ہمیں الجھنے میں تسکین ملتی ہے
کہتے ہیں کہ وقت ہر چیز بدل کر رکھ دیتا ہے سچ کہتے ہوں گے کیونکہ اسی وقت نے دنیا میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے
دوستوں کی ایک محفل میں ایک دوست فرمانے لگے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایک سول ادارہ یا کوئی ایک چیز اگر صحیح طریقے سے کام کررہی ہو تو میں سو جوتے کھانے کے لیے تیار ہوں۔ ان کی یہ بات سنتے ہی سوچنے کی سب سے زیادہ پھرتی میں نے دکھائی کیونکہ برسوں کی دل میں مچلتی ہوئی خواہش کو پورا کرنے کا جو موقع مل رہا تھا لیکن کیا کیجیے میں اتنا خوش نصیب کہاں واقع ہوا ہوں کہ اپنی خواہشوں کو پورا کرسکوں۔
بار بار ملک کے ہر ادارے ہر چیز پر نظریں دوڑانے کے بعد نظریں شرمندہ ہو کر جب واپس پلٹیں تو مجھے احساس ہوا کہ ہم دنیا کی وہ واحد عجیب و غریب قسم کی قوم بن چکے ہیں جہاں ایک بھی چیز ملک میں صحیح طریقے سے کام نہیں کررہی ہے۔ ہر جگہ بگاڑ کا یہ عالم ہے کہ اسے دیکھ کر اور سوچ کر وحشت ہونے لگتی ہے۔
کہتے ہیں کہ وقت ہر چیز بدل کر رکھ دیتا ہے سچ کہتے ہوں گے کیونکہ اسی وقت نے دنیا میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے لیکن ہمارے معاملے میں وقت ہمارا کچھ نہیں بدل سکا اور اس نے اسی میں اپنی عافیت جانی کہ خود ہی نظریں بدل لو، خدا کا شکر ہے کہ وقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا لہذا خود ہی بگڑ گیا اب ہم سے روٹھا روٹھا پھرتا ہے۔ ظاہر ہے ہم کیا کریں روٹھا خود ہے ہم سے تو، منائیں بھی خود ہی۔ ہم کیوں منائیں یہ سوچ سوچ کر وحشت ہونے لگ جاتی ہے کہ خدانحواستہ اگر ہم بدل جاتے ہیں تو پھر اوپر جا کر اپنے بزرگوں کو کیا منہ دکھاتے انھیں کیا جواب دیتے کیونکہ نہ وہ کبھی بدلے تو ظاہر ہے ان کی اولاد کیسے خود کو بدل سکتی ہے۔
دنیا کو ہو نہ ہو لیکن ہمیں نہ صرف یہ کہ اپنی عزت کا بھی خیال ہے اور اپنے بزرگوں کی شان وشوکت کا بھی پاس ہے عورتیں بدلا کرتی ہیں مرد کبھی نہیں بدلتے۔ ہماری ساری زندگی کہانیاں سنتے، سناتے اور بناتے گذری ہے اور یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی ہماری کہانی سچی نہ ہوسکی۔ تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے سارا قصور تو کہانیوں کا ہے جنہوں نے ہماری عزت کا کوئی پاس ہی نہیں رکھا، ہماری تمام عمر اپنے آپ کو دھوکے دیتے ہوئے دلاسہ دیتے ہوئے تمام ہوئی ہے تو کوئی بتائے کہ ہم قصوروار کیسے ہیں، سارے کا سارا قصور تو عمر کا ہے جو جلد ہی تمام ہوگئی ورنہ منزل تو بہت قریب تھی۔ ایک صاحب نے کیا خوب کہا تھا میں اپنی مصیبتوں کا دوسرے لوگوں کو ذمے دار سمجھنے کا عادی تھا لیکن جوں جوں میری عمر بڑھتی جارہی ہے اور شاید عقل وشعور بھی میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ اپنے سارے مصائب کا ذمے دار میں خود ہوں۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا کہ سچ تمہیں آزاد کرتا ہے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہی سچ کو سچ ماننے سے انکار کیا ہے۔ اسی لیے ہم اپنے آپ میں جھوٹ کے قیدی بنے رہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اپنے سارے مصائب کے ذمے دار خود ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سچ کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم سب ملبہ بن چکے ہیں۔
