئی بی ڈی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ہائیڈروک سی یوریاHydroxyurea نامی دوا سے 40 فیصد سے زیادہ مریضوں کو خون لگنا بند ہوجاتا ہے۔
اس دوا کے استعمال سے متاثرہ بچوں کے جسم میں دوبارہ خون بننا شروع ہوجاتا ہے اور ان مریضوں کوخون لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، انھوں نے بتایا کہ مذکورہ دوا پر کی جانے والی تحقیق کے بعداب تک 2ہزار بچوں میں خون لگنا بند ہوچکا ہے، اگر مذکورہ دوا متاثرہ بچوں کو استعمال کرائی جائے تو سالانہ 12 ارب روپے کی بچت ہوگی ہے اورسالانہ 5 لاکھ خون کی بوتلیں بھی بچائی جاسکتی ہیں،اس کے علاوہ یہ بچے ہیپاٹائٹس بی اور سی اور ایڈز جیسے مہلک امراض سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔
ماہرین طب نے قومی ادارہ برائے امراض خون (نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز) میں کی جانے والی تحقیق کے فوائدکو بہت حوصلہ افزا قرار دیا ہے، واضح رہے کہ تھیلیسیمیا سے بچائوکا موثر پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے10ہزار بچے سالانہ یہ مرض لے کر پیدا ہورہے ہیں،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تھیلیسیمیا سے بچائوکا قانون 2013 میں سندھ اسمبلی نے منظورکرلیاتھا جس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا جاسکا ہے، ماہرین طب نے تشویش ظاہر کی ہے کہ موثر پالیسی کے تحت اس مرض کی روک تھام نہ کی گئی تو2020 تک مریضوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوجائے گا۔
قومی ادارہ برائے امراض خون (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز) نے پہلی بار ایسی دوا پر تحقیق کامیابی سے مکمل کرلی جس کے استعمال سے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی کی نگرانی میں ڈاکٹرثاقب انصاری کی تحقیق میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ ہائیڈروک سی یوریا Hydroxyurea دوا کے استعمال سے تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل دوبارہ شروع ہوگیا اس سے قبل تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کو زندگی بچانے کیلیے ہر ماہ 2 بار انتقال خون کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا، تحقیق کے بعد نئی دوا ملک بھر میں3 ہزار تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں پر استعمال کی گئی۔
جس سے ان کے جسم میں خون بننے کا عمل ازخود شروع ہوگیا یہ تحقیق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز میں2002 میں شروع کی گئی تھی جو 2014 میں مکمل ہوئی یہ تحقیق ادارے کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی کی نگرانی میں ڈاکٹرثاقب انصاری نے کی جس میں انکشاف کیاگیا ہے، تھیلیسیمیاکے بچوں میں مذکورہ دواکے استعمال سے متاثرہ بچوں کے جسم میں خون بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اس وقت ملک میں 3ہزار سے زائد بچے اس نئی دوا کوکامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔
ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے تھیلیسیمیا کے عالمی دن کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں تھیلسیمیاکے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے اور ایک مریض پرانتقال خون سمیت دیگر دوائوں سے علاج کی مد میں سالانہ 2 لاکھ 85 ہزار روپے خرچ آتا ہے جس کا مطلب سالانہ پاکستانی قوم28 ارب سے زیادہ تھیلیسیمیاکے بچوں پرخرچ کررہی ہے انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں این آئی بی ڈی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ہائیڈروک سی یوریاHydroxyurea نامی دوا سے 40 فیصد سے زیادہ مریضوں کو خون لگنا بند ہوجاتا ہے۔
اس دوا کے استعمال سے متاثرہ بچوں کے جسم میں دوبارہ خون بننا شروع ہوجاتا ہے اور ان مریضوں کوخون لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، انھوں نے بتایا کہ مذکورہ دوا پر کی جانے والی تحقیق کے بعداب تک 2ہزار بچوں میں خون لگنا بند ہوچکا ہے، اگر مذکورہ دوا متاثرہ بچوں کو استعمال کرائی جائے تو سالانہ 12 ارب روپے کی بچت ہوگی ہے اورسالانہ 5 لاکھ خون کی بوتلیں بھی بچائی جاسکتی ہیں،اس کے علاوہ یہ بچے ہیپاٹائٹس بی اور سی اور ایڈز جیسے مہلک امراض سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔
ماہرین طب نے قومی ادارہ برائے امراض خون (نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز) میں کی جانے والی تحقیق کے فوائدکو بہت حوصلہ افزا قرار دیا ہے، واضح رہے کہ تھیلیسیمیا سے بچائوکا موثر پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے10ہزار بچے سالانہ یہ مرض لے کر پیدا ہورہے ہیں،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تھیلیسیمیا سے بچائوکا قانون 2013 میں سندھ اسمبلی نے منظورکرلیاتھا جس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا جاسکا ہے، ماہرین طب نے تشویش ظاہر کی ہے کہ موثر پالیسی کے تحت اس مرض کی روک تھام نہ کی گئی تو2020 تک مریضوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہوجائے گا۔