لاہور میں سامان پیک کرنے والا پروٹیز کرکٹ اسٹار بن گیا
اہلیہ نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا تو جنوبی افریقہ میں روزگار کی تلاش شروع کر دی
لاہور کی ایک دکان پر سامان پیک کرنے والے عمران طاہرکرکٹ اسٹار بن گئے، جنوبی افریقی ٹیم کا لازمی حصہ سمجھے جانے والے اسپنر نے مشکلات کے طویل دور سے گزرتے ہوئے عروج تک سفر طے کیا۔
تفصیلات کے مطابق بھارت میں آئی پی ایل کیلیے موجود عمران طاہر نے ایک انٹرویو میں اپنی ماضی کی یادیں تازہ کیں، انھوں نے بتایاکہ بچپن میں ٹیپ بال سے کھیلتے ہوئے ایک گیند تیزی سے لیگ اسپن ہوئی تو کزن نے مزید تجربات کا مشورہ دیا، میری دلچسپی بھی بڑھی،اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے مجھ پر بھاری ذمہ داری تھی،اس لیے لاہور میں ایک اسٹور پر گاہکوں کا سامان پیک کرنا شروع کردیا،اس تجربے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک دلائی۔
میں سوچتا تھا کہ یہاں زیادہ خریداری کرنے والے لوگوں نے اپنی محنت سے دولت کمائی تو میں کیوں نہیں کرسکتا،ایک دوست انڈر19ٹرائلز کیلیے لے گیا،کوچ کو میری بولنگ اچھی لگی اورابتدائی فہرست میں شامل نہ ہونے کے باوجود منتخب ہوگیا،پھر پہلے ہی میچ میں11وکٹیں حاصل کرلیں، 17سال کی عمر میں سفر شروع کرنے کے بعد انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلی، وہاں بہت کچھ سیکھنے اور اپنی فٹنس بہتر بنانے کا موقع ملا، اچانک ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب دوست سے ملنے جنوبی افریقہ گیا اور وہاں شادی کرلی،اہلیہ نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا تو میں نے روزگار کی تلاش شروع کردی، پروٹیز کلب ٹائٹنز کیلیے ٹرائلز دینے گیا تو انھوں نے کہا کہ شادی کی وجہ سے اس ملک میں رہنے کی اجازت تو مل گئی۔
ہمارے ساتھ کھیلنے کا موقع بھی پا سکتے ہو،اس کے بعد بتدریج پروفیشنل کیریئر کی جانب قدم بڑھتے گئے۔ عمران طاہر نے بتایا کہ انگلینڈ میں رچی بینوکی ویڈیوز سے سیکھنے کی کوشش کرتا رہا، عبدالقادر اور شین وارن کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہوں،انھوں نے رہنمائی کرنے میں بھی کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیا، البتہ دیگر کی جانب سے کوئی خاص حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوئی، انھوں نے کہا کہ میری ڈلیوریز گگلی،فلیپر اور سلائیڈر ہی ہوتی ہیں تاہم کریز کے استعمال سے انھیں مختلف بناتا ہوں، میرا خیال ہے کہ ایک اوور کی ہر گیند مختلف انداز میں کرائی جاسکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بھارت میں آئی پی ایل کیلیے موجود عمران طاہر نے ایک انٹرویو میں اپنی ماضی کی یادیں تازہ کیں، انھوں نے بتایاکہ بچپن میں ٹیپ بال سے کھیلتے ہوئے ایک گیند تیزی سے لیگ اسپن ہوئی تو کزن نے مزید تجربات کا مشورہ دیا، میری دلچسپی بھی بڑھی،اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے مجھ پر بھاری ذمہ داری تھی،اس لیے لاہور میں ایک اسٹور پر گاہکوں کا سامان پیک کرنا شروع کردیا،اس تجربے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کی تحریک دلائی۔
میں سوچتا تھا کہ یہاں زیادہ خریداری کرنے والے لوگوں نے اپنی محنت سے دولت کمائی تو میں کیوں نہیں کرسکتا،ایک دوست انڈر19ٹرائلز کیلیے لے گیا،کوچ کو میری بولنگ اچھی لگی اورابتدائی فہرست میں شامل نہ ہونے کے باوجود منتخب ہوگیا،پھر پہلے ہی میچ میں11وکٹیں حاصل کرلیں، 17سال کی عمر میں سفر شروع کرنے کے بعد انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلی، وہاں بہت کچھ سیکھنے اور اپنی فٹنس بہتر بنانے کا موقع ملا، اچانک ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب دوست سے ملنے جنوبی افریقہ گیا اور وہاں شادی کرلی،اہلیہ نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا تو میں نے روزگار کی تلاش شروع کردی، پروٹیز کلب ٹائٹنز کیلیے ٹرائلز دینے گیا تو انھوں نے کہا کہ شادی کی وجہ سے اس ملک میں رہنے کی اجازت تو مل گئی۔
ہمارے ساتھ کھیلنے کا موقع بھی پا سکتے ہو،اس کے بعد بتدریج پروفیشنل کیریئر کی جانب قدم بڑھتے گئے۔ عمران طاہر نے بتایا کہ انگلینڈ میں رچی بینوکی ویڈیوز سے سیکھنے کی کوشش کرتا رہا، عبدالقادر اور شین وارن کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہوں،انھوں نے رہنمائی کرنے میں بھی کبھی کنجوسی سے کام نہیں لیا، البتہ دیگر کی جانب سے کوئی خاص حوصلہ افزائی حاصل نہیں ہوئی، انھوں نے کہا کہ میری ڈلیوریز گگلی،فلیپر اور سلائیڈر ہی ہوتی ہیں تاہم کریز کے استعمال سے انھیں مختلف بناتا ہوں، میرا خیال ہے کہ ایک اوور کی ہر گیند مختلف انداز میں کرائی جاسکتی ہے۔