حبیب جالب امن ایوارڈ جسٹس بھگوان داس

یہ جلسے زیادہ تر کراچی پریس کلب میں ہوتے تھے۔ مگر ایک دو جلسے آرٹس کونسل کراچی اور ریلوے کلب میں بھی ہوئے۔

حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 22 برس ہوگئے۔ ان کا انتقال 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی رات ساڑھے بارہ بجے لاہور کے ایک اسپتال میں ہوا تھا۔ کراچی والے ہر سال ان کا یادگاری جلسہ منعقد کرتے ہیں، جو شام مزدوروں یعنی 30 اپریل کی شام کو ہوتا ہے۔ اگلے روز یوم مئی ہوتا ہے۔ اس یادگاری جلسے کی بنیاد عبدالحمید چھاپرا، مجاہد بریلوی، حسن عابدی، محمود شام ودیگر نے رکھی تھی اور اس کے روح رواں مجاہد بریلوی ہوتے تھے۔

یہ جلسے زیادہ تر کراچی پریس کلب میں ہوتے تھے۔ مگر ایک دو جلسے آرٹس کونسل کراچی اور ریلوے کلب میں بھی ہوئے۔ جب مجاہد بریلوی کی میڈیا میں مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ تو حسن عابدی مرحوم اور عبدالحمید چھاپرا صاحب نے راقم الحروف کو یہ کہہ کر اسٹیج پر چڑھا دیا کہ اب تم یادگاری جلسہ کنڈکٹ کیا کرو گے۔ یوں گزشتہ دس بارہ سال ہوگئے ہر سال جلسے کے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض میں ادا کرتا ہوں۔

سال 2007 میں حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجرا ہوا۔ اس ایوارڈ پر غور وخوض کرنے کے لیے پہلی میٹنگ میرے گھر پر ہوئی۔ جس میں حسن عابدی مرحوم، زاہدہ حنا، ممنون حسین (موجودہ صدر پاکستان) مسلم شمیم ایڈووکیٹ، بابا نجمی، معروف ادبی رسالے طلوع افکار کے مدیر حسین انجم مرحوم (طلوع افکار بھی ان کے ساتھ ہی مرحوم ہوگیا) مصور چترا پریتم شریک ہوئے۔ زاہدہ حنا ایوارڈ کے حوالے سے تجاویز لکھ کر لائی تھیں۔

تجویز کیا گیا کہ ہر سال کسی ایک شخصیت کو ایوارڈ دیا جائے گا کہ جس نے انسانیت کی خدمت کی۔ خواہ کسی بھی شعبے میں کسی بھی انداز سے۔ ابتداً ایوارڈ ملک تک محدود رہے گا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔ برصغیر ایشیا اور پھر دنیا۔ میری تجویز کو بھی منظور کیا گیا کہ ایوارڈ کے ساتھ ہم کوئی پائی پیسہ نہیں دیں گے، کیونکہ وہ کروڑوں روپے جو حبیب جالب نے ٹھکرائے ان کے نام سے منسوب ایوارڈ میں وہ شامل ہیں۔ پہلا ایوارڈ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی جنھیں 1948 میں قید کیا گیا۔ جناب سوبھو گیان چندانی کے لیے تجویز کیا گیا۔

یوں سیکولر رنگ سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا آغاز کیا گیا۔ 30 اپریل 2007 کے دن کراچی کے ہائیڈ پارک یعنی کراچی پریس کلب میں منعقدہ 14 ویں حبیب جالب یادگاری جلسے میں پہلا حبیب جالب امن ایوارڈ جناب سوبھو گیان چندانی نے وصول کیا۔ ایوارڈ دینے والوں میں میرحاصل بزنجو، عبدالحمید چھاپرا، زاہدہ حنا، حامد میر اور راقم الحروف موجود تھے۔

اب تک نو ایوارڈ دیے جاچکے ہیں اور ایوارڈ یافتگان کہ جنھیں دنیا بھر سے اعلیٰ ترین ایوارڈز مل چکے ہیں مگر انھوں نے حبیب جالب امن ایوارڈ کو بھی عزت و احترام کے ساتھ خود وصول کیا۔ ایوارڈ یافتگان کے نام یہ ہیں۔ سوبھو گیان چندانی(سال 2007)، جناب اعتزاز احسن(سال2008)، جناب عبدالستار ایدھی(سال 2009)، پروفیسر ادیب الحسن رضوی(سال2010)، محترمہ ڈاکٹر روتھ فاؤ (سال 2011) جسٹس (ر)فخر الدین جی ابراہیم (سال 2012)، معراج محمد خان (سال2013)، عبدالحمید چھاپرا (سال2014) اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس (سال 2015)۔

گزشتہ چھ سال سے یادگاری جلسہ اور ایوارڈ کی تقریب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام منعقد ہو رہی ہے۔ پاکستان کی واحد آرٹس کونسل جہاں ہر سال الیکشن ہوتے ہیں اور ممبران آرٹس کونسل اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ گئے دو تین سال سے آرٹس کونسل کے باشعور و طاقتور ممبران نے صدر آرٹس کونسل کا عہدہ بھی سرکار سے واپس لے لیا ہے اور اب صدر آرٹس کونسل بھی سرکاری نہیں عوامی ہوتا ہے۔ محمد احمد شاہ محنت اور ذہانت کا نام ہے۔ بس اتنا ہی لکھوں گا۔ زیادہ لکھنا خوشامد کے زمرے میں آجائے گا، جو مجھے گھر سے نہیں ملی ہے اور حقیقت حال سے یوں بھی سب واقف ہیں۔ بہرحال اس جمہوری ادارے نے اپنے فرض کو سمجھا اور حبیب جالب امن ایوارڈ و یادگاری جلسے کو اپنا بنالیا۔


