نیپال کے زلزلہ متاثرین
پاکستان بھی اکثر زلزلوں کی زد میں رہا ہے تاہم 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا
WARSAW:
نیپال میں 7.9 کی شدت سے آنے والے خوفناک زلزلے نے قیامت صغریٰ برپا کردی، ہزاروں افراد ہلاک، بے شمار زخمی اور سیکڑوں عمارات زمیں بوس ہوگئیں، زلزلے کا مرکز کھٹمنڈو سے 77 کلومیٹر دور تھا، اس زلزلے کو 1934 کے بعد خوفناک ترین زلزلہ قرار دیا جا رہا ہے، زلزلے کے جھٹکے بھارت، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے، ابھی دل زلزلے کی تباہ کاری پر مغموم تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشوں اور تیز ہواؤں کے جھکڑوں نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، حکومت اس ناگہانی آفت کے سامنے گزشتہ برس کی تباہی و بربادی کی طرح بالکل بے بس نظر آئی اور ہمیشہ کی طرح محض مالی امداد کا اعلان نادار و بے بس عوام کا مقدر ٹھہرا اور بے چارے عوام لاچارگی کے عالم میں حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
قدرتی آفات سے قبل پیدا ہونے والی چند اہم تبدیلیوں کی بدولت مثلاً بادلوں کا گھر کر آنا، ہوا کا بند ہوجانا اور حبس بڑھ جانا وغیرہ کی بدولت مختلف آفات طوفان، سیلاب اور تیز بارشوں وغیرہ کی پیش گوئی اب بخوبی اور قابل اعتبار کی جاسکتی ہے تاہم زمین کے اندرونی دباؤ، زیر زمین چٹانوں میں تغیرات اور ان کی بنیادی خصوصیات میں نمایاں تبدیلیوں کے مشاہدات نیز حساس آلات سے اہم پیمائشوں کے باوجود تاحال زلزلے کی درست اور بروقت پیش گوئی ماہر ارضیات اور تمام سائنسدانوں کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
کرۂ ارض پر اکثر زلزلے آتے ہیں جن میں سے بیشتر کا ہمیں پتہ بھی نہیں چل پاتا کیونکہ وہ عموماً غیر آباد اور ویران علاقوں میں آتے یا پھر اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ روزمرہ معمولات میں انھیں محسوس کرنا ممکن نہیں ہوتا، ان میں سے بعض زلزلے تباہ کن قسم کے ہوتے ہیں جب کہ سال میں ایک زلزلہ تو ایسا آتا ہے جسے بجا طور پر قیامت خیز کہا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں عمارات شکست و ریخت کا شکار ہوتی اور لاتعداد انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں، زلزلوں کے بارے میں اب تک جو معلومات جمع کی گئی ہیں ان کے مطابق دنیا میں روزانہ اوسطاً 250 زلزلے آتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم زلزلے ایسے ہوتے ہیں جنھیں انسان خشکی پر محسوس کرسکے، کیونکہ اکثر زلزلے سمندر کی گہرائیوں میں آتے ہیں اور ان سے زمین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود خشکی پر جو زلزلے آتے ہیں اس سے ہر سال چودہ ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
زلزلوں کے باعث زمین بہت دیر تک جھٹکے نہیں کھاتی صرف چند سیکنڈ ہوتے ہیں جن کے درمیان زمین پر قیامت گزر جاتی ہے، کیونکہ یہ جھٹکے جس توانائی کے باعث آتے ہیں، وہ پہلے ایٹم بم سے دس ہزار گنا زائد ہوتی ہے، عہد جدید کے ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ زمین کے نیچے دباؤ جمع کرنے کا عمل جاری ہے اور خطرہ ہے کہ آیندہ سو سال کے دوران مزید کئی بڑے بڑے زلزلے آسکتے ہیں اور تباہی مچا سکتے ہیں۔
ماہرین یہ تو نہیں بتا سکتے کہ آیندہ زلزلے کی شدت کیا ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ زلزلے ضرور آئیں گے، اکثر زلزلے سطح زمین سے 480 میل نیچے گہرائی میں آتے ہیں لیکن کچھ زلزلے بہت خوفناک و ہولناک ہوتے ہیں کیونکہ زمین کے اندر ان میں موجود طاقت کو روکنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، اس لیے انسانوں کو سب سے زیادہ نقصان زلزلوں ہی سے پہنچتا ہے، جس مقام سے زلزلہ شروع ہوتا ہے اسے ارضیات کی زبان میں ''فوکس'' کہتے ہیں، جو مقام اس فوکس کے عین اوپر آتا ہے وہ ''ایپی سینٹر'' کہلاتا ہے، زلزلے کے نتیجے میں جو لہریں خارج ہوتی ہیں۔
