حالات کے تناظر میں
پاکستان بھی اپنے پڑوسی ملک کی بے حد قدرکرتا اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی شان میں قصیدہ خواں رہتا ہے
ہماری زندگی دکھوں اور غموں سے آراستہ ہے، کبھی سکھ اور چین تو کبھی دکھوں کا طوفان ہماری خوشیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے، پچھلے دنوں چین کے صدر شی چن پنگ کی پاکستان آمد اور خوشیوں و کامرانیوں کی نوید نے پاکستانیوں کو اچھے وقت کی امید ضرور دلائی ہے، پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت دونوں ملکوں کے علاقائی امن و استحکام، تعلیم، روزگار اور صحت عامہ کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی، اگر یہ منصوبے کامیاب ہوجاتے ہیں تو ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔
پاکستان اور چین کی دوستی مضبوط رشتوں پر استوار ہے چین سے پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں اور اﷲ نے چاہا تو ہمیشہ رہیںگے، کڑے وقتوں میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا اور ہر طرح سے تعاون کی یقین دہانی کرائی، صدر جمہوریہ چین نے ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہاکہ جب میں جوان تھا تو میں پاک چین دوستی کے زندہ باد کے نعرے اور کہانیاں سنا کرتا تھا، مثال کے طور پر پاکستان نے چین کو دنیا سے رابطہ رکھنے کے لیے فضائی راستے فراہم کیے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ میں چین کے جائز مقام کی بحالی کے لیے بھرپور حمایت کا بھی اعلان کیا، پاکستان بھی اپنے پڑوسی ملک کی بے حد قدرکرتا اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی شان میں قصیدہ خواں رہتا ہے، کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے، ہمارا دوست اور خیر خواہ چین بھی پاکستان کو اپنا سچا اور پکا دوست سمجھتا ہے۔
جس کا عملی مظاہرہ بھی کٹھن وقتوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ پاک چین کی دوستی کا آغاز 1951 میں ہوا اور الحمدﷲ آج تک یہ سفر جاری و ساری ہے، مستقبل قریب میں بھی پاک چین دوستی کے نعرے فضائوں میں گونجتے رہیں گے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور تعاون کا اعلان کیا اور پاکستان کے دشمنوں کا حوصلہ پست کرنے میں پیش پیش رہا اس طرح پاکستان نے چین کے ہوتے ہوئے کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا۔
گوادر کا منصوبہ پاک چین کی اہم شراکت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کی ہی وجہ سے تمام ترقیاتی منصوبوں سے گوادر ترقی کی دوڑ میں انشاء اﷲ آگے ہوگا اور اقتصادی راہداری کی ہی بدولت مکران، گوادر اور خصوصی طور پر بلوچستان کی ترقی میں نمایاں پیش رفت ہونے کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بھی چین نے بھرپور طریقے سے تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ممالک افغانستان، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے خواہشمند ہیں اور اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔
صدر عوامی جمہوریہ چین کی پاکستان آمد ایک اچھے وقت اور ترقی یافتہ دور کی نشاندہی کررہی ہے اگرچہ ہمارے ملک کے حکمران بھی پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کے لیے خلوص دل سے ان منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے پورا پورا ساتھ دیں اور مثبت کاموں کے لیے اقدامات کریں تو یقینا بہتری کی صورت مل سکتی ہے پاکستانی عوام نے آنیوالے وقت کے لیے تھوڑی سی خوشی ضرور محسوس کی تھی کہ ابھی تو تمام منصوبے زبانی و کلامی اور کاغذ پر ہیں اور آغاز ہوا جاتا ہے۔
