گڈ گورننس‘ اختتام کی طرف

حقیقتاً فوجی حکومت ہی جمہوریت نواز حکومت سے بہتر حکمرانی قائم کرتی ہے

سید اسد اللہ

جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری حکومت ہو یا فوجی حکومت اس کی کامیابی کا انحصار ''گڈ گورننس'' یعنی بہترین طرزِ حکمرانی ہے جو بھی حکومت ہو۔

اگر وہ عوام اور ملک کے مفادات کو ترجیح دے کر کام کرے گی تو بہترین جمہوری حکومت کہلائے گی۔ حقیقتاً فوجی حکومت ہی جمہوریت نواز حکومت سے بہتر حکمرانی قائم کرتی ہے، لیکن ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ فوجی حکومت کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ مل کر کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا یہ فوجی جو حکومت قائم کرتے ہیں، کیا غیر ملکی افواج سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج تک کسی نے یہ سوچنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی کہ آخر فوجی حکومتیں کیوں کر بدنام ہیں۔ اِس کے پس منظر میں بھی تو ہمارے سیاست دان، بیورو کریٹس اور غیر ملکی ایجنٹ ہی برسرپیکار ہوتے ہیں۔

پہلے تو یہ سب ان کے ساتھ ملے رہتے ہیں۔ ان کی خوشامدوں میں لگے رہتے ہیں۔ اس طرح اِن فوجیوں کو رفتہ رفتہ سول حکومتوں کے قیام کی طرف راغب کردیتے ہیں۔ ان کو طرح طرح کے سبز باغات دِکھا دِکھا کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ ان کو ملک کی سربراہی دے کر خود سیاسی جماعتیں بنوالیتے ہیں۔ یوں فوج کی حکمرانی بدنام ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ''گڈگورننس'' کو ''بیڈ (BAD) گورننس'' میں تبدیل کرنے میں کس کا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ تو عام آدمی بھی سمجھ لیتا ہے، لیکن اِن سیاسی گورکھ دھندا کرنیوالوں کے آگے بے بس ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ اِن کی جڑیں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔

اِن کے ذرایع بہت وسیع ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اِن کے کارپرداز بھی بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نہ صرف فوجی حکومتوں کو بدنام کراتے ہیں بلکہ یہی لوگ جمہوری حکومتوں کو بھی کنارے لگادیتے ہیں۔ آخر یہ کون لوگ ہیں۔ کون نہیں جانتا یہی سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، سردار ہی تو یہ سب کام کرتے ہیں۔ اِن کے تنخواہ دار کارندے ہی اِن کے راستے صاف کرتے ہیں، اِن کو سہولتیں پہنچاتے ہیں، انھیں نئی نئی راہیں دِکھاتے ہیں کہ کس طرح جمہوری حکومت ہو یا فوجی حکومت کو ناکام بنایا جاتا ہے اور بدنامی کا طوق ان کے گلوں میں پہنایا جاتا ہے۔ ایسے میں کہاں ہوگی قانون و انصاف کی حکومتیں۔ کہاں ہوں گی ''گڈ گورننس'' والی حکومتیں۔

''گڈ گورننس'' کی حکمرانی عوام کے تعاون سے قائم ہوتی ہے۔ اس لیے جو بھی حکومت ہو، عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی سلامتی، دفاع، معیشت، تعلیم، صحت، قانون و انصاف کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں، وہی ''گڈ گورننس'' کی حکمرانی قائم کرسکے گی، ورنہ وہی ''چکی کے تین پاٹ'' والی بات ہوگی۔


موجودہ جمہوری حکومت بھی اِس بنیاد پر قائم ہوئی کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے۔'' معلوم نہیں جمہوریت کس سے انتقام لے رہی ہے یا لینا چاہتی ہے۔ لیکن اِن کی طرز حکمرانی یعنی موجودہ حکمراں کیسے جمہوریت کے ذریعے ''انتقام'' لے رہے ہیں۔ یوں تو حکمرانوں نے اپنی طرزِ حکمرانی ابتدا ہی سے غلط انداز سے چلائے جارہے ہیں۔ اب جب کہ یہ دورِ جمہوریت بھی اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے تو ''گڈ گورننس'' یا ''بیڈ گورننس'' کی بحث بیکار ہے۔

اپنے پورے 4-½ سال کے دوران موجودہ حکمرانوں نے جو طرزِ حکمرانی اپنایا ہوا ہے، اس سے پتا چل رہا ہے کہ یہ جمہوریت کے ذریعے جمہوری عوام سے انتقام لے رہے ہیں، جنھوں نے اِن کو جمہوری روایات اپناتے ہوئے جمہوری حکومت قائم کرنے کا موقع دیا۔ اِس امید پر کہ شاید ایک طویل ''فوجی حکمرانوں'' سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد صحیح معنوں میں جمہوری حکومت، جمہوری طرز حکمرانی کے ذریعے ان کی فلاح و بہبود، سماجی و معاشرتی مسائل حل کرنے اور ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں مددگار ثابت ہوگی اور عوام اطمینان کا سانس لیں گے۔ مگر معاملہ ان کی امیدوں کے برعکس ہوگیا۔ وہ جمہوری حکومت کے ذریعے عوام سے انتقام لینے پر تل گئے۔ بجائے اس کے کہ وہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دیتے، انھوں نے تو روٹی، کپڑا اور مکان تو نہیں دیا مگر ان ہی کی سوکھی روٹیوں، پھٹے کپڑوں اور بوسیدہ مکانات کو ہی برباد کردیا۔

عوام کو نہ روٹی میسر، نہ کپڑا میسر، نہ مکان میسر بلکہ چین و سکون بھی برباد ہوگیا۔ انتظامی امور چلانے کے لیے نظم و نسق درکار ہوتا ہے، وہ بھی کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ ساڑھے چار سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ مسائل کو حل کرنے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے، یہ قوم کی بدنصیبی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ایسے نااہل، مفاد پرست اور موقع پرست حکمراں ثابت ہوئے۔ جن سے ساڑھے 4 سال کے عرصے میں ملک کا نظم و نسق ہی نہ سنبھالا جاسکا تو اور مسائل کیا حل ہوتے۔ ہاں البتہ یہ ضرور کرتے رہے ہیں کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان کو اور گمبھیر بنادیا گیا اور نئے نئے مسائل کھڑے کردیے گئے۔ ''توانائی'' کے بحران کو ہی دیکھ لیجیے، ساڑھے 4 سال میں بھی اِس مسئلے کو حل نہ کرسکے۔ ہاں اس مسئلے کی آڑ لے کر عوام پر مہنگائی، بے روزگاری، غربت کا جال پھیلاتے رہے اور مسائل کا انبار ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔

نہ جانے یہ کہاں جا کر ختم ہوگا۔ دوسری جانب حزب اختلاف نے اِن حکمرانوں کے آگے ایسی دیوار کھڑی کردی ہے کہ حکمرانوں کو آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کردیے۔ دونوں جانب سے ''مفاہمت مفاہمت'' کے نام پر خوب گھل رہی ہے۔ حزب اختلاف تو صرف بیان بازی، الزام تراشیوں کے علاوہ کچھ کرتی نظر نہیں آرہی، نہ حکمراں اِن کا مقابلہ ''گڈ گورننس'' کے ذریعے کرنے میں کامیاب ہوئے۔ رفتہ رفتہ دیگر جماعتیں جو اسمبلیوں سے باہر ہیں وہ بھی۔ حتیٰ کہ اتحادی جماعتیں بھی اِن حکمرانوں کی ''گورننس'' پر تنقیدوں کے تِیر چلارہے ہیں۔ مگر اِن کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ موجودہ حکمراں خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہ کرسکے تو بھلا ''گڈ گورننس'' کہاں قائم ہوسکتی تھی۔ بس یوں ہی اندھیروں تیر چلائے جارہے ہیں جو کسی طرح صحیح نشان پر نہیں لگ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اب اِن حکمرانوں کو علم ہوگیا ہے۔ اب حالات اِن کے قابو میں نہیں رہے ہیں۔ اس لیے کسی طرح مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے بقیہ اقتدار کی مدت پوری کرلی جائے۔ باقی رہے عوام کے مسائل تو آنے والی حکومت خود بھگتے گی۔ ''گڈ گورننس'' کے مسئلے کو چھیڑنے سے بات کتنی آگے نکل گئی، اگر یہ لوگ ابتدا ہی سے ''گڈ گورننس'' قائم کرتے ہوئے اپنی عمارت کی بنیادوں کو مضبوط طریقے سے بلندی تک لے جاتے تو شاید اِن کی گورننس پر اتنی لعنت، ملامت نہ ہوتی۔
Load Next Story