ان توانائی کی لہروں کو بھونچالی لہریں بھی کہتے ہیں، ابتدا میں زلزلے کے مقام سے کچھ سطحی لہریں اٹھتی ہیں جنھیں الاسٹک یا سیسمک لہریں کہا جاتا ہے، چار اقسام کی یہ لہریں ماہیئت میں بالکل ان لہروں کی مانند ہوتی ہیں جو کسی تالاب میں پتھر پھینکنے سے پانی کی سطح پر نمودار ہوتی ہیں، یہ لہریں صرف دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہی سفر نہیں کرتی ہیں بلکہ اوپر اور نیچے کی طرف بھی سفر کرتی ہیں، خاص طور پر اوپر کی سمت سفر کرنے والی لہروں کی رفتار زیادہ ہوتی ہے، ان لہروں کی رفتار کے بارے میں اندازہ لگایا گیا تو معلوم چلا کہ یہ لہریں اس قدر تیز ہوتی ہیں کہ صرف اکیس منٹ میں دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پورے کرۂ ارض کو عبور کرسکتی ہیں۔
دنیا میں زلزلوں کے دو بڑے علاقے ہیں انھیں زلزلوں کا علاقہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں آتش فشاں پہاڑوں کی بناوٹ کا عمل ابھی جاری ہے، یہ علاقے دو پٹیوں کی صورت میں ہیں، ان میں سے ایک پٹی شمالی اور جنوبی امریکا کے بحرالکاہل کو لگنے والے ساحلوں کے ساتھ ساتھ گزرتی ہوئی جزائر ایشیا تک پہنچتی ہے اور وہاں سے نیوزی لینڈ میں جاکر ختم ہوتی ہے جب کہ دوسری پٹی برما سے شروع ہوتی ہے اور کوہ ہمالیہ اور کوہ ایلس سے ہوتی ہوئی جنوبی یورپ تک جاتی ہے، تاہم زیادہ تر زلزلے بحرالکاہل کی پٹی میں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اب تک زلزلوں سے ہونے والی تباہی و نقصانات کا 80 فیصد اسی علاقے میں ہوتا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلہ آتے ہیں، روزانہ دو تین جھٹکے ایسے ہوتے ہیں جنھیں شدید زلزلوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان بھی اکثر زلزلوں کی زد میں رہا ہے تاہم 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 تھی جس کی قیامت خیزی ہولناک تباہی کی صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ اس وقت تک دنیا کی تاریخ کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا اس سے قبل دسمبر 2004 میں 9.0 ایکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003 میں زلزلے سے تیس ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.7 تھی، جنوری 2001 میں بھارتی صوبہ گجرات میں 20 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے، جون 1990 میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40 ہزار سے زائد افراد جب کہ جولائی 1970 میں پیرو کے شہر ماؤنٹ اواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70 ہزار افراد چل بسے، دسمبر 1939 میں ترکی کے شہر ایرزنکن میں تقریباً 40 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
جب کہ 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50 ہزار افراد نے داعی اجل کو لبیک کہا، جب کہ 1927 میں ایک اور زلزلے کے نتیجے میں دو لاکھ افراد نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کی، 1923 میں جاپان کے شہر اوکلاہاما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40 ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، چین میں 1920 میں آنے والے زلزلے سے 2 لاکھ 35 ہزار جانوں کا نقصان ہوا اور 1908 میں اٹلی میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 83 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہر چند زلزلوں کے بارے میں کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں تاہم چند بڑے زلزلوں کا ریکارڈ موجود ہے جس کے مطابق دنیا کا ایک بڑا زلزلہ چین کے شہر شان ذی میں آیا 24 جنوری 1556 کے اس زلزلے میں تقریباً 8 لاکھ 30 ہزار افراد موت کا نشانہ بنے بعض اوقات زلزلے ایسے بھی آئے کہ زمین دو ٹکڑے ہوگئی جیساکہ 1935 میں کوئٹہ کے زلزلے میں ہوا اور شہر مکمل تباہ ہوگیا اور ایک بڑا علاقہ انسانوں، جانوروں اور گھروں سمیت غائب ہوگیا۔
