صحتیابی کے بعد بھی ایبولا وائرس متاثرہ شخص کا پیچھا نہیں چھوڑتا تحقیق
ایبولا وائرس سے بچ جانے والے شخص کی آنکھوں میں یہ جان لیوا وائرس کئی ماہ تک موجود ہوتا ہے، تحقیق
ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایبولا وائرس سے بچ جانے والے شخص کی آنکھوں میں یہ جان لیوا وائرس کئی ماہ تک موجود ہوتا ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق افریقی ملک سیرا لیون میں ایبولا کی روک تھام کے لئے کام کرنے والا ڈاکٹر جب خود اس وائرس سے متاثر ہوا تو اسے علاج کے لئے فوری طور امریکا بھیج دیا گیا جہاں 40 روز تک وہ زیر علاج رہا۔ اسپتال سے فارغ ہونے کے 2 ماہ بعد جب اس ڈاکٹر کی آنکھوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو اس وقت بھی اس میں ایبولا وائرس کے اثرات پائے گئے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے نجات پانے والے شخص کی آنکھ سے نکلنے والے آنسوؤں اور آنکھ کی ڈھیلے سے جان لیوا وائرس کی تشخیص کے باوجود یہ وائرس خطرناک نہیں ہوتا لیکن اس کا تدارک ضروری ہے۔ دوسری جانب امریکا کی اموری یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر اسٹیون یہہ کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے بچ جانے والے افراد کو اس کے اثرات سے بچنے کے لئے مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ایبولا کے باعث گذشتہ ایک سال کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں افریقی ملک سیرا لیون، گنی اور نائجر میں ہوئیں۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق افریقی ملک سیرا لیون میں ایبولا کی روک تھام کے لئے کام کرنے والا ڈاکٹر جب خود اس وائرس سے متاثر ہوا تو اسے علاج کے لئے فوری طور امریکا بھیج دیا گیا جہاں 40 روز تک وہ زیر علاج رہا۔ اسپتال سے فارغ ہونے کے 2 ماہ بعد جب اس ڈاکٹر کی آنکھوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو اس وقت بھی اس میں ایبولا وائرس کے اثرات پائے گئے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے نجات پانے والے شخص کی آنکھ سے نکلنے والے آنسوؤں اور آنکھ کی ڈھیلے سے جان لیوا وائرس کی تشخیص کے باوجود یہ وائرس خطرناک نہیں ہوتا لیکن اس کا تدارک ضروری ہے۔ دوسری جانب امریکا کی اموری یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر اسٹیون یہہ کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے بچ جانے والے افراد کو اس کے اثرات سے بچنے کے لئے مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ایبولا کے باعث گذشتہ ایک سال کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں افریقی ملک سیرا لیون، گنی اور نائجر میں ہوئیں۔