انجام تک پہنچنے میں بہت سے سال درکار ہیں، بنگلہ دیش سے ہارنے کے غم نے پاکستانیوں کو غم زدہ کردیا، ایسا پہلی ہی بار ہوا ہے، پے در پے شکست نے کرکٹ کے شائقین اور عاشقین کو بے حد مایوس کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے ایک ٹیم جیتتی ہے تو دوسری ٹیم کا مقدر ''ہارنا'' بن جاتا ہے لیکن کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی نے سالہا سال کی بنی بنائی عزت اور ساکھ کو گہری ضرب لگائی ہے۔اس کھیل میں مہارت رکھنے والوں کا کہناہے کہ کرکٹ ٹیم کی ناکامی ایک مشہور و معروف فرد کی مرہون منت ہے یہ بھی عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو اہم ذمے داریاں سونپ دی جاتی ہیں جو اس کے اہل نہیں ہوتے، ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب اور اچھے کھلاڑیوں کو نہ کھلانا اور اپنی منشا کو مقدم جاننا پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی کرکٹ ٹیم کی عزت و وقار بحال کرنے کے لیے مثبت اقدام کرے اور کرکٹ بورڈ کے اراکین و منتظمین کی کارکردگی پر ٹھنڈے دل سے نظر ثانی کرے تاکہ قوم کی شکایتیں دور ہوں۔کرکٹ میں ناکامی کے بعد اچانک آنیوالی آفت نے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ خیبر پختونخوا میں ہلاکت خیز بارش اور طوفان نے قیامت صغریٰ بپا کردی بے شمار لوگ بے آسرا اور زخمی ہوئے، پچاس کے قریب نفوس اپنی جانوں سے گئے۔
ان کی زندگی کا دیا گل ہوگیا ایک گھر سے ایک ساتھ چھ بچوں کے جنازے اٹھے اور اسی طرح میاں بیوی بھی بارش کی تباہ کاریوں میں اپنی جان گنوا بیٹھے اور ایک ساتھ سفر آخرت پر روانہ ہوئے، اس طرح بہت سے گھرانوں کی خوشیاں ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئیں، اپنوں کا دکھ اور غم بھلائے نہیں بھولا جاسکتا ہے یہ وہ زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا گویا یہ طوفانی بارش اور تیز ہوائیں کسی عذاب سے کم نہیں تھیں۔ گلیاں، بازار، در و دیوار مکمل طور پر یاسیت کی نذر ہوگئے،اداسیاں دور دور تک پھیل گئیں، ہر شخص غم زدہ اور روتا ہوا نظر آتا ہے ۔ہمارے شہر کراچی میں بھی آنیوالے دنوں میں اگر اﷲ کا حکم ہوا تو بارشیں برس سکتی ہیں۔
اس حقیقت سے بھی کراچی کے مکین اچھی طرح واقف ہیں کہ جب بھی مینہ جم کر برسا اور برسات کی جھڑی لگی تو شہر کا چپہ چپہ جل تھل ہوگیا، ندی نالے بھر گئے، کچے مکان ڈھ گئے، بجلی کے تار گرنے، کرنٹ لگنے اور ندی نالوں میں ڈوبنے کی وجہ سے سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔قبل از وقت اگر کے ای کا محکمہ اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کی کوشش کرے تو کم از کم بجلی کے تار ٹوٹ کر نہ زمین پر گریں اور اسی طرح کنٹونمنٹ کے صاحب اختیار ہوسکے تو انسانیت کو تذلیل ہونے سے بچالیں، انسانیت کی بقا کے لیے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کریں تو گزرے سالوں کی طرح معصوم و بے خطا شہری نالوں اور ندی میں گرنے سے بچ جائیں گے بغیر برسات کے بھی سانحات ہوتے ہی رہتے ہیں۔
گلی کوچوں میں کھیلنے والے معصوم بچے کھلی ہوئے گٹر میں آئے دن گرجاتے ہیں جب تک انھیں نکالنے کی تگ و دو کی جاتی ہے وہ پھول سے بچے کملا جاتے ہیں اس قسم کی خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں لیکن کنٹوٹمنٹ بورڈ کا ادارہ نہایت سفاکی کا مظاہرہ اس طرح کرتا ہے کہ سماعت و بصارت سے دانستہ محروم بن جاتا ہے اور پورے سال اسی ہی بے حسی کا مظاہرہ بڑے اعتماد کے ساتھ کرتا ہے۔ موسم برسات میں جب پانی کم از کم دو یا تین فٹ اونچا ہوتا تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں پختہ سڑک ہے اور کہاں نشیب اور نا ہموار راستہ ہے۔