7.9 کی شدت سے نیپال میں آنے والے حالیہ زلزلے نے پورے نیپال بالخصوص کھٹمنڈو کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے، سارا شہر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے اور لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے بے یارومددگار عالمی امداد کے منتظر ہیں، عالمی برادری میں پاکستان سب سے پہلے نیپالی متاثرین کی مدد کو پہنچا جس کے اعتراف میں نیپالی حکومت نے حکومت پاکستان سے اظہار تشکر بھی کیا اور تمام عالمی برادری کو اس وقت نیپال کی دل کھول کر مدد کرنے کی ضرورت ہے نیز ہمارے وہ تمام بھائی جو خیبرپختونخوا میں آنے والی قدرتی آفت اور طوفانی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی امداد کے طالب اور منتظر ہیں حکومت کے ساتھ ساتھ تمام مخیر حضرات کو بھی اپنے متاثرین بھائیوں کی دوبارہ آبادکاری کے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور عام عوام کو بھی اس نیکی میں اپنی بساط بھر کوشش ضرور کرنی چاہیے غرض کہ ہر سطح، ہر شعبے، ہر رخ، ہر پہلو میں انفرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی ہر ایک سطح پر متاثرین کی خیرخواہی اور دست گیری اسلامی ہی نہیں انسانی فریضہ بھی ہے اور اسی خبر گیری کے آج ہمارے یہ بھائی متقاضی، منتظر اور مستحق ہیں، خدمت میں عظمت ہے اور خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے۔
''ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد''
نیپال میں 7.9 کی شدت سے آنے والے خوفناک زلزلے نے قیامت صغریٰ برپا کردی، ہزاروں افراد ہلاک، بے شمار زخمی اور سیکڑوں عمارات زمیں بوس ہوگئیں، زلزلے کا مرکز کھٹمنڈو سے 77 کلومیٹر دور تھا، اس زلزلے کو 1934 کے بعد خوفناک ترین زلزلہ قرار دیا جا رہا ہے، زلزلے کے جھٹکے بھارت، بنگلہ دیش، چین اور پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے، ابھی دل زلزلے کی تباہ کاری پر مغموم تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشوں اور تیز ہواؤں کے جھکڑوں نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا، حکومت اس ناگہانی آفت کے سامنے گزشتہ برس کی تباہی و بربادی کی طرح بالکل بے بس نظر آئی اور ہمیشہ کی طرح محض مالی امداد کا اعلان نادار و بے بس عوام کا مقدر ٹھہرا اور بے چارے عوام لاچارگی کے عالم میں حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
قدرتی آفات سے قبل پیدا ہونے والی چند اہم تبدیلیوں کی بدولت مثلاً بادلوں کا گھر کر آنا، ہوا کا بند ہوجانا اور حبس بڑھ جانا وغیرہ کی بدولت مختلف آفات طوفان، سیلاب اور تیز بارشوں وغیرہ کی پیش گوئی اب بخوبی اور قابل اعتبار کی جاسکتی ہے تاہم زمین کے اندرونی دباؤ، زیر زمین چٹانوں میں تغیرات اور ان کی بنیادی خصوصیات میں نمایاں تبدیلیوں کے مشاہدات نیز حساس آلات سے اہم پیمائشوں کے باوجود تاحال زلزلے کی درست اور بروقت پیش گوئی ماہر ارضیات اور تمام سائنسدانوں کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