خوابوں کا ملبہ، تہذیب و تمدن کا ملبہ، خواہشوں، تمنائوں، ارمانوں کا ملبہ، چاروں طرف اڑتی ہوئی دھول اور مٹی کے بیچوں بیچ پڑا ملبہ۔ عراق کے کریم واصفی نے پچھلے جمعے کو ایک کار بم دھماکے کے فوری بعد تباہ شد ہ ملبے پر بیٹھ کر امن، محبت اور تعمیر کا نغمہ چھیڑ دیا، ہوا یہ تھا کہ دھماکے کے بعد پورے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا تھا لیکن کریم واصفی نے وائلن نما بڑا ساز لے کر اسی جگہ بیٹھ کر ساز چھیڑ دیا تو کئی راہگیر جمع ہوگئے۔ کریم واصفی نے اس موقعے پر کہا کہ خوف، دہشت، تشدد اور ہلاکت کی طاقتوں کوصرف امن، محبت اور تعمیر سے شکست دی جاسکتی ہے۔
کیا وہ وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے اپنے ملبے پر بیٹھ کر کریم واصفی کی طرح ساز چھیڑ دیں، محبت اور امن کا ساز تعمیر کا ساز۔ اور پھر ہم سب اپنے آپ کو دوبارہ نئے سرے سے تعمیر میں جت جائیں، یاد رکھیں ابھی ہم سب سے وقت صرف روٹھا ہے اسے منایا جاسکتا ہے روٹھے مان جاتے ہیں لیکن اگر وقت ہم سے ناراض ہو گیا اور ہم سے آگے چلا گیا تو پھر ہم کتنا ہی تیز دوڑ لیں کتنا ہی تیز بھاگ لیں دوبارہ وقت کو کبھی بھی نہیں پکڑ سکیں گے اور نہ کبھی اسے منا سکیں گے۔ یاد رکھو، گیا وقت کبھی نہیں آتا ہم نے اپنے وقت کو بہت ضایع کیا ہے بہت برباد کیا ہے ہماری بربادی اصل میں وقت کی ہی بربادی ہے اور ہم یہ بات کبھی سمجھ ہی نہیں پائے ہم نے اپنے ذہن کے دروازے اور کھڑکیاں اتنی زور سے بند کر رکھی تھیں کہ انھیں کھولنے کے لیے وقت نے بھی ہار مان لی۔
دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے جیسی ہمیں اس الجھن کی وجہ وہ جالے ہیں جنہیں ہم نے اپنے ذہنوں سے سالوں سے صاف ہی نہیں کیا ہے۔ ہماری زندگی کے ایسے ایسے الجھے مسائل ہیں جن پر ہم بار بار گفتگو تو کرتے ہیں لیکن کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے اور جب آپ فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے تو مسائل اور زیادہ الجھ جاتے ہیں لگتا ہے ہمیں الجھنے میں ہی تسکین ملتی ہے۔ ہمیں مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے میں سکو ن ملتاہے۔ یاد رہے، مسائل کوڑے کرکٹ کی طرح ہوتے ہیں اگر آپ انھیں جمع کرتے رہیں گے تو ایک دن آپ کا پورا وجود بھی کوڑا کرکٹ بن جائے گا اگر آپ اپنے اس موجودہ حال میں خوش ہیں تو پھر خوش رہیے۔
ورنہ آئیں سب سے پہلے اپنے آپ کو قصے، کہانیوں سے آزاد کروا دیں۔ آئیں مل کر اپنی خوش حالی، کامیابی، ترقی کے نئے خواب دیکھتے ہیں۔ برگ کے بقول سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے۔ یاد رکھو ہم خوش رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ڈزرائیلی نے کہا تھا آدمی حالات کی مخلوق نہیں بلکہ حالات انسان کی مخلوقات ہیں۔ جب اندر اندھیرا ہوتا ہے تو باہر خودبخود اندھیرا ہو جاتا ہے اور جب اندر اجالا ہوتا ہے تو باہر ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوجاتی ہے۔
