آفیسر اِن سرچ آف ڈیوٹی
زندگی کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ چند روز ہی میں سبزی گوشت کی شاپنگ کرنے سے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک سینئر بیورو کریٹ کی چودہ دن کی ڈائری جو انھوں نے بحیثیت آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی تحریر کی اور میرے ہاتھ ایک گلیوں میں گھوم کر ردی کاغذ خریدنے والے کے توسط سے لگی نصف کے قریب قارئین کے تفنن طبع کے لیے پیش کی تھی۔ عاقل میاں کی ڈائری کا بقیہ حصہ درج ذیل ہے۔ ان کا اصل نام اس لیے تحریر نہیں کر رہا کہ ان کے او ایس ڈی شب کے دن ختم ہو چکے اور اب وہ ایک اعلیٰ عہدے پر متمکن ہیں۔ ان کی ڈائری کے آٹھویں سے چودھویں دن کے ملفوظات یوں ہیں:
آٹھواں دن: نصف شب آنکھ کھل گئی۔ دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے دوبارہ سونے کی کوشش کی۔ ناکامی پر احتیاطاً ایک ہی دن قبل نیند آور خریدی ہوئی گولی حلق میں اتاری اور سونے کی کوشش کی۔ اچھے بھلے فرصت اور آزادی کے چند دن ملے تھے، یار دوستوں نے خوامخواہ کے وسوسے ذہن میں ڈال کر برباد کرنے کی کوشش کی جس نے نیند ڈسٹرب کر دی۔ دوبارہ آنکھ لگے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ بیگم نے جگا دیا اور بتایا کہ سرکاری کار ڈرائیور آیا ہے، کہتا ہے میری جگہ آئے نئے صاحب اسے ایک دو جگہ انسپکشن پر ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لہٰذا وہ اجازت لے کر جانا چاہتا ہے۔ بیگم نے کہا بچوں کو سکول کالج چھوڑنے جانے کے لیے تیار ہو جاؤں۔
نواں دن: کل سے سرکاری ڈرائیور جو واپس چلا گیا ہے، صبح سویرے بچوں کو اسکول کالج چھوڑنے مجھے جانا پڑ رہا ہے۔ چھٹی ہونے پر انھیں واپس لانے کے لیے پھر بھاگم دوڑ۔ شروع میں تجربہ تکلیف دہ رہا ہے۔ دوسرے دن اس میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ فریضہ کئی جان پہچان والے مدت سے انجام دے رہے ہیں۔ ان سے ہاتھ ہلا کر سلام دعا ہونے لگی ہے۔ مجھے اپنے سکول جانے کے دن یاد آ گئے۔ مجھے تو والدہ گھر کے دروازے ہی پر پیدل رخصت کر دیا کرتی تھیں۔ کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر سکول تھا، کسی بچے کے والد کے پاس موٹر کار نہ تھی۔ چند بچے سائیکل رکھتے تھے۔ واپسی کا فاصلہ دو کی بجائے چار کلومیٹر لگتا تھا۔ اب میرے پاس صرف ایک سرکاری گاڑی رہ گئی ہے۔ ایک ڈرائیور جو میرے پاس رہ گیا ہے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر روز کسی دوسرے سے کار ٹکرا کر فساد کھڑا کروا دیتا ہے۔
دسواں دن: چند دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر کسی کا پہلا سوال ہوتا سنایئے نیا پوسٹنگ آرڈر کب آ رہا ہے؟ پہلے میں ان کے سوال کو مذاق میں ٹال دیتا پھر زچ ہونے لگا اور بالآخر لوگوں کو وزٹ کرنا ترک کر دیا۔ اب مجھے خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا ادراک ہونے لگا۔ وفا شعار بیوی، دعا گو والدین، اپنی اچھی صحت، نیک فرمانبردار اور قابل اولاد، مخلص دوست اور خوشحالی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ مفید مصروفیت کتنی بڑی نعمت ہے۔ مال و دولت کا بھی پہلا دوسرا نہیں چوتھا پانچواں نمبر آتا ہے۔ مجھے او ایس ڈی بنے دس روز ہو چکے تھے اس لیے بے کار کی فرصت کے عذاب کا احساس ہونے لگا تھا۔ اب میں واقعی بے کاری کے مزے لوٹنے کی بجائے ڈیپریشن والی کیفیت سے دوچار ہونے لگا تھا۔
گیارہواں دن: زندگی کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ چند روز ہی میں سبزی گوشت کی شاپنگ کرنے سے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا ہے۔ کار ڈرائیونگ میں مہارت بڑھ گئی اور لوگوں کی بیہودہ ڈرائیونگ پر غصہ آنے لگا ہے۔ سڑکوں بازاروں میں بے کار گھومتے پھرتے بیٹھے لوگوں کو گپیں ہانکتے دیکھ کر حیرت ہونے لگی ہے کہ شادی شدہ لوگوں کو بچے پیدا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ اچانک ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا ہے:
عاشقی قید شریعت میں جب آ جاتی ہے
جلوۂ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے
مجھے او ایس ڈی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کے علاوہ دوسرے معانی بھی یاد آ گئے۔ آفیسر ان سرچ آف ڈیوٹی۔ بلاشبہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ فارغ آدمی اور مصروف شخص میں موازنہ کیا تو محنت میں عظمت جیسے قول زریں کی حقیقت کا اندازہ ہوا۔
بارہواں دن: حرص اور لالچ چاہے دولت کی ہو یا منصب کی، گداگری کا ایک چلن ہے جو یقینی طور پر کمینگی اور بزدلی کو جنم دیتا ہے اور اقتدار سے چمٹے رہنے یا اسے بہر صورت حاصل کر لینے کی خواہش انسان کو گربہ صفت بنا دیتی ہے۔ شاید اسی لیے توکل اور قناعت پسندی بعض لوگوں کے اندر بگڑی ہوئی شکل میں تکبر اور نخوت کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ بہرحال دونوں حالتیں عدم توازن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ فرصت کیا کیا حقیقتیں آشکار کر دیتی ہے۔ آج یہ شعر اقبال ورد زبان رہا:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مجھ جیسے افسر او ایس ڈی شپ کے دنوں میں جگہ جگہ سجدہ ریز ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
تیرہواں دن: آج صبح سویرے بیدار ہونے اور عبادت سے فارغ ہو کر پارک میں سیر کے دوران مدت کے بعد طلوع آفتاب کا سحر انگیز منظر دیکھا تو ذہن میں ایک کوندا سا لپک گیا۔ خیال آیا کہ جیسے دنیا میں آنے والا ہر نومولود یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ کیا یہ لازم نہیں کہ اس کی بے پایاں نعمتوں کے شکرانے کے طور پر ہر اندر جاتی اور باہر نکلتی ہوئی سانس کے ساتھ اس ذات باری کی حمد کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے عطا کردہ انعامات کی گنتی شروع کر دی اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، مجھ میں ممنونیت کے احساس کے ساتھ ساتھ ایک طمانیت ایک توانائی سرایت کرتی جا رہی تھی۔ میرے لیے یہ صبح ایک انوکھا مشاہدہ تھی۔
چودھواں دن: آج صبح ہی سے دوست احباب کے خیر و عافیت پوچھنے کے لیے ٹیلی فون آنے لگے ہیں۔ اندازہ ہے کہ میری آئندہ پوسٹنگ کی فائل میں ہلچل ہوئی ہے۔ ان دو ہفتوں کے دوران میں جس بھی دفتر میں گیا، فضا سرد مہری کی پائی۔ یہ اچانک گرمجوشی کے ٹیلیفون کیوں آنے لگے۔
آٹھواں دن: نصف شب آنکھ کھل گئی۔ دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے دوبارہ سونے کی کوشش کی۔ ناکامی پر احتیاطاً ایک ہی دن قبل نیند آور خریدی ہوئی گولی حلق میں اتاری اور سونے کی کوشش کی۔ اچھے بھلے فرصت اور آزادی کے چند دن ملے تھے، یار دوستوں نے خوامخواہ کے وسوسے ذہن میں ڈال کر برباد کرنے کی کوشش کی جس نے نیند ڈسٹرب کر دی۔ دوبارہ آنکھ لگے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ بیگم نے جگا دیا اور بتایا کہ سرکاری کار ڈرائیور آیا ہے، کہتا ہے میری جگہ آئے نئے صاحب اسے ایک دو جگہ انسپکشن پر ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لہٰذا وہ اجازت لے کر جانا چاہتا ہے۔ بیگم نے کہا بچوں کو سکول کالج چھوڑنے جانے کے لیے تیار ہو جاؤں۔
نواں دن: کل سے سرکاری ڈرائیور جو واپس چلا گیا ہے، صبح سویرے بچوں کو اسکول کالج چھوڑنے مجھے جانا پڑ رہا ہے۔ چھٹی ہونے پر انھیں واپس لانے کے لیے پھر بھاگم دوڑ۔ شروع میں تجربہ تکلیف دہ رہا ہے۔ دوسرے دن اس میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ فریضہ کئی جان پہچان والے مدت سے انجام دے رہے ہیں۔ ان سے ہاتھ ہلا کر سلام دعا ہونے لگی ہے۔ مجھے اپنے سکول جانے کے دن یاد آ گئے۔ مجھے تو والدہ گھر کے دروازے ہی پر پیدل رخصت کر دیا کرتی تھیں۔ کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر سکول تھا، کسی بچے کے والد کے پاس موٹر کار نہ تھی۔ چند بچے سائیکل رکھتے تھے۔ واپسی کا فاصلہ دو کی بجائے چار کلومیٹر لگتا تھا۔ اب میرے پاس صرف ایک سرکاری گاڑی رہ گئی ہے۔ ایک ڈرائیور جو میرے پاس رہ گیا ہے نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر روز کسی دوسرے سے کار ٹکرا کر فساد کھڑا کروا دیتا ہے۔