اگر بارش رات کو ہوگئی تب اندھیرے میں اور نہیں سوجھتا کہ کس طرح سفر جاری رکھا جائے اگر انجانے راستے پر جاتا ہو تب دہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جانیں تلف ہونے کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل میمن نے ممکنہ بارشوں کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں نالوں کی صفائی کا بھی حکم دیا ہے لیکن نالے ڈھاپنے کا کوئی ذکر نہیں، گلستان جوہر بلاک نمبر 13 میں ایک بہت بڑا کھلا ہوا نالہ حادثات کو دعوت دیتا نظر آتا ہے، اتفاق سے اسی جگہ ایک سپر مارٹ اور دوسری دکانیں ہیں ہر دم لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن افسوس کنٹوٹمنٹ بورڈ کھلے اور ٹوٹے ہوئے نالے پر توجہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی مضبوط رشتوں پر استوار ہے چین سے پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں اور اﷲ نے چاہا تو ہمیشہ رہیںگے، کڑے وقتوں میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا اور ہر طرح سے تعاون کی یقین دہانی کرائی، صدر جمہوریہ چین نے ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہاکہ جب میں جوان تھا تو میں پاک چین دوستی کے زندہ باد کے نعرے اور کہانیاں سنا کرتا تھا، مثال کے طور پر پاکستان نے چین کو دنیا سے رابطہ رکھنے کے لیے فضائی راستے فراہم کیے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ میں چین کے جائز مقام کی بحالی کے لیے بھرپور حمایت کا بھی اعلان کیا، پاکستان بھی اپنے پڑوسی ملک کی بے حد قدرکرتا اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی شان میں قصیدہ خواں رہتا ہے، کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے، ہمارا دوست اور خیر خواہ چین بھی پاکستان کو اپنا سچا اور پکا دوست سمجھتا ہے۔
جس کا عملی مظاہرہ بھی کٹھن وقتوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ پاک چین کی دوستی کا آغاز 1951 میں ہوا اور الحمدﷲ آج تک یہ سفر جاری و ساری ہے، مستقبل قریب میں بھی پاک چین دوستی کے نعرے فضائوں میں گونجتے رہیں گے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور تعاون کا اعلان کیا اور پاکستان کے دشمنوں کا حوصلہ پست کرنے میں پیش پیش رہا اس طرح پاکستان نے چین کے ہوتے ہوئے کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا۔
گوادر کا منصوبہ پاک چین کی اہم شراکت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کی ہی وجہ سے تمام ترقیاتی منصوبوں سے گوادر ترقی کی دوڑ میں انشاء اﷲ آگے ہوگا اور اقتصادی راہداری کی ہی بدولت مکران، گوادر اور خصوصی طور پر بلوچستان کی ترقی میں نمایاں پیش رفت ہونے کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بھی چین نے بھرپور طریقے سے تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ممالک افغانستان، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے خواہشمند ہیں اور اس بات پر بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔
صدر عوامی جمہوریہ چین کی پاکستان آمد ایک اچھے وقت اور ترقی یافتہ دور کی نشاندہی کررہی ہے اگرچہ ہمارے ملک کے حکمران بھی پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کے لیے خلوص دل سے ان منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے پورا پورا ساتھ دیں اور مثبت کاموں کے لیے اقدامات کریں تو یقینا بہتری کی صورت مل سکتی ہے پاکستانی عوام نے آنیوالے وقت کے لیے تھوڑی سی خوشی ضرور محسوس کی تھی کہ ابھی تو تمام منصوبے زبانی و کلامی اور کاغذ پر ہیں اور آغاز ہوا جاتا ہے۔
انجام تک پہنچنے میں بہت سے سال درکار ہیں، بنگلہ دیش سے ہارنے کے غم نے پاکستانیوں کو غم زدہ کردیا، ایسا پہلی ہی بار ہوا ہے، پے در پے شکست نے کرکٹ کے شائقین اور عاشقین کو بے حد مایوس کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے ایک ٹیم جیتتی ہے تو دوسری ٹیم کا مقدر ''ہارنا'' بن جاتا ہے لیکن کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی نے سالہا سال کی بنی بنائی عزت اور ساکھ کو گہری ضرب لگائی ہے۔