آئیں ہم مل کر اپنے اندر کے اندھیرے کو پھانسی دے دیں پھر وقت سے التجا کریں گے کہ وہ ہم سے مان جائے۔ کیونکہ وقت ہی تو سب کچھ سکھاتا ہے وہ ہی تو سب سے بڑا استاد ہے یہ دنیا بھر کی خوشحالی، ترقی، کامیابی سب اسی ہی کی تو کارستانی ہے اسی کا تو جادو ہے وہ سب سے بڑا جادوگر ہے اور ہم سب سے بڑے بے وقوف، آئیں ہم سب مل کر اسے اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔
بار بار ملک کے ہر ادارے ہر چیز پر نظریں دوڑانے کے بعد نظریں شرمندہ ہو کر جب واپس پلٹیں تو مجھے احساس ہوا کہ ہم دنیا کی وہ واحد عجیب و غریب قسم کی قوم بن چکے ہیں جہاں ایک بھی چیز ملک میں صحیح طریقے سے کام نہیں کررہی ہے۔ ہر جگہ بگاڑ کا یہ عالم ہے کہ اسے دیکھ کر اور سوچ کر وحشت ہونے لگتی ہے۔
کہتے ہیں کہ وقت ہر چیز بدل کر رکھ دیتا ہے سچ کہتے ہوں گے کیونکہ اسی وقت نے دنیا میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے لیکن ہمارے معاملے میں وقت ہمارا کچھ نہیں بدل سکا اور اس نے اسی میں اپنی عافیت جانی کہ خود ہی نظریں بدل لو، خدا کا شکر ہے کہ وقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا لہذا خود ہی بگڑ گیا اب ہم سے روٹھا روٹھا پھرتا ہے۔ ظاہر ہے ہم کیا کریں روٹھا خود ہے ہم سے تو، منائیں بھی خود ہی۔ ہم کیوں منائیں یہ سوچ سوچ کر وحشت ہونے لگ جاتی ہے کہ خدانحواستہ اگر ہم بدل جاتے ہیں تو پھر اوپر جا کر اپنے بزرگوں کو کیا منہ دکھاتے انھیں کیا جواب دیتے کیونکہ نہ وہ کبھی بدلے تو ظاہر ہے ان کی اولاد کیسے خود کو بدل سکتی ہے۔
دنیا کو ہو نہ ہو لیکن ہمیں نہ صرف یہ کہ اپنی عزت کا بھی خیال ہے اور اپنے بزرگوں کی شان وشوکت کا بھی پاس ہے عورتیں بدلا کرتی ہیں مرد کبھی نہیں بدلتے۔ ہماری ساری زندگی کہانیاں سنتے، سناتے اور بناتے گذری ہے اور یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی ہماری کہانی سچی نہ ہوسکی۔ تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے سارا قصور تو کہانیوں کا ہے جنہوں نے ہماری عزت کا کوئی پاس ہی نہیں رکھا، ہماری تمام عمر اپنے آپ کو دھوکے دیتے ہوئے دلاسہ دیتے ہوئے تمام ہوئی ہے تو کوئی بتائے کہ ہم قصوروار کیسے ہیں، سارے کا سارا قصور تو عمر کا ہے جو جلد ہی تمام ہوگئی ورنہ منزل تو بہت قریب تھی۔ ایک صاحب نے کیا خوب کہا تھا میں اپنی مصیبتوں کا دوسرے لوگوں کو ذمے دار سمجھنے کا عادی تھا لیکن جوں جوں میری عمر بڑھتی جارہی ہے اور شاید عقل وشعور بھی میں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں کہ اپنے سارے مصائب کا ذمے دار میں خود ہوں۔
حضرت عیسیٰ نے کہا تھا کہ سچ تمہیں آزاد کرتا ہے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہی سچ کو سچ ماننے سے انکار کیا ہے۔ اسی لیے ہم اپنے آپ میں جھوٹ کے قیدی بنے رہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم اپنے سارے مصائب کے ذمے دار خود ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سچ کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم سب ملبہ بن چکے ہیں۔
