پھر نئے صوبوں کی باتیں آخری حصہ

ایک خطرناک عنوان ہے کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟ سندھ کا دارالخلافہ اور دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی کا شہر

03332257239@hotmail.com

''ایک خطرناک عنوان ہے کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟ سندھ کا دارالخلافہ اور دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی کا شہر۔ جب تخت لاہور اپنے ہی شہر میں بیٹھ کر اپنے صوبے کو تین حصوں میں بانٹنے کی بات کر رہا ہے تو یہ سوال کیا جانا کتنا غلط ہے کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا۔ شہر میں مستقل رہائش نہ رکھنے والوں کی اکثریت پر مشتمل صوبائی اسمبلی اسے اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کرے گی تو مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہاں کے شہریوں کو ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کی گئی تو ایک طویل آئینی اور احتجاجی مسئلہ شروع ہوسکتا ہے۔ کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟ الگ صوبہ بنانے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ شہری و دیہی آبادیاں الگ الگ پارٹیوں کو ووٹ دیں اور دونوں کی مشترکہ حکومت نہ ہو تو؟ پھر کراچی و حیدرآباد کا پرسان حال کون ہو؟ دادو، لاڑکانہ، بدین اور ٹھٹھہ سے منتخب ہونے والے وزرا سندھ حکومت میں ہوں تو ناظم آباد، لیاری، کورنگی، ٹھنڈی سڑک، لانڈھی، میمن کالونی اور کریم آباد کی صفائی، بجلی، پانی، سڑکوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ جب حقوق نہیں ملتے تو پھر تقسیم کو نہیں روکا جاسکتا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کو حقوق نہ دیے تو مسلم لیگ ابھر کر سامنے آگئی۔ پاکستان کی خاطر نوے فیصد ووٹ دینے والے بنگالی پچیس سال بھی ہمارے ساتھ نہ رہ سکے۔ جب زبانیں الگ الگ ہوں، رہائشیں سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں اور سیاسی پسند الگ الگ ہو تو یکجائی کیسی؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے طاقتور ہوچکے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ کیے تو ہر شہر میں تقسیم کے نعرے لگانے والی پارٹیاں ابھریں گی۔ اس نعرے میں کشش ہے۔ ممکن ہے یہ پرکشش نعرہ ایم کیو ایم بلند کرے یا کوئی اور پارٹی۔ اگر سندھ کے قوم پرستوں اور ان کے حامیوں نے بااختیار کراچی یا بااختیار سندھ کے مسئلے کو دانشمندی سے حل نہ کیا تو لوگوں کو اس سوال کا جواب جلد مل جائے گا کہ کیا کراچی صوبہ بنے گا؟'' (''کراچی صوبہ بنے گا؟'' 21 جنوری 2013)

''کراچی شاید دنیا کا واحد صوبائی دارالحکومت ہے جہاں کے صوبائی اعلیٰ حکمراں کا ڈومیسائل کبھی اس شہر کا نہیں رہا۔ کوٹہ سسٹم نے سندھ کے دیہی اور شہری کی تقسیم نمایاں کردی۔ اس سے قبل ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں ''لسانی بل'' پیش کرکے تقسیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ کراچی میں ''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' کے نعرے گونجنے لگے۔ خلیج ایک بار پھر وسیع ہوئی جب کراچی سے میئر عبدالستار افغانی نے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ سے موٹروہیکل ٹیکس سے حصہ مانگا۔ میئر افغانی کا کہنا تھا کہ جب سڑکیں اور پل بلدیہ کراچی تعمیر کرتی ہے تو گاڑیوں کا ٹیکس صوبہ کیوں وصول کرے؟ 87 میں غوث علی شاہ نے جماعت اسلامی کی بلدیاتی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہ بھی شہری و دیہی آبادی کے درمیان ایک تنازعہ تھا۔ اردو بولنے والے بے نظیر کی مقبول شخصیت کے مقابل ایک مضبوط شخصیت چاہتے تھے۔ اہل کراچی محسوس کر رہے تھے کہ اندرون سندھ کے عوام ایک پلڑے میں اپنے ووٹ ڈال کر اپنی قوت سوداکاری کو مضبوط کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک مضبوط پارٹی اور مقبول شخصیت چاہتے تھے۔ 80 کے عشرے کے آخر میں کراچی و حیدر آباد کے اردو بولنے والوں نے اپنا ووٹ الطاف حسین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ تاریخ نے عجیب نظارہ کیا جب بے نظیر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر گئیں۔ پہلی مرتبہ سندھ کی دیہی آبادی کی طرح شہری آبادی نے اپنا اپنا ووٹ ایک جانب کرلیا تھا۔ جب بے نظیر اقتدار سے محروم ہوئیں تو کراچی دوسری طرف کھڑا تھا۔ اب دیہی اور شہری آبادی کے دکھ الگ الگ ہوگئے تھے۔ جب مسلم لیگ ن کے دور میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو اس کی نزاکت کو دیہی سندھ نے محسوس نہ کیا کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت بھی دکھ اپنے اپنے ہی تھے۔ قدیم سندھیوں کے لیے بے نظیر کی جلاوطنی اہم تھی تو نئے سندھیوں کے لیے الطاف حسین کی جلاوطنی۔ اپنی اپنی خوشیاں اور اپنے اپنے غم۔ بے نظیر دوسری مرتبہ برسراقتدار آئیں تو دیہی سندھ بھرپور اقتدار میں تھا تو شہری سندھ بھرپور اپوزیشن میں۔ حکیم سعید کی شہادت پر، جب گورنر راج لگا تو پہلی مرتبہ ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی ایک جیسی صورتحال سے دوچار تھے۔ پرویز مشرف سے الطاف حسین کی قربت نے بے نظیر سے ایک بار پھر فاصلہ پیدا کردیا۔ آصف زرداری ایم کیو ایم سے کھنچی کھنچی سی مجبوری کی محبت ''برقرار رکھے ہوئے ہیں۔'' (''کراچی کے آنسو'' 19اگست 2013)


''میں کراچی ہوں۔ دنیا کا ایک بڑا شہر۔ میں سندھ کا دارالخلافہ ہوں تو سندھی مجھے اپنا سمجھتے ہیں۔ لاکھوں مہاجر ہجرت کرکے مجھ میں آباد ہوگئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اردو بولنے والوں کا شہر ہے۔ لاکھوں پٹھان محنت کش مجھ میں سما گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں کابل اور پشاور سے بڑھ کر پختونوں کا شہر ہوں۔ 70 کے بعد یہاں مغربی پارٹیوں کا زور تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر ہوں۔ میں کیا ہوں؟ میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہوں۔ صرف بڑا نہیں بلکہ صنعتی شہر۔ صرف صنعتی شہر نہیں بلکہ ایک بڑی بندرگاہ والا شہر۔ میں پاکستان کو 70 فیصد رقم جمع کرکے دیتا ہوں اور سندھ کو نوے فیصد۔ میں پوری دنیا میں ''منی پاکستان'' کے نام سے مشہور ہوں۔ قائداعظم کی جائے پیدائش کا اعزاز مجھے حاصل ہے۔ میں بابائے قوم کی آخری آرام گاہ ہونے کا شرف بھی رکھتا ہوں۔ تحریک خلافت میں جب مولانا محمد علی جوہر گرفتار ہوئے تو انگریزوں نے ان پر کراچی کے خالق دینا ہال میں مقدمہ چلایا۔ تحریک پاکستان کے رہنما سر عبداللہ ہارون یہیں کے رہائشی تھے۔ پاکستان بنا تو مجھے اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک کا دارالخلافہ بننے کا اعزاز ملا۔ سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کو پاکستان کی اسمبلی قرار دیا گیا۔ لیاقت علی خان کی حکومت کا پہلا بڑا مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری کا تھا۔ ون یونٹ بنا تو میں مغربی پاکستان کا ایک شہر قرار پایا۔ ایوب نے نیا دارالخلافہ بنایا تو مجھ سے یہ اعزاز جاتا رہا اور میں ایک بار پھر سندھ کا دارالخلافہ بن گیا۔ صنعتیں بڑھ رہی تھیں اور میری آبادی بھی۔ میں کچھ بوجھ محسوس کر رہا تھا لیکن دل وسیع تھا اور ظرف اعلیٰ۔'' (''میں کراچی ہوں'' 16 ستمبر2014)

''سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دارالخلافے کو صوبائی اسمبلی سے چلایا جا رہا ہے۔ دیہی و شہری آبادیاں الگ الگ لوگوں کو ووٹ دیں اور وہ الگ الگ کونوں میں بیٹھے ہوں تو شہری کیا کریں؟ صوبے کے وزرا اکثر وہ ہوتے ہیں جن کے پاس نہ کراچی کا ڈومیسائل ہوتا ہے اور نہ وہ یہاں عید مناتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد وہ شہر قائد میں دفن ہوں گے۔'' (''صوبے کا بٹوارہ''6 اکتوبر 2014)
Load Next Story