آواز کو ’ چکھنے‘ والا انسان
جیمز کی سماعت سے ٹکرانے والی صدائیں ذائقے میں بدل جاتی ہیں
KARACHI:
آوازیں تو ہم سبھی سنتے ہیں، مگر کبھی آپ نے سنا ہے کہ آواز کو 'چکھا ' بھی جاسکتا ہے؟ بہ ظاہر یہ ناقابل فہم بات معلوم ہوتی ہے لیکن ایک برطانوی شہری ایسا بھی ہے جو آواز کو چکھ سکتا ہے۔
جیمز وینرٹن کو آواز چکھنے کی یہ حیران کُن صلاحیت دراصل ایک مرض کے سبب ہے جو سائنستھیسیا ( synaesthesia ) کہلاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا فرد کی حسیات اس کے دماغ میں ایسے احساسات پیدا کرتی ہیں جن سے عام انسان محروم ہوتے ہیں۔ جیمز جب بھی کوئی آواز بالخصوص کوئی نام سنتا ہے تو اسے ہر بار اپنی زبان پر کوئی نہ کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ مرض، جسے آپ غیرمعمولی خوبی یا صلاحیت بھی سمجھ سکتے ہیں، جیمز کو بچپن ہی سے لاحق ہے۔ ہر بار جب بھی کوئی نام اس کی سماعتوں سے ٹکراتا تو اس کے منہ میںکوئی نہ کوئی ذائقہ گُھل جاتا۔ مثال کے طور پر تاریخ کی کلاس میں جب ٹیچر یا کسی ہم جماعت کی زبان سے شاہِ برطانیہ ہنری ہشتم کی دوسری اہلیہ این بولین کا نام نکلتا تو اسے زبان پر کھٹی میٹھی ٹافیوں ( pear drops) کا ذائقہ محسوس ہوتا۔ اسی طرح ہر نام سننے پر جیمز کی زبان اسے ایک مختلف ذائقے سے آشنا کرتی۔ برطانیہ کی تمام شاہی شخصیات کے ' ذائقے' اسے یاد ہوچکے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیمز نے محسوس کیا کہ آواز کو ' چکھنے' کی صلاحیت پڑھائی کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اس کی معاون ثابت ہورہی ہے۔ اس نے دوست بنانے کے لیے اسی خاصیت کو پیمانہ بنالیا تھا۔کسی لڑکے کا نام سُن کر اس کی زبان پر اگر میٹھا ذائقہ نمودار ہوتا تو وہ اس سے دوستی کرلیتا ورنہ کنارہ کش ہوجاتا۔ جیمز کے مطابق اس کے بیشتر ہم جماعت آلو کے قتلے اور اسٹرابیری جام جیسا ' ذائقہ' رکھتے تھے ۔
بیشتر بچے باپ کے مقابلے میں اپنی مائوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جیمز بھی باپ پر ماں کو ترجیح دیتا تھا، مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ماں اسے باپ کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتی تھی، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ماں کا نام سُن کر اسے زبان پر مزے دار آئس کریم کا ذائقہ محسوس ہوتا تھا جب کہ باپ کے نام کا ' ذائقہ' بُھنے ہوئے مٹر کے دانوں جیسا تھا۔
سائنستھیسیا پر ایڈنبرگ یونی ورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس مرض کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے عام قسم وہ ہے جس میں متاثرہ فرد الفاظ اور اعداد کو رنگوں کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یعنی کوئی مخصوص الفاظ یا عدد سُن کر اس کے ذہن میں مخصوص رنگ کا تصور اُبھر آتا ہے۔ جیمز کو لاحق سائنستھیسیا کو طبی اصطلاح میں lexical gustatory synaesthesia کہا جاتا ہے جو اس مرض کی نادر قسم ہے۔ عام فہم زبان میں اسے ' الفاظ کا ذائقہ' کہتے ہیں۔
سائنستھیسیا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ایڈنبرگ یونی ورسٹی کی ڈاکٹر جولیا سمنر کے مطابق ماہرین یہ جان چکے ہیں کہ سائنستھیسیا میں مبتلا افراد کے دماغ کی بیرونی جھلی( grey matter) بعض مقامات پر عام لوگوں کے دماغ کی جھلی سے دبیز ہوتی ہے۔
جیمز کو سائنستھیسیا کی تشخیص نوجوانی میں ہوئی تھی۔ جیمز کا کہنا ہے کہ دس برس کی عمر میں والدین اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اسکول کے امتحانات کے دوران کلاس میں طالب علموں کی پنسلوں کے گرنے کی آوازیں اس کے منہ میں بے حد کڑوا ذائقہ پیدا کررہی تھیں جس کی وجہ سے اس کے لیے پیپر دینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے والدین کو اپنی مشکل بتائی تو وہ سمجھے کہ زبان میں چھالے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے جیمز کی بات سننے کے بعد کہا کہ یہ کیفیت بڑھتی عمر کا حصہ ہے، اس بچے کی قوت متخیلہ غیرمعمولی ہے جو وقت کے ساتھ نارمل سطح پر آجائے گی۔
جیمز کا کہنا ہے بیس برس کی عمر میں، ایم آر آئی کروانے کے بعد ڈاکٹر اس کے مرض کی صحیح تشخیص کرنے میں کام یاب ہوئے۔ ایم آر آئی سے واضح ہوا کہ جیمز کے دماغ کے آواز کو کنٹرول کرنے والے اور ذائقے کا احساس پیدا کرنے والے حصوں کے درمیان ایک اضافی تعلق یا لِنک موجود تھا، جسے ختم کرنا ممکن نہیں۔
ان تمام برسوں کے دوران جیمز کو ہم جماعتوں، دوستوں اور عزیزوں کی تنقید بھی سہنی پڑی تھی، جن کا خیال تھا کہ وہ محض توجہ حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہے۔
جیمز کا کہنا ہے کانوں میں پڑنے والی آوازیں اس کی زبان پر مختلف ذائقوں کا احساس پیدا کرتی رہتی ہیں۔ کچھ ذائقے چند سیکنڈ اور کچھ کئی گھنٹے تک اس کی زبان پر موجود رہتے ہیں۔ اس کیفیت کی وجہ سے جیمز کے لیے ٹیلی ویژن دیکھنا یا سنیما جانا ممکن نہیں کیوں کہ آوازوں کا شور اسے ' ذائقوں کی اذیت' میں مبتلا کردیتا ہے۔
آوازیں تو ہم سبھی سنتے ہیں، مگر کبھی آپ نے سنا ہے کہ آواز کو 'چکھا ' بھی جاسکتا ہے؟ بہ ظاہر یہ ناقابل فہم بات معلوم ہوتی ہے لیکن ایک برطانوی شہری ایسا بھی ہے جو آواز کو چکھ سکتا ہے۔
جیمز وینرٹن کو آواز چکھنے کی یہ حیران کُن صلاحیت دراصل ایک مرض کے سبب ہے جو سائنستھیسیا ( synaesthesia ) کہلاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا فرد کی حسیات اس کے دماغ میں ایسے احساسات پیدا کرتی ہیں جن سے عام انسان محروم ہوتے ہیں۔ جیمز جب بھی کوئی آواز بالخصوص کوئی نام سنتا ہے تو اسے ہر بار اپنی زبان پر کوئی نہ کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ مرض، جسے آپ غیرمعمولی خوبی یا صلاحیت بھی سمجھ سکتے ہیں، جیمز کو بچپن ہی سے لاحق ہے۔ ہر بار جب بھی کوئی نام اس کی سماعتوں سے ٹکراتا تو اس کے منہ میںکوئی نہ کوئی ذائقہ گُھل جاتا۔ مثال کے طور پر تاریخ کی کلاس میں جب ٹیچر یا کسی ہم جماعت کی زبان سے شاہِ برطانیہ ہنری ہشتم کی دوسری اہلیہ این بولین کا نام نکلتا تو اسے زبان پر کھٹی میٹھی ٹافیوں ( pear drops) کا ذائقہ محسوس ہوتا۔ اسی طرح ہر نام سننے پر جیمز کی زبان اسے ایک مختلف ذائقے سے آشنا کرتی۔ برطانیہ کی تمام شاہی شخصیات کے ' ذائقے' اسے یاد ہوچکے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیمز نے محسوس کیا کہ آواز کو ' چکھنے' کی صلاحیت پڑھائی کے علاوہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی اس کی معاون ثابت ہورہی ہے۔ اس نے دوست بنانے کے لیے اسی خاصیت کو پیمانہ بنالیا تھا۔کسی لڑکے کا نام سُن کر اس کی زبان پر اگر میٹھا ذائقہ نمودار ہوتا تو وہ اس سے دوستی کرلیتا ورنہ کنارہ کش ہوجاتا۔ جیمز کے مطابق اس کے بیشتر ہم جماعت آلو کے قتلے اور اسٹرابیری جام جیسا ' ذائقہ' رکھتے تھے ۔
بیشتر بچے باپ کے مقابلے میں اