تفہیم المسائل
رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:’’جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جب تک قربانی...
ذو الحجہ: ناخن اور بال کٹوانے کا حکم
سوال: کیا یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحیکے دن تک ناخن اور بال کٹوانے کی ممانعت ہے؟
(محمد رمیز، سیکٹر11-D نارتھ کراچی)
جواب: یہ امر مستحب ہے، یعنی اگر ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عید الاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔
رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:''جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی انہیں نہ ترشوائے۔''
علامہ علی قاری حنفی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا:''یہ مباح ہے، مکروہ نہیں ہے اور نہ ہی مستحب ہے۔'' امام احمد نے حرام کا قول فرمایا ہے، یہ (اختلاف) اسی طرح ہے کہ ائمہ کا اختلاف امت کے لیے رحمت ہے۔
احادیث میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور موئے زیرِ ناف دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا ممنوع و مکروہ ہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں ذی الحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترک سنت لازم نہ آئے۔
خصی جانور کی قربانی
سوال: کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے جانور میں عیب پیدا ہوجاتا ہے۔ (منور احمد ملیر، کراچی)
جواب: خصی جانور کی قربانی نہ صرف جائز، بلکہ سنت ہے۔ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن دو سفید و سیاہ رنگ کے سینگوں والے خصی مینڈھے ذبح کیے۔
معلوم ہوا کہ نر جانور کا خصی ہونا، قربانی کے معاملے میں عیب نہیں ہے، بلکہ فقہا نے اسے افضل قراردیا ہے، کیوں کہ اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔
بلاشبہہ قربانی کے جانور کا عیب سے پاک ہونا شرعاً ضروری ہے اور عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ مثلاً جس کے تھن کٹے ہوئے ہوں، سینگ جڑ سے ٹوٹے ہوئے ہوں، کان تہائی سے زائد کٹا ہوا ہو، لنگڑا ہو، کانا ہو وغیرہ۔ عیب سے مراد وہ عیب ہے جو تاجروں کے نزدیک عیب شمار ہوتا ہو اور قیمت میں کمی کا باعث ہو۔ خصی ہونا تاجروں کے نزدیک عیب نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور سنت سے بھی خصی جانور کی قربانی ثابت ہے البتہ جو شخص افزائش نسل کے لیے حلال نر جانور خریدنا چاہتا ہے تو اس کے نزدیک اس کا خصی ہونا ضرور عیب ہوگا۔
امام احمد رضا قادری سے سوال کیا گیا:''بکرے دو طرح خصی کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ رگیں کاٹ دی جائیں، اس میں کوئی عضو کم نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ آلت تراش کر پھینک دی جاتی ہے، اس صورت میں ایک عضو کم ہوگیا۔ ایسے خصی کی بھی قربانی جائز ہے یا نہیں؟''
آپ جواب میں لکھتے ہیں:''جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا، بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی کا گوشت بہ نسبت آنڈو کے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔''
سوال: کیا یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحیکے دن تک ناخن اور بال کٹوانے کی ممانعت ہے؟
(محمد رمیز، سیکٹر11-D نارتھ کراچی)
جواب: یہ امر مستحب ہے، یعنی اگر ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عید الاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔
رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:''جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی انہیں نہ ترشوائے۔''
علامہ علی قاری حنفی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا:''یہ مباح ہے، مکروہ نہیں ہے اور نہ ہی مستحب ہے۔'' امام احمد نے حرام کا قول فرمایا ہے، یہ (اختلاف) اسی طرح ہے کہ ائمہ کا اختلاف امت کے لیے رحمت ہے۔
احادیث میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور موئے زیرِ ناف دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا ممنوع و مکروہ ہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں ذی الحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترک سنت لازم نہ آئے۔
خصی جانور کی قربانی
سوال: کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے جانور میں عیب پیدا ہوجاتا ہے۔ (منور احمد ملیر، کراچی)
جواب: خصی جانور کی قربانی نہ صرف جائز، بلکہ سنت ہے۔ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن دو سفید و سیاہ رنگ کے سینگوں والے خصی مینڈھے ذبح کیے۔
معلوم ہوا کہ نر جانور کا خصی ہونا، قربانی کے معاملے میں عیب نہیں ہے، بلکہ فقہا نے اسے افضل قراردیا ہے، کیوں کہ اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔
بلاشبہہ قربانی کے جانور کا عیب سے پاک ہونا شرعاً ضروری ہے اور عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ مثلاً جس کے تھن کٹے ہوئے ہوں، سینگ جڑ سے ٹوٹے ہوئے ہوں، کان تہائی سے زائد کٹا ہوا ہو، لنگڑا ہو، کانا ہو وغیرہ۔ عیب سے مراد وہ عیب ہے جو تاجروں کے نزدیک عیب شمار ہوتا ہو اور قیمت میں کمی کا باعث ہو۔ خصی ہونا تاجروں کے نزدیک عیب نہیں ہے بلکہ خصی جانور کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور سنت سے بھی خصی جانور کی قربانی ثابت ہے البتہ جو شخص افزائش نسل کے لیے حلال نر جانور خریدنا چاہتا ہے تو اس کے نزدیک اس کا خصی ہونا ضرور عیب ہوگا۔
امام احمد رضا قادری سے سوال کیا گیا:''بکرے دو طرح خصی کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ رگیں کاٹ دی جائیں، اس میں کوئی عضو کم نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ آلت تراش کر پھینک دی جاتی ہے، اس صورت میں ایک عضو کم ہوگیا۔ ایسے خصی کی بھی قربانی جائز ہے یا نہیں؟''
آپ جواب میں لکھتے ہیں:''جائز ہے کہ اس کی کمی سے اس جانور میں عیب نہیں آتا، بلکہ وصف بڑھ جاتا ہے کہ خصی کا گوشت بہ نسبت آنڈو کے زیادہ اچھا ہوتا ہے۔''