دسواں دن: چند دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر کسی کا پہلا سوال ہوتا سنایئے نیا پوسٹنگ آرڈر کب آ رہا ہے؟ پہلے میں ان کے سوال کو مذاق میں ٹال دیتا پھر زچ ہونے لگا اور بالآخر لوگوں کو وزٹ کرنا ترک کر دیا۔ اب مجھے خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا ادراک ہونے لگا۔ وفا شعار بیوی، دعا گو والدین، اپنی اچھی صحت، نیک فرمانبردار اور قابل اولاد، مخلص دوست اور خوشحالی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ مفید مصروفیت کتنی بڑی نعمت ہے۔ مال و دولت کا بھی پہلا دوسرا نہیں چوتھا پانچواں نمبر آتا ہے۔ مجھے او ایس ڈی بنے دس روز ہو چکے تھے اس لیے بے کار کی فرصت کے عذاب کا احساس ہونے لگا تھا۔ اب میں واقعی بے کاری کے مزے لوٹنے کی بجائے ڈیپریشن والی کیفیت سے دوچار ہونے لگا تھا۔
گیارہواں دن: زندگی کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ چند روز ہی میں سبزی گوشت کی شاپنگ کرنے سے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا ہے۔ کار ڈرائیونگ میں مہارت بڑھ گئی اور لوگوں کی بیہودہ ڈرائیونگ پر غصہ آنے لگا ہے۔ سڑکوں بازاروں میں بے کار گھومتے پھرتے بیٹھے لوگوں کو گپیں ہانکتے دیکھ کر حیرت ہونے لگی ہے کہ شادی شدہ لوگوں کو بچے پیدا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ اچانک ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا ہے:
عاشقی قید شریعت میں جب آ جاتی ہے
جلوۂ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے
مجھے او ایس ڈی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کے علاوہ دوسرے معانی بھی یاد آ گئے۔ آفیسر ان سرچ آف ڈیوٹی۔ بلاشبہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ فارغ آدمی اور مصروف شخص میں موازنہ کیا تو محنت میں عظمت جیسے قول زریں کی حقیقت کا اندازہ ہوا۔
بارہواں دن: حرص اور لالچ چاہے دولت کی ہو یا منصب کی، گداگری کا ایک چلن ہے جو یقینی طور پر کمینگی اور بزدلی کو جنم دیتا ہے اور اقتدار سے چمٹے رہنے یا اسے بہر صورت حاصل کر لینے کی خواہش انسان کو گربہ صفت بنا دیتی ہے۔ شاید اسی لیے توکل اور قناعت پسندی بعض لوگوں کے اندر بگڑی ہوئی شکل میں تکبر اور نخوت کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ بہرحال دونوں حالتیں عدم توازن کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ فرصت کیا کیا حقیقتیں آشکار کر دیتی ہے۔ آج یہ شعر اقبال ورد زبان رہا:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مجھ جیسے افسر او ایس ڈی شپ کے دنوں میں جگہ جگہ سجدہ ریز ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
تیرہواں دن: آج صبح سویرے بیدار ہونے اور عبادت سے فارغ ہو کر پارک میں سیر کے دوران مدت کے بعد طلوع آفتاب کا سحر انگیز منظر دیکھا تو ذہن میں ایک کوندا سا لپک گیا۔ خیال آیا کہ جیسے دنیا میں آنے والا ہر نومولود یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ کیا یہ لازم نہیں کہ اس کی بے پایاں نعمتوں کے شکرانے کے طور پر ہر اندر جاتی اور باہر نکلتی ہوئی سانس کے ساتھ اس ذات باری کی حمد کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے عطا کردہ انعامات کی گنتی شروع کر دی اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی، مجھ میں ممنونیت کے احساس کے ساتھ ساتھ ایک طمانیت ایک توانائی سرایت کرتی جا رہی تھی۔ میرے لیے یہ صبح ایک انوکھا مشاہدہ تھی۔
چودھواں دن: آج صبح ہی سے دوست احباب کے خیر و عافیت پوچھنے کے لیے ٹیلی فون آنے لگے ہیں۔ اندازہ ہے کہ میری آئندہ پوسٹنگ کی فائل میں ہلچل ہوئی ہے۔ ان دو ہفتوں کے دوران میں جس بھی دفتر میں گیا، فضا سرد مہری کی پائی۔ یہ اچانک گرمجوشی کے ٹیلیفون کیوں آنے لگے۔