اس سال 30 اپریل 2015 کا 22 واں یادگاری جلسہ یوں بھی یادگار بن گیا ہے کہ حبیب جالب امن ایوارڈ درویش صفت انسان سادگی کا پیکر سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو دیا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ جس شان اور آن بان سے مسند عدالت عالیہ پر وہ بیٹھے اور جرأت و بہادری سے فیصلے کیے وہ ہماری عدلیہ کی تاریخ میں سنہرا باب بن کر ہمیشہ جگمگائے گا۔

محفل میں موجود جسٹس (ر) حاذق الخیری، جسٹس (ر) رشید اے رضوی اور پروفیسر سحر انصاری صاحب کے فقروں کی گونج تا دیر جلسہ گاہ میں موجود رہی اور شرکا کے دل و دماغ کو گرماتی رہی۔ پروفیسر سحر انصاری کہہ رہے تھے ''جسٹس رانا بھگوان داس چھٹی لے کر ہندوستان گئے ہوئے تھے، حکومت (جنرل مشرف) چاہتی تھی کہ جسٹس صاحب اپنی چھٹیوں میں اضافہ کرکے ہندوستان میں اپنا قیام بڑھا دیں تاکہ سپریم کورٹ کی بحالی کا معاملہ لٹکا رہے، مگر جسٹس رانا بھگوان داس نہیں مانے اور کہا کہ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق چھٹیاں گزار کر واپس وطن آؤں گا۔

اور پھر وہ آگئے۔ سپریم کورٹ میں اپنا عہدہ سنبھالا۔ اس وقت یہ فقرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ''اب ہندوستان سے بھگوان آکر ہماری مدد کرے گا۔'' جسٹس صاحب پر حکومتی دباؤ جاری تھا۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی نے چیف جسٹس رانا بھگوان داس صاحب سے ملاقات کرنا چاہی، مگر انھوں نے سختی سے منع کردیا۔ جسٹس صاحب کے گھر والوں پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

حتیٰ کہ سندھ سے ان کے ایک ٹیچر کو جنھوں نے جسٹس صاحب کو پڑھایا تھا اسلام آباد پہنچایا گیا ۔ رانا صاحب نے اپنے باپ سمان استاد کو مکمل احترام دیا۔ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھایا۔ ان کے استاد نے بھی کہا کہ ''ذرا نرم ہاتھ رکھو۔'' اور ٹیچر کے رخصت ہوتے ہی چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے نرم کی بجائے سخت ہاتھ رکھتے ہوئے 13 رکنی لارجر بنچ ترتیب دے دیا اور بالآخر یہ تاریخی فیصلہ جسٹس صاحب کی عدالت نے جاری کیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر جج صاحبان کو بحال کیا جاتا ہے۔ انصاف جیت گیا، حکومت ہار گئی۔

اپنے فیصلوں اور اصولوں پر اتنا سخت گیر انسان عام زندگی میں بہت نرم اور سادہ مزاج تھا۔ وہ اکثر مجھے خود فون کرتے اور میرے کسی کالم پر اظہار پسندیدگی کرتے، میرے بڑے بھائی عبدالحمید خان کا انتقال ہوا تو گھر فون کیا۔ میں مرحوم بھائی کے گھر تھا، جسٹس صاحب نے بھائی کے گھر کا فون نمبر لے کر مجھے وہاں فون کیا۔

جسٹس صاحب بہت عظیم انسان تھے، میں نے کہا ''جسٹس صاحب! غریب خانے پر تشریف لائیں۔'' انھوں نے ہاں کہا اور اگلے ہفتے گھر آگئے۔ اللہ اکبر! حکومتی دباؤ کو ٹھوکروں میں اڑانے والا، عدالت کی کرسی پر بیٹھا جاہ و جلال والا جج اور عام زندگی کا یہ نرم رویہ۔ جالب صاحب کے یادگاری جلسوں میں دوبارہ بطور صدر جلسہ وہ شریک ہوئے اور تین مرتبہ بلاکسی اعزاز یا دعوت کے خود ہی تشریف لائے اور خاموشی سے سامعین میں پچھلی سیٹوں پر بیٹھ جاتے۔ پھر سامعین سے کوئی مجھے اسٹیج پر اطلاع کرتا کہ رانا بھگوان داس صاحب بیٹھے ہیں۔ میں فوراً احتراماً انھیں اسٹیج پر بلاتا اور سامعین جسٹس صاحب کے احترام میں خود کھڑے ہوکر اس وقت تک تالیاں بجاتے رہتے جب تک وہ اسٹیج پر موجود کرسی پر نہ بیٹھ جاتے۔ علامہ اقبال کا شعر جسٹس صاحب کی نذر کرتا ہوں:

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
Load Next Story