نیک لوگ
’’جو ایمان لائے، نیک عمل کرتے رہے، آپس میں حق پر چلنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
ایمان والوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ایمان کی دولت کے حوالے سے کبھی خسارے یا نقصان میں نہیں رہتے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اﷲ رب العزت کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں، رسول کریمﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں۔ جو کرنے کا حکم اﷲ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے، اس کو کریں اور جس کام سے رکنے کی ممانعت کی ہے، اس سے رکے رہیں۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہوں گے اور اپنے رب کے فرماں بردار بندوں میں شامل ہوں گے۔ ایسے اہل ایمان دنیا اور آخرت دونوں جگہ سرخ رو ہوں گے۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق پر چلنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔'' (سورۃ العصر)
یہاں اگر غور کریں تو انہی اہل ایمان کا ذکر ہورہا ہے جن کے لیے کامیابی اور سرخ روئی ہے۔ اس آیۂ مبارکہ میں ان ایمان والوں کی خصوصیات بھی بیان ہوئی ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ جن لوگوں نے حق کے ساتھ اسلام کو قبول کیا اور اس ذات واحد پر ایمان لائے، وہ تو کام یاب ہیں، لیکن وہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں جنہوں نے نہ حق کو قبول کیا، اور نہ لوگوں کے درمیان محبت اور رواداری کا رشتہ استوار کیا۔
اہل ایمان کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ صبر کی بھی تاکید کرتے ہیں۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ انسان جب بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور صرف اپنی ذات کے لیے سوچتا ہے تو گویا اس کے ایمان میں کمی آجاتی ہے۔ یہ انداز فکر سراسر اسلامی سوچ کے خلاف ہے۔ جب کہ پروردگار عالم کا فرمان ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے محبت کریں، ہم دردی کریں، ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا سلوک کریں، ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی تلقین کریں اور اگر کہیں مسائل و مصائب سے سابقہ پڑجائے تو اس موقع پر صبر کا مظاہرہ کریں کہ یہ بھی اﷲ کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل لوگوں کا انداز فکر بالکل بدل گیا ہے۔ آج ہم نہ تو ایک دوسرے کو حق پر جمے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور نہ ہی صبر کی تلقین کرتے ہیں، بلکہ لوگوں میں آپسی اختلافات پیدا کیے جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی کم زوریاں تلاش کرتے ہیں اور پھر انہیں ساری دنیا کے سامنے کھول کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی نادانی کی بات ہے اور بڑے نقصان کا سودا ہے۔ اہل ایمان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
حضور سرور عالمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دے۔''
خاتم الانبیاءؐ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بہت بڑی معاشرتی خرابی ہے کہ انسان کوئی بات کسی سے سنے اور پھر اس کی تحقیق یا چھان بین کیے بغیر یعنی یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ بات درست ہے بھی یا نہیں، اسے دوسروں تک پہنچادے۔ اس طرح سنی سنائی بات کو بغیر سوچے سمجھے دوسروں کو بتانا یا اسے غیرضروری طور پر دور دور تک پھیلانا بہت بڑا گناہ ہے۔ بعض اوقات اس کے بڑے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ویسے بھی معاشرتی امن اور سکون کے لیے ضروری ہے کہ اگر انسان ایسی کوئی اچھی بات کسی سے سنے جس کا دوسروں کے لیے جاننا ضروری بھی ہو اور فائدے مند بھی تو اسے چھان بین اور تحقیق کے بعد دوسروں تک بھی پہنچادے، تاکہ اس سے متعدد لوگ فیض یاب ہوسکیں اور کوئی اچھی اور مثبت بنیاد فراہم ہوسکے۔
لیکن اگر وہ بات مضر ہے اور اس سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا معاشرے میں ہلچل مچنے کا خطرہ ہے تو ایسی بات کو آگے نہ بڑھایا جائے، اور اگر اسے دوسروں تک پہنچانا بہت ضروری، بلکہ ناگزیر ہو تو پھر پہلے اس کی مکمل چھان بین اور تحقیق کی جائے، اس کے حقائق معلوم کیے جائیں اور پھر آگے بڑھایا جائے تاکہ اس کی وجہ سے بعد میں کوئی معاشرتی خرابی پیدا نہ ہو اور نہ ہی کوئی مسئلہ کھڑا ہو۔
