پاکستانی جمہوریت کا الیکشن ڈرامہ

کہا جاتا ہے کہ 1971ء میں جو الیکشن ہوئے وہ واحد الیکشن تھے جو صاف و شفاف تھے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

الیکشن ٹریبونل کا حلقہ این اے 125 کا فیصلہ تاریخی قرار دیا جا رہا ہے جس کے پاکستانی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹریبونل نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اس حلقے میں بے ضابطگیوں کی انتہا ہو گئی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اس فیصلے کے بعد اب دھاندلی پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان نے 2013ء کے الیکشن کے بعد جو مؤقف اختیار کیاالیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے بعد اس کی کسی حد تک تصدیق ہو گئی حالانکہ دوسری بڑی پارٹیوں کا بھی یہی مؤقف تھا۔ خاص طور پر سابق صدر آصف زرداری نے اس الیکشن کو آر اوز یعنی ریٹرننگ افسروں کا الیکشن کہا تھا اور ٹریبونل کے حالیہ فیصلے نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ بے ضابطگیوں میں ریٹرننگ افسر ملوث پائے گئے۔

اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور اے این پی کا بھی یہی مؤقف تھا۔ پتہ نہیں اس معاملے پر آصف زرداری نے حکومت پر کیوں دباؤ نہیں ڈالا۔ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ اس معاملے پر کوئی تحریک چلاتے تو ان کی پارٹی کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے جس کو ناقدین نواز زرداری گٹھ جوڑ کا نام دیتے ہیں کہ اس طرح دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں۔ گزشتہ دو سال کا عرصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلزپارٹی نے حکومت کے خلاف نام نہاد اپوزیشن کی ہے۔ اگر کی ہے تو اس طرح جیسے پنجابی محاورے کے مطابق شلجموں پر سے مٹی جھاڑی جاتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی بہت سی کمزوریاں اگر حکومت کے پاس ہیں تو پیپلز پارٹی کے پاس بھی حکومت کی کمزوریاں ہیں۔ اس طرح دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کا تحفظ کر رہی ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ اگر وہ ایک دوسرے کو کمزور کریں گی تو کہیں کوئی تیسری قوت فائدہ نہ اٹھا جائے۔ اس طرح دونوں پارٹیوں کے سر گھی میں اور انگلیاں کڑاہی میں ہیں۔

آج عمران خاں کا مؤقف ہی سچ ثابت ہوا۔ باقیوں نے تو مفادات اور مصلحت کی چادر اوڑھ لی۔ وہ تمام لوگ جو عمران خان کے مؤقف پر انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تنقید کرتے رہے، آج وہ کیا کہیں گے۔ عمران خان انتخابات کے بعد اپنے اس مؤقف پر قائم رہے بلکہ اس سلسلے میں دھرنا بھی دیا۔ دھرنے کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کسی صورت ماننے کو تیار نہیں تھی کہ انتخابات میں دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ عمران خان مسلسل ایک سال حکومت کو کہتے رہے کہ صرف چار حلقوں کو کھلوا لو اور مجھے سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کرو اور اگر میں سڑکوں پر آیا تو اس کی ذمے دار حکومت ہو گی۔ لیکن حکومت نے ایک نہ سنی۔ عمران نے یہ بھی کہا کہ میں سڑکوں پر نہیں آنا چاہتا اور نہ ہی خون خرابہ چاہتا ہوں۔ لیکن وہ پھر مجبوراً سڑکوں پر آئے۔ دھرنے دیے اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ جوڈیشل کمیشن قائم کرے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ پاکستانی انتخابات میں دھاندلی اور کرپشن کی ایک طویل تاریخ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ 1971ء میں جو الیکشن ہوئے وہ واحد الیکشن تھے جو صاف و شفاف تھے۔ اس کے بعد ہر الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ میڈیا کے ذریعے ہر انتخابات میں پاکستانی عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا کہ وہ جس پارٹی کو اکثریتی ووٹ دیں گے اسی کو اقتدار ملے گا۔ 2013ء کے الیکشن میں بھی ایسا ہی کہا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ عوام ووٹ کے ذریعے انقلاب لا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو ہمارے ہمسائے بھارت میں جہاں آزادی کے بعد مسلسل الیکشن ہو رہے ہیں، اب تک انقلاب آ چکا ہوتا اور بھارتی عوام اپنی قسمت بدل چکے ہوتے۔ لیکن ان الیکشن کے ذریعے بھارتی عوام کی ''ترقی'' اس طرح ہوئی کہ آج وہاں 50 کروڑ افراد کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کا تحفظ اور ترقی ہوتی ہے' غریب عوام کی نہیں۔


گزشتہ الیکشن میں عوام کو پروپیگنڈے کے زور پر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر پولنگ اسٹیشن لے جایا گیا۔اب الیکشن میں پاکستانی عوام کا کردار اتنا رہ گیا ہے کہ وہ لائن میں لگ کر ووٹ ڈالیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد پاکستانی عوام فارغ۔ الیکشن میں پاکستانی عوام طویل عرصے سے غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ نہ وہ کسی کو جتا سکتے ہیں نہ ہرا سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے عوام سے زیادہ ان کے لیڈرز واقف ہیں۔ اب پاکستان میں اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ پاکستانی عوام نہیںبلکہ مڈل ایسٹ کی بادشاہتیں بھی کرتی ہیں۔ اسی لیے عوام کے لیڈرز اقتدار میں آ کر وسائل اور مفادات کی بنیاد پر اپنے ذاتی تعلقات بادشاہوں سے بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب عرب بادشاہتوں کے زیر اثر آ کر جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں قائم ہو گئی ہیں جس میں پاکستانی اقتدار اعلیٰ میں قریبی رشتہ دار بطور سٹیک ہولڈرز شامل ہیں، پاکستانی عوام نہیں۔

دھاندلی کے حوالے سے عمران خان نے بڑی بڑی شخصیتوں پر الزام لگائے جن سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔

جب پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو حکمران طبقے کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ پاکستان شاید امریکا یورپ اور بھارت جیسا ملک ہے کہ جہاں انتخابات میں دھاندلی بہت مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں آدھی آبادی یعنی دس کروڑ عوام کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہو۔ جہاں جاگیرداروں، وڈیرہ شاہی، سرداری نظام نافذ ہو وہاں صاف شفاف انتخابات ممکن ہیں؟ ایک ایسا ملک جس کی بیشتر آبادی دیہات میں رہتی ہو اور وہ وڈیروں، جاگیرداروں کی غلام ہو۔ کیا ان کی مجال ہے کہ وہ علاقے کے بڑوں کی مرضی کے بغیر اپنی پسند و ناپسند سے ووٹ ڈال سکیں۔ اگر نہیں تو صاف شفاف انتخابات کا دعویٰ کیسا؟ تو ان حقائق کی روشنی میں ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہر دفعہ پاکستانی عوام کو دھوکا ہی ملا۔

... ڈاکٹر طاہر القادری جون جولائی سے پھر ''ایکٹیو'' ہو جائیں گے۔
Load Next Story