خوابوں کا ملبہ، تہذیب و تمدن کا ملبہ، خواہشوں، تمنائوں، ارمانوں کا ملبہ، چاروں طرف اڑتی ہوئی دھول اور مٹی کے بیچوں بیچ پڑا ملبہ۔ عراق کے کریم واصفی نے پچھلے جمعے کو ایک کار بم دھماکے کے فوری بعد تباہ شد ہ ملبے پر بیٹھ کر امن، محبت اور تعمیر کا نغمہ چھیڑ دیا، ہوا یہ تھا کہ دھماکے کے بعد پورے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا تھا لیکن کریم واصفی نے وائلن نما بڑا ساز لے کر اسی جگہ بیٹھ کر ساز چھیڑ دیا تو کئی راہگیر جمع ہوگئے۔ کریم واصفی نے اس موقعے پر کہا کہ خوف، دہشت، تشدد اور ہلاکت کی طاقتوں کوصرف امن، محبت اور تعمیر سے شکست دی جاسکتی ہے۔
کیا وہ وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے اپنے ملبے پر بیٹھ کر کریم واصفی کی طرح ساز چھیڑ دیں، محبت اور امن کا ساز تعمیر کا ساز۔ اور پھر ہم سب اپنے آپ کو دوبارہ نئے سرے سے تعمیر میں جت جائیں، یاد رکھیں ابھی ہم سب سے وقت صرف روٹھا ہے اسے منایا جاسکتا ہے روٹھے مان جاتے ہیں لیکن اگر وقت ہم سے ناراض ہو گیا اور ہم سے آگے چلا گیا تو پھر ہم کتنا ہی تیز دوڑ لیں کتنا ہی تیز بھاگ لیں دوبارہ وقت کو کبھی بھی نہیں پکڑ سکیں گے اور نہ کبھی اسے منا سکیں گے۔ یاد رکھو، گیا وقت کبھی نہیں آتا ہم نے اپنے وقت کو بہت ضایع کیا ہے بہت برباد کیا ہے ہماری بربادی اصل میں وقت کی ہی بربادی ہے اور ہم یہ بات کبھی سمجھ ہی نہیں پائے ہم نے اپنے ذہن کے دروازے اور کھڑکیاں اتنی زور سے بند کر رکھی تھیں کہ انھیں کھولنے کے لیے وقت نے بھی ہار مان لی۔
دنیا میں کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جسے ایسی الجھن درپیش ہے جیسی ہمیں اس الجھن کی وجہ وہ جالے ہیں جنہیں ہم نے اپنے ذہنوں سے سالوں سے صاف ہی نہیں کیا ہے۔ ہماری زندگی کے ایسے ایسے الجھے مسائل ہیں جن پر ہم بار بار گفتگو تو کرتے ہیں لیکن کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے اور جب آپ فیصلے پر نہیں پہنچ پاتے تو مسائل اور زیادہ الجھ جاتے ہیں لگتا ہے ہمیں الجھنے میں ہی تسکین ملتی ہے۔ ہمیں مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرنے میں سکو ن ملتاہے۔ یاد رہے، مسائل کوڑے کرکٹ کی طرح ہوتے ہیں اگر آپ انھیں جمع کرتے رہیں گے تو ایک دن آپ کا پورا وجود بھی کوڑا کرکٹ بن جائے گا اگر آپ اپنے اس موجودہ حال میں خوش ہیں تو پھر خوش رہیے۔
ورنہ آئیں سب سے پہلے اپنے آپ کو قصے، کہانیوں سے آزاد کروا دیں۔ آئیں مل کر اپنی خوش حالی، کامیابی، ترقی کے نئے خواب دیکھتے ہیں۔ برگ کے بقول سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے۔ یاد رکھو ہم خوش رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ڈزرائیلی نے کہا تھا آدمی حالات کی مخلوق نہیں بلکہ حالات انسان کی مخلوقات ہیں۔ جب اندر اندھیرا ہوتا ہے تو باہر خودبخود اندھیرا ہو جاتا ہے اور جب اندر اجالا ہوتا ہے تو باہر ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوجاتی ہے۔
آئیں ہم مل کر اپنے اندر کے اندھیرے کو پھانسی دے دیں پھر وقت سے التجا کریں گے کہ وہ ہم سے مان جائے۔ کیونکہ وقت ہی تو سب کچھ سکھاتا ہے وہ ہی تو سب سے بڑا استاد ہے یہ دنیا بھر کی خوشحالی، ترقی، کامیابی سب اسی ہی کی تو کارستانی ہے اسی کا تو جادو ہے وہ سب سے بڑا جادوگر ہے اور ہم سب سے بڑے بے وقوف، آئیں ہم سب مل کر اسے اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