آج کے دور میں ہمارے دوست اور بزرگ بڑی عجیب سوچ کے حامل ہوگئے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی بات معلوم ہوتی ہے، وہ اس کی تحقیق کیے بغیر اسے عام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی اس حرکت سے کیا کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور معاشرے میں کیسا انتشار پھیل سکتا ہے۔ مگر یہ نادان دوست اپنے پیٹ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سنی سنائی باتوں کو ادھر ادھر بے فکری سے اگل دیتے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے چند اصول و ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہر بات کو ادھر ادھر نہ کہا جائے اور خاص طور سے ایسی باتوں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا جائے جن سے کسی اختلاف یا انتشار کے پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
اگر کسی سنی ہوئی بات کے بارے میں کسی کو بتانا بہت ضروری ہے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے، اس کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں یا یہ کہ کیا مذکورہ بات کو انھی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو کہنے والے نے کہی تھی، کہیں ایسا تو نہیں کہ کہنے والے نے کچھ اور کہا تھا، اس کے الفاظ دوسرے تھے یا کسی حد تک قابل قبول تھے، لیکن اس بات کو سننے والے نے اپنے مرضی اور اپنے حساب سے بیان کیا اور اس میں اپنے من پسند الفاظ شامل کرکے اسے آگے بڑھادیا جس کی وجہ سے معاشرے میں شر یا برائی کے پھیلنے یا کسی جھگڑے فساد کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہو۔ یہ نہایت غیرذمہ دارانہ انداز فکر ہے۔ ہمارے دوستوں کو ایسی حرکت سے سختی سے گریز کرنا چاہیے۔
ہم اس طرح کے معاملات عام امور زندگی میں بہت زیادہ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جب کسی بات کے بارے میں سنتے ہیں تو وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس بات کو چاہے یہ جھوٹی ہو یا سچی، دوسروں کے علم میں بھی لائیں۔ وہ لمحوں میں اس بات کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات خیر کی ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ نیکی اور بھلائی کی باتیں فی الفور دوسروں تک پہنچانی چاہییں، لیکن اگر یہ باتیں خراب ہیں، ان کی وجہ سے کسی کی کردار کشی ہورہی ہے اور کسی کی بے عزتی کا اندیشہ ہے تو ایسی باتوں کو پھیلانا، وہ بھی کسی تحقیق کے بغیر نہایت سنگین معاشرتی برائی اور اسلام کے نزدیک گناہ ہے۔
ایسی حرکتوں یا کہنا چاہیے کہ نادانیوں سے بعض اوقات سنگین قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں اور بعض اوقات جھگڑے فساد کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ان کی وجہ سے اکثر خاندانوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ بھائیوں میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، دوست دوست سے محروم ہوجاتے ہیں، ساتھ بیٹھنے والے اور ایک دوسرے کے بہی خواہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور کل تک ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے لمحوں میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ معاشرتی انتشار کیوں پیدا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس کی وجہ بعض نادانوں کی غلطی ہوتی ہے۔ وہ رسول اکرمﷺ کے حکم کی صریح نافرمانی کرتے ہیں اور سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھادیتے ہیں۔ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے انسان کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
اگر انسان اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرے تو معاشرے میں بہت سی برائیاں پیدا ہی نہ ہوں۔ اور جب معاشرہ برائیوں سے پاک ہوگا تو ہماری دنیا جنت بن جائے۔ ایک اور بات یہ بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ عام طور سے اختلافی باتوں کو بہت ہوا دیتے ہیں۔ نہ جانے کیوں انہیں ایسا کرنے میں بڑی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اگر دو افراد کے درمیان کسی بات پر کوئی تنازعہ کھڑا ہوجائے تو اسے حل کرانے والے بہت کم ہوں گے، زیادہ تر لوگ ایسے ہوں گے جو ادھر کی ادھر کرکے ان اختلافات اور تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح ان کے درمیان محبت اور خلوص کا رشتہ استوار نہ ہونے پائے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں، بلکہ پورے شدومد کے ساتھ بڑھاتے ہیں اور اپنی طرف سے مرچ مسالا لگاکر انھیں زیادہ سنگین بنادیتے ہیں۔ اس موقع پر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک دن انہیں اﷲ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ روز حشر جب وہ رب العالمین کے حضور اس طرح پیش ہوں گے کہ انہوں نے لوگوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی ہوگی تب کیا ہوگا، تب تو رسوائی ہوگی اور دردناک عذاب ان کا مقدر بنے گا۔
