زباں فہمی کیا یہ اردو ہے
ہم میں مِن حیث القوم (اگر ہم کوئی قوم ہیں تو) جو خرابیاں اور برائیاں راہ پاگئی ہیں، اُ ن میں سر فہرست عدم برداشت ہے
ذرا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ''آپ تو چار لوگ ہیں، ہم تو دولوگ تھے، پھر بھی ہم نے ایسی واٹ لگائی کہ اگلا کھلّاس............دیکھو ہم نے پہلے ہی بولا تھا، آپ بھی خیال کرو ہاں .... اب ہر بات پہ لوچا نہیں کرنے کا، کیا''۔
کیا خیا ل ہے یہ اردو کا کون سا روپ ہے؟ معاف کیجئے گا، بمبئی کے ( مجھے لفظ ممبئی دیوی کی نسبت سے اچھا نہیں لگتا) مراٹھی غنڈوں کی اندھی نقل یا تقلید اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب یہ چالو یا سوقیانہ زبان انگریزی ذریعۂ تعلیم سے مستفید ہونے والے طالب علم بھی، کچھ مادرزاد مغلظات کے ساتھ بولتے نظر آتے ہیں، کم پڑھے لکھوں کا تو ذکر ہی کیا۔اب ذرا انصاف سے سوچیں کیا، اردو میں ا س لہجے کا متبادل موجود نہیں یا الفاظ اتنے دقیق ہیں کہ ہر کوئی نہیں بول سکتا۔ ''افراد'' کی جگہ ''لوگ'' بولنا، ''مار پیٹ'' کی جگہ ''واٹ''، ''کہا تھا'' کی جگہ ''بولا تھا'' اور ''جھگڑے'' کی جگہ ''لوچا''....کیا ضروری ہے؟
راقم ٹیلی وژن کے لیے ایک سائنسی پروگرام کا ابتدائی خاکہ مع مسودہ تیار کررہا تھا، جو بچوں کی تعلیم کے لیے تھا۔ خاتون پروڈیوسر کے مشورے پر (جو خود اس شعبے میں آنے سے قبل سائنس داں تھیں) اپنے ایک بزرگ مصنف و محقق کو نظر ثانی کی غرض سے یہ کاوش دکھائی۔ آپ کو معلوم ہے انہوں نے کیا واحد اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا ، ویسے تو ٹھیک ہے، اچھا ہے مگر اس میں جو جابجا لفظ ''یار'' لکھا ہے، نکال دو۔انہوں نے ایک ایسی غلطی کی نشان دہی کی تھی جو محض روانی میں سرزد ہوگئی، ورنہ ہمیں بھی یہی سکھایا گیا تھا کہ اس لفظ کا بے تکلفی سے، بہ کثرت استعمال، اچھا نہیں اور اس کے بُرے معنی بھی ہیں۔آج ہر عمر اور ہر طبقے کے مرد اور لڑکے ہی نہیں، لڑکیاں، خالائیں، نانی دادیاں بھی اپنے ہم عمر اور چھوٹے افراد کو یار یار کہ کر مخاطب کرتی ہیں اور کوئی اس میں عار نہیں سمجھتا۔
بات اگر تہذیب کی ہو تومعاملات اور بھی ہیں مگر ہم یہاں صرف اصلاح زبان کی فکر میں ہیں۔
ہم میں مِن حیث القوم (اگر ہم کوئی قوم ہیں تو) جو خرابیاں اور برائیاں راہ پاگئی ہیں، اُ ن میں سر فہرست ہے، عدم برداشت، جوغرور سے مل کر انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلیتی ہے۔کسی بھی شعبۂ زندگی میں کوئی بھی ایسا آدمی بہ مشکل ملتا ہے، جو کم علمی، لاعلمی اور ناقص معلومات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اصلاح اور علم میں اضافے کے لیے بخوشی آمادہ ہو۔
زبان کی اصلاح کے معاملے میں بھی کسی سے کچھ کہنا یا سمجھانا اکثر محال ہوجاتا ہے۔
راقم نے بارہا کہا بھی اور لکھا بھی کہ تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا۔تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے کہ یوں تو ہر معاملے میں ہی ہر دوسرا آدمی نہ صرف رائے زنی ضروری سمجھتاہے، بل کہ اپنے کہے کو حر ف آخر سمجھتا ہے مگر تین معاملات میں یہ روش عروج پر نظر آتی ہے۔کھیل، خصوصاً کرکٹ میں ہر آدمی ایسے رائے دیتا ہے، جیسے اُسے سب پتہ ہے اور میدان میں کھیلنے والا کچھ نہیں جانتا۔سیاست میں کب کیا ہوگا، کیا ہونے والا ہے، کیا ہورہا ہے، کیوں اور کس کے اشارے پر....ہر کوئی بطور ماہر بتا دے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کے معاملے میں ہر دوسرا شخص عالم، فاضل اور مفتی بنا پھرتا ہے۔اب آپ کہیں گے اس کا زبان سے کیا تعلق تو جناب چوتھا شعبہ یہی ہے، جس کے حوالے سے ان دنوں بہت افراط و تفریط ہے۔کیا نثر کیا نظم، کیا لسانیات اور کیا تدریس زبان .... ایک سے بڑھ کر ایک بابائے اردو ملتا ہے، خصوصاً سوشل میڈیا پر!
ہماری زبان کا جو حشر ان دنوں نظر آتا ہے، اس کے پس منظر میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔اگر ہمارے گھروں کا ماحول پہلے جیسا یا اس سے ملتا جلتا (مماثل ) ہوجائے، جب گھریلو خواتین اپنی رسمی تعلیم سے قطع نظر، باتوں باتوں میں، کہانی قصے سنا کر اپنے بچوں کی بھرپور تربیت کیا کرتی تھیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بہتری کی طرف گامزن نہ ہوں۔اچھا۔۔۔ لگے ہاتھو ں یہ بات بھی ہوجائے۔وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ معیار تعلیم ''بہتر بنانے'' کے لیے جلد اقدامات ''اٹھانے'' ہوں گے۔اس طرح کے جملے تو آج کل اکثر سماعت پر ہتھوڑے برساتے ہیں۔
کم کم غور کیا جاتا ہے کہ بہتر ''کیا جاتا'' ہے، ''بنایا'' نہیں اور اقدام کا مطلب ہے ''قدم اٹھانا'' تو ''اقدامات کرنے'' ہوں گے نہ کہ ''اٹھانے'' ہوں گے۔
کیا خیا ل ہے یہ اردو کا کون سا روپ ہے؟ معاف کیجئے گا، بمبئی کے ( مجھے لفظ ممبئی دیوی کی نسبت سے اچھا نہیں لگتا) مراٹھی غنڈوں کی اندھی نقل یا تقلید اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب یہ چالو یا سوقیانہ زبان انگریزی ذریعۂ تعلیم سے مستفید ہونے والے طالب علم بھی، کچھ مادرزاد مغلظات کے ساتھ بولتے نظر آتے ہیں، کم پڑھے لکھوں کا تو ذکر ہی کیا۔اب ذرا انصاف سے سوچیں کیا، اردو میں ا س لہجے کا متبادل موجود نہیں یا الفاظ اتنے دقیق ہیں کہ ہر کوئی نہیں بول سکتا۔ ''افراد'' کی جگہ ''لوگ'' بولنا، ''مار پیٹ'' کی جگہ ''واٹ''، ''کہا تھا'' کی جگہ ''بولا تھا'' اور ''جھگڑے'' کی جگہ ''لوچا''....کیا ضروری ہے؟
راقم ٹیلی وژن کے لیے ایک سائنسی پروگرام کا ابتدائی خاکہ مع مسودہ تیار کررہا تھا، جو بچوں کی تعلیم کے لیے تھا۔ خاتون پروڈیوسر کے مشورے پر (جو خود اس شعبے میں آنے سے قبل سائنس داں تھیں) اپنے ایک بزرگ مصنف و محقق کو نظر ثانی کی غرض سے یہ کاوش دکھائی۔ آپ کو معلوم ہے انہوں نے کیا واحد اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا ، ویسے تو ٹھیک ہے، اچھا ہے مگر اس میں جو جابجا لفظ ''یار'' لکھا ہے، نکال دو۔انہوں نے ایک ایسی غلطی کی نشان دہی کی تھی جو محض روانی میں سرزد ہوگئی، ورنہ ہمیں بھی یہی سکھایا گیا تھا کہ اس لفظ کا بے تکلفی سے، بہ کثرت استعمال، اچھا نہیں اور اس کے بُرے معنی بھی ہیں۔آج ہر عمر اور ہر طبقے کے مرد اور لڑکے ہی نہیں، لڑکیاں، خالائیں، نانی دادیاں بھی اپنے ہم عمر اور چھوٹے افراد کو یار یار کہ کر مخاطب کرتی ہیں اور کوئی اس میں عار نہیں سمجھتا۔
بات اگر تہذیب کی ہو تومعاملات اور بھی ہیں مگر ہم یہاں صرف اصلاح زبان کی فکر میں ہیں۔
ہم میں مِن حیث القوم (اگر ہم کوئی قوم ہیں تو) جو خرابیاں اور برائیاں راہ پاگئی ہیں، اُ ن میں سر فہرست ہے، عدم برداشت، جوغرور سے مل کر انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلیتی ہے۔کسی بھی شعبۂ زندگی میں کوئی بھی ایسا آدمی بہ مشکل ملتا ہے، جو کم علمی، لاعلمی اور ناقص معلومات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اصلاح اور علم میں اضافے کے لیے بخوشی آمادہ ہو۔
زبان کی اصلاح کے معاملے میں بھی کسی سے کچھ کہنا یا سمجھانا اکثر محال ہوجاتا ہے۔
راقم نے بارہا کہا بھی اور لکھا بھی کہ تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا۔تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے کہ یوں تو ہر معاملے میں ہی ہر دوسرا آدمی نہ صرف رائے زنی ضروری سمجھتاہے، بل کہ اپنے کہے کو حر ف آخر سمجھتا ہے مگر تین معاملات میں یہ روش عروج پر نظر آتی ہے۔کھیل، خصوصاً کرکٹ میں ہر آدمی ایسے رائے دیتا ہے، جیسے اُسے سب پتہ ہے اور میدان میں کھیلنے والا کچھ نہیں جانتا۔سیاست میں کب کیا ہوگا، کیا ہونے والا ہے، کیا ہورہا ہے، کیوں اور کس کے اشارے پر....ہر کوئی بطور ماہر بتا دے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کے معاملے میں ہر دوسرا شخص عالم، فاضل اور مفتی بنا پھرتا ہے۔اب آپ کہیں گے اس کا زبان سے کیا تعلق تو جناب چوتھا شعبہ یہی ہے، جس کے حوالے سے ان دنوں بہت افراط و تفریط ہے۔کیا نثر کیا نظم، کیا لسانیات اور کیا تدریس زبان .... ایک سے بڑھ کر ایک بابائے اردو ملتا ہے، خصوصاً سوشل میڈیا پر!
ہماری زبان کا جو حشر ان دنوں نظر آتا ہے، اس کے پس منظر میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔اگر ہمارے گھروں کا ماحول پہلے جیسا یا اس سے ملتا جلتا (مماثل ) ہوجائے، جب گھریلو خواتین اپنی رسمی تعلیم سے قطع نظر، باتوں باتوں میں، کہانی قصے سنا کر اپنے بچوں کی بھرپور تربیت کیا کرتی تھیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بہتری کی طرف گامزن نہ ہوں۔اچھا۔۔۔ لگے ہاتھو ں یہ بات بھی ہوجائے۔وزیر تعلیم نے کہا ہے کہ معیار تعلیم ''بہتر بنانے'' کے لیے جلد اقدامات ''اٹھانے'' ہوں گے۔اس طرح کے جملے تو آج کل اکثر سماعت پر ہتھوڑے برساتے ہیں۔
کم کم غور کیا جاتا ہے کہ بہتر ''کیا جاتا'' ہے، ''بنایا'' نہیں اور اقدام کا مطلب ہے ''قدم اٹھانا'' تو ''اقدامات کرنے'' ہوں گے نہ کہ ''اٹھانے'' ہوں گے۔