اس کھیل میں مہارت رکھنے والوں کا کہناہے کہ کرکٹ ٹیم کی ناکامی ایک مشہور و معروف فرد کی مرہون منت ہے یہ بھی عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو اہم ذمے داریاں سونپ دی جاتی ہیں جو اس کے اہل نہیں ہوتے، ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب اور اچھے کھلاڑیوں کو نہ کھلانا اور اپنی منشا کو مقدم جاننا پاکستان دشمنی کے مترادف ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی کرکٹ ٹیم کی عزت و وقار بحال کرنے کے لیے مثبت اقدام کرے اور کرکٹ بورڈ کے اراکین و منتظمین کی کارکردگی پر ٹھنڈے دل سے نظر ثانی کرے تاکہ قوم کی شکایتیں دور ہوں۔کرکٹ میں ناکامی کے بعد اچانک آنیوالی آفت نے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ خیبر پختونخوا میں ہلاکت خیز بارش اور طوفان نے قیامت صغریٰ بپا کردی بے شمار لوگ بے آسرا اور زخمی ہوئے، پچاس کے قریب نفوس اپنی جانوں سے گئے۔
ان کی زندگی کا دیا گل ہوگیا ایک گھر سے ایک ساتھ چھ بچوں کے جنازے اٹھے اور اسی طرح میاں بیوی بھی بارش کی تباہ کاریوں میں اپنی جان گنوا بیٹھے اور ایک ساتھ سفر آخرت پر روانہ ہوئے، اس طرح بہت سے گھرانوں کی خوشیاں ان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئیں، اپنوں کا دکھ اور غم بھلائے نہیں بھولا جاسکتا ہے یہ وہ زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا گویا یہ طوفانی بارش اور تیز ہوائیں کسی عذاب سے کم نہیں تھیں۔ گلیاں، بازار، در و دیوار مکمل طور پر یاسیت کی نذر ہوگئے،اداسیاں دور دور تک پھیل گئیں، ہر شخص غم زدہ اور روتا ہوا نظر آتا ہے ۔ہمارے شہر کراچی میں بھی آنیوالے دنوں میں اگر اﷲ کا حکم ہوا تو بارشیں برس سکتی ہیں۔
اس حقیقت سے بھی کراچی کے مکین اچھی طرح واقف ہیں کہ جب بھی مینہ جم کر برسا اور برسات کی جھڑی لگی تو شہر کا چپہ چپہ جل تھل ہوگیا، ندی نالے بھر گئے، کچے مکان ڈھ گئے، بجلی کے تار گرنے، کرنٹ لگنے اور ندی نالوں میں ڈوبنے کی وجہ سے سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔قبل از وقت اگر کے ای کا محکمہ اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کی کوشش کرے تو کم از کم بجلی کے تار ٹوٹ کر نہ زمین پر گریں اور اسی طرح کنٹونمنٹ کے صاحب اختیار ہوسکے تو انسانیت کو تذلیل ہونے سے بچالیں، انسانیت کی بقا کے لیے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کریں تو گزرے سالوں کی طرح معصوم و بے خطا شہری نالوں اور ندی میں گرنے سے بچ جائیں گے بغیر برسات کے بھی سانحات ہوتے ہی رہتے ہیں۔
گلی کوچوں میں کھیلنے والے معصوم بچے کھلی ہوئے گٹر میں آئے دن گرجاتے ہیں جب تک انھیں نکالنے کی تگ و دو کی جاتی ہے وہ پھول سے بچے کملا جاتے ہیں اس قسم کی خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں لیکن کنٹوٹمنٹ بورڈ کا ادارہ نہایت سفاکی کا مظاہرہ اس طرح کرتا ہے کہ سماعت و بصارت سے دانستہ محروم بن جاتا ہے اور پورے سال اسی ہی بے حسی کا مظاہرہ بڑے اعتماد کے ساتھ کرتا ہے۔ موسم برسات میں جب پانی کم از کم دو یا تین فٹ اونچا ہوتا تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں پختہ سڑک ہے اور کہاں نشیب اور نا ہموار راستہ ہے۔
اگر بارش رات کو ہوگئی تب اندھیرے میں اور نہیں سوجھتا کہ کس طرح سفر جاری رکھا جائے اگر انجانے راستے پر جاتا ہو تب دہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جانیں تلف ہونے کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل میمن نے ممکنہ بارشوں کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔
ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں نالوں کی صفائی کا بھی حکم دیا ہے لیکن نالے ڈھاپنے کا کوئی ذکر نہیں، گلستان جوہر بلاک نمبر 13 میں ایک بہت بڑا کھلا ہوا نالہ حادثات کو دعوت دیتا نظر آتا ہے، اتفاق سے اسی جگہ ایک سپر مارٹ اور دوسری دکانیں ہیں ہر دم لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن افسوس کنٹوٹمنٹ بورڈ کھلے اور ٹوٹے ہوئے نالے پر توجہ دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