پروردگار عالم کا حکم ہے کہ بھائیوں کے درمیان اختلافات پیدا نہ کرو اور محبت کا رشتہ استوار کرو۔ جو لوگ تنازعات اور اختلافات پیدا کرتے ہیں، وہ اس حکم کی صریحاً خلاف ورزی کررہے ہیں اور آخرت میں اپنے لیے رسوائی کا سامان کررہے ہیں۔ چناں چہ اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں، ہم دردی کریں اور ایک دوسرے کے عیوب دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے بجائے انہیں چھپائیں اور اس طرح اپنے بھائیوں کی حرمت کی حفاظت کریں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سنی سنائی بات کو کبھی بغیر تحقیق کے آگے نہ بڑھائیں۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:''زمانے کی قسم! انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق پر چلنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔'' (سورۃ العصر)
یہاں اگر غور کریں تو انہی اہل ایمان کا ذکر ہورہا ہے جن کے لیے کامیابی اور سرخ روئی ہے۔ اس آیۂ مبارکہ میں ان ایمان والوں کی خصوصیات بھی بیان ہوئی ہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ جن لوگوں نے حق کے ساتھ اسلام کو قبول کیا اور اس ذات واحد پر ایمان لائے، وہ تو کام یاب ہیں، لیکن وہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں جنہوں نے نہ حق کو قبول کیا، اور نہ لوگوں کے درمیان محبت اور رواداری کا رشتہ استوار کیا۔
اہل ایمان کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ صبر کی بھی تاکید کرتے ہیں۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ انسان جب بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے اور صرف اپنی ذات کے لیے سوچتا ہے تو گویا اس کے ایمان میں کمی آجاتی ہے۔ یہ انداز فکر سراسر اسلامی سوچ کے خلاف ہے۔ جب کہ پروردگار عالم کا فرمان ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے محبت کریں، ہم دردی کریں، ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا سلوک کریں، ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی تلقین کریں اور اگر کہیں مسائل و مصائب سے سابقہ پڑجائے تو اس موقع پر صبر کا مظاہرہ کریں کہ یہ بھی اﷲ کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل لوگوں کا انداز فکر بالکل بدل گیا ہے۔ آج ہم نہ تو ایک دوسرے کو حق پر جمے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور نہ ہی صبر کی تلقین کرتے ہیں، بلکہ لوگوں میں آپسی اختلافات پیدا کیے جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی کم زوریاں تلاش کرتے ہیں اور پھر انہیں ساری دنیا کے سامنے کھول کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی نادانی کی بات ہے اور بڑے نقصان کا سودا ہے۔ اہل ایمان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
حضور سرور عالمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دے۔''
خاتم الانبیاءؐ کے اس ارشاد پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بہت بڑی معاشرتی خرابی ہے کہ انسان کوئی بات کسی سے سنے اور پھر اس کی تحقیق یا چھان بین کیے بغیر یعنی یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ بات درست ہے بھی یا نہیں، اسے دوسروں تک پہنچادے۔ اس طرح سنی سنائی بات کو بغیر سوچے سمجھے دوسروں کو بتانا یا اسے غیرضروری طور پر دور دور تک پھیلانا بہت بڑا گناہ ہے۔ بعض اوقات اس کے بڑے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ویسے بھی معاشرتی امن اور سکون کے لیے ضروری ہے کہ اگر انسان ایسی کوئی اچھی بات کسی سے سنے جس کا دوسروں کے لیے جاننا ضروری بھی ہو اور فائدے مند بھی تو اسے چھان بین اور تحقیق کے بعد دوسروں تک بھی پہنچادے، تاکہ اس سے متعدد لوگ فیض یاب ہوسکیں اور کوئی اچھی اور مثبت بنیاد فراہم ہوسکے۔
لیکن اگر وہ بات مضر ہے اور اس سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا معاشرے میں ہلچل مچنے کا خطرہ ہے تو ایسی بات کو آگے نہ بڑھایا جائے، اور اگر اسے دوسروں تک پہنچانا بہت ضروری، بلکہ ناگزیر ہو تو پھر پہلے اس کی مکمل چھان بین اور تحقیق کی جائے، اس کے حقائق معلوم کیے جائیں اور پھر آگے بڑھایا جائے تاکہ اس کی وجہ سے بعد میں کوئی معاشرتی خرابی پیدا نہ ہو اور نہ ہی کوئی مسئلہ کھڑا ہو۔
آج کے دور میں ہمارے دوست اور بزرگ بڑی عجیب سوچ کے حامل ہوگئے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی بات معلوم ہوتی ہے، وہ اس کی تحقیق کیے بغیر اسے عام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی اس حرکت سے کیا کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور معاشرے میں کیسا انتشار پھیل سکتا ہے۔ مگر یہ نادان دوست اپنے پیٹ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سنی سنائی باتوں کو ادھر ادھر بے فکری سے اگل دیتے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے چند اصول و ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہر بات کو ادھر ادھر نہ کہا جائے اور خاص طور سے ایسی باتوں کو آگے بڑھانے سے گریز کیا جائے جن سے کسی اختلاف یا انتشار کے پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
اگر کسی سنی ہوئی بات کے بارے میں کسی کو بتانا بہت ضروری ہے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے، اس کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں یا یہ کہ کیا مذکورہ بات کو انھی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو کہنے والے نے کہی تھی، کہیں ایسا تو نہیں کہ کہنے والے نے کچھ اور کہا تھا، اس کے الفاظ دوسرے تھے یا کسی حد تک قابل قبول تھے، لیکن اس بات کو سننے والے نے اپنے مرضی اور اپنے حساب سے بیان کیا اور اس میں اپنے من پسند الفاظ شامل کرکے اسے آگے بڑھادیا جس کی وجہ سے معاشرے میں شر یا برائی کے پھیلنے یا کسی جھگڑے فساد کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہو۔ یہ نہایت غیرذمہ دارانہ انداز فکر ہے۔ ہمارے دوستوں کو ایسی حرکت سے سختی سے گریز کرنا چاہیے۔
ہم اس طرح کے معاملات عام امور زندگی میں بہت زیادہ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جب کسی بات کے بارے میں سنتے ہیں تو وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس بات کو چاہے یہ جھوٹی ہو یا سچی، دوسروں کے علم میں بھی لائیں۔ وہ لمحوں میں اس بات کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات خیر کی ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ نیکی اور بھلائی کی باتیں فی الفور دوسروں تک پہنچانی چاہییں، لیکن اگر یہ باتیں خراب ہیں، ان کی وجہ سے کسی کی کردار کشی ہورہی ہے اور کسی کی بے عزتی کا اندیشہ ہے تو ایسی باتوں کو پھیلانا، وہ بھی کسی تحقیق کے بغیر نہایت سنگین معاشرتی برائی اور اسلام کے نزدیک گناہ ہے۔
ایسی حرکتوں یا کہنا چاہیے کہ نادانیوں سے بعض اوقات سنگین قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں اور بعض اوقات جھگڑے فساد کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ان کی وجہ سے اکثر خاندانوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ بھائیوں میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں، دوست دوست سے محروم ہوجاتے ہیں، ساتھ بیٹھنے والے اور ایک دوسرے کے بہی خواہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور کل تک ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے لمحوں میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ معاشرتی انتشار کیوں پیدا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس کی وجہ بعض نادانوں کی غلطی ہوتی ہے۔ وہ رسول اکرمﷺ کے حکم کی صریح نافرمانی کرتے ہیں اور سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھادیتے ہیں۔ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے انسان کو جھوٹا قرار دیا ہے۔
اگر انسان اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرے تو معاشرے میں بہت سی برائیاں پیدا ہی نہ ہوں۔ اور جب معاشرہ برائیوں سے پاک ہوگا تو ہماری دنیا جنت بن جائے۔ ایک اور بات یہ بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ عام طور سے اختلافی باتوں کو بہت ہوا دیتے ہیں۔ نہ جانے کیوں انہیں ایسا کرنے میں بڑی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اگر دو افراد کے درمیان کسی بات پر کوئی تنازعہ کھڑا ہوجائے تو اسے حل کرانے والے بہت کم ہوں گے، زیادہ تر لوگ ایسے ہوں گے جو ادھر کی ادھر کرکے ان اختلافات اور تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح ان کے درمیان محبت اور خلوص کا رشتہ استوار نہ ہونے پائے۔
یہ وہی لوگ ہیں جو سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں، بلکہ پورے شدومد کے ساتھ بڑھاتے ہیں اور اپنی طرف سے مرچ مسالا لگاکر انھیں زیادہ سنگین بنادیتے ہیں۔ اس موقع پر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک دن انہیں اﷲ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے۔ روز حشر جب وہ رب العالمین کے حضور اس طرح پیش ہوں گے کہ انہوں نے لوگوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی ہوگی تب کیا ہوگا، تب تو رسوائی ہوگی اور دردناک عذاب ان کا مقدر بنے گا۔
پروردگار عالم کا حکم ہے کہ بھائیوں کے درمیان اختلافات پیدا نہ کرو اور محبت کا رشتہ استوار کرو۔ جو لوگ تنازعات اور اختلافات پیدا کرتے ہیں، وہ اس حکم کی صریحاً خلاف ورزی کررہے ہیں اور آخرت میں اپنے لیے رسوائی کا سامان کررہے ہیں۔ چناں چہ اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں، ہم دردی کریں اور ایک دوسرے کے عیوب دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے بجائے انہیں چھپائیں اور اس طرح اپنے بھائیوں کی حرمت کی حفاظت کریں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سنی سنائی بات کو کبھی بغیر تحقیق کے آگے نہ بڑھائیں۔