کرۂ ارض پر اکثر زلزلے آتے ہیں جن میں سے بیشتر کا ہمیں پتہ بھی نہیں چل پاتا کیونکہ وہ عموماً غیر آباد اور ویران علاقوں میں آتے یا پھر اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ روزمرہ معمولات میں انھیں محسوس کرنا ممکن نہیں ہوتا، ان میں سے بعض زلزلے تباہ کن قسم کے ہوتے ہیں جب کہ سال میں ایک زلزلہ تو ایسا آتا ہے جسے بجا طور پر قیامت خیز کہا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں عمارات شکست و ریخت کا شکار ہوتی اور لاتعداد انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں، زلزلوں کے بارے میں اب تک جو معلومات جمع کی گئی ہیں ان کے مطابق دنیا میں روزانہ اوسطاً 250 زلزلے آتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم زلزلے ایسے ہوتے ہیں جنھیں انسان خشکی پر محسوس کرسکے، کیونکہ اکثر زلزلے سمندر کی گہرائیوں میں آتے ہیں اور ان سے زمین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود خشکی پر جو زلزلے آتے ہیں اس سے ہر سال چودہ ہزار کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
زلزلوں کے باعث زمین بہت دیر تک جھٹکے نہیں کھاتی صرف چند سیکنڈ ہوتے ہیں جن کے درمیان زمین پر قیامت گزر جاتی ہے، کیونکہ یہ جھٹکے جس توانائی کے باعث آتے ہیں، وہ پہلے ایٹم بم سے دس ہزار گنا زائد ہوتی ہے، عہد جدید کے ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ زمین کے نیچے دباؤ جمع کرنے کا عمل جاری ہے اور خطرہ ہے کہ آیندہ سو سال کے دوران مزید کئی بڑے بڑے زلزلے آسکتے ہیں اور تباہی مچا سکتے ہیں۔
ماہرین یہ تو نہیں بتا سکتے کہ آیندہ زلزلے کی شدت کیا ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ زلزلے ضرور آئیں گے، اکثر زلزلے سطح زمین سے 480 میل نیچے گہرائی میں آتے ہیں لیکن کچھ زلزلے بہت خوفناک و ہولناک ہوتے ہیں کیونکہ زمین کے اندر ان میں موجود طاقت کو روکنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، اس لیے انسانوں کو سب سے زیادہ نقصان زلزلوں ہی سے پہنچتا ہے، جس مقام سے زلزلہ شروع ہوتا ہے اسے ارضیات کی زبان میں ''فوکس'' کہتے ہیں، جو مقام اس فوکس کے عین اوپر آتا ہے وہ ''ایپی سینٹر'' کہلاتا ہے، زلزلے کے نتیجے میں جو لہریں خارج ہوتی ہیں۔
ان توانائی کی لہروں کو بھونچالی لہریں بھی کہتے ہیں، ابتدا میں زلزلے کے مقام سے کچھ سطحی لہریں اٹھتی ہیں جنھیں الاسٹک یا سیسمک لہریں کہا جاتا ہے، چار اقسام کی یہ لہریں ماہیئت میں بالکل ان لہروں کی مانند ہوتی ہیں جو کسی تالاب میں پتھر پھینکنے سے پانی کی سطح پر نمودار ہوتی ہیں، یہ لہریں صرف دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہی سفر نہیں کرتی ہیں بلکہ اوپر اور نیچے کی طرف بھی سفر کرتی ہیں، خاص طور پر اوپر کی سمت سفر کرنے والی لہروں کی رفتار زیادہ ہوتی ہے، ان لہروں کی رفتار کے بارے میں اندازہ لگایا گیا تو معلوم چلا کہ یہ لہریں اس قدر تیز ہوتی ہیں کہ صرف اکیس منٹ میں دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پورے کرۂ ارض کو عبور کرسکتی ہیں۔
دنیا میں زلزلوں کے دو بڑے علاقے ہیں انھیں زلزلوں کا علاقہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں آتش فشاں پہاڑوں کی بناوٹ کا عمل ابھی جاری ہے، یہ علاقے دو پٹیوں کی صورت میں ہیں، ان میں سے ایک پٹی شمالی اور جنوبی امریکا کے بحرالکاہل کو لگنے والے ساحلوں کے ساتھ ساتھ گزرتی ہوئی جزائر ایشیا تک پہنچتی ہے اور وہاں سے نیوزی لینڈ میں جاکر ختم ہوتی ہے جب کہ دوسری پٹی برما سے شروع ہوتی ہے اور کوہ ہمالیہ اور کوہ ایلس سے ہوتی ہوئی جنوبی یورپ تک جاتی ہے، تاہم زیادہ تر زلزلے بحرالکاہل کی پٹی میں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اب تک زلزلوں سے ہونے والی تباہی و نقصانات کا 80 فیصد اسی علاقے میں ہوتا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلہ آتے ہیں، روزانہ دو تین جھٹکے ایسے ہوتے ہیں جنھیں شدید زلزلوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان بھی اکثر زلزلوں کی زد میں رہا ہے تاہم 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 تھی جس کی قیامت خیزی ہولناک تباہی کی صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ اس وقت تک دنیا کی تاریخ کا چوتھا بڑا زلزلہ تھا اس سے قبل دسمبر 2004 میں 9.0 ایکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003 میں زلزلے سے تیس ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.7 تھی، جنوری 2001 میں بھارتی صوبہ گجرات میں 20 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے، جون 1990 میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40 ہزار سے زائد افراد جب کہ جولائی 1970 میں پیرو کے شہر ماؤنٹ اواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70 ہزار افراد چل بسے، دسمبر 1939 میں ترکی کے شہر ایرزنکن میں تقریباً 40 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
جب کہ 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50 ہزار افراد نے داعی اجل کو لبیک کہا، جب کہ 1927 میں ایک اور زلزلے کے نتیجے میں دو لاکھ افراد نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کی، 1923 میں جاپان کے شہر اوکلاہاما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40 ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، چین میں 1920 میں آنے والے زلزلے سے 2 لاکھ 35 ہزار جانوں کا نقصان ہوا اور 1908 میں اٹلی میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 83 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہر چند زلزلوں کے بارے میں کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں تاہم چند بڑے زلزلوں کا ریکارڈ موجود ہے جس کے مطابق دنیا کا ایک بڑا زلزلہ چین کے شہر شان ذی میں آیا 24 جنوری 1556 کے اس زلزلے میں تقریباً 8 لاکھ 30 ہزار افراد موت کا نشانہ بنے بعض اوقات زلزلے ایسے بھی آئے کہ زمین دو ٹکڑے ہوگئی جیساکہ 1935 میں کوئٹہ کے زلزلے میں ہوا اور شہر مکمل تباہ ہوگیا اور ایک بڑا علاقہ انسانوں، جانوروں اور گھروں سمیت غائب ہوگیا۔
7.9 کی شدت سے نیپال میں آنے والے حالیہ زلزلے نے پورے نیپال بالخصوص کھٹمنڈو کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے، سارا شہر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے اور لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے بے یارومددگار عالمی امداد کے منتظر ہیں، عالمی برادری میں پاکستان سب سے پہلے نیپالی متاثرین کی مدد کو پہنچا جس کے اعتراف میں نیپالی حکومت نے حکومت پاکستان سے اظہار تشکر بھی کیا اور تمام عالمی برادری کو اس وقت نیپال کی دل کھول کر مدد کرنے کی ضرورت ہے نیز ہمارے وہ تمام بھائی جو خیبرپختونخوا میں آنے والی قدرتی آفت اور طوفانی بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی امداد کے طالب اور منتظر ہیں حکومت کے ساتھ ساتھ تمام مخیر حضرات کو بھی اپنے متاثرین بھائیوں کی دوبارہ آبادکاری کے کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور عام عوام کو بھی اس نیکی میں اپنی بساط بھر کوشش ضرور کرنی چاہیے غرض کہ ہر سطح، ہر شعبے، ہر رخ، ہر پہلو میں انفرادی و اجتماعی اور قومی و بین الاقوامی ہر ایک سطح پر متاثرین کی خیرخواہی اور دست گیری اسلامی ہی نہیں انسانی فریضہ بھی ہے اور اسی خبر گیری کے آج ہمارے یہ بھائی متقاضی، منتظر اور مستحق ہیں، خدمت میں عظمت ہے اور خدمت خلق سب سے بڑی عبادت ہے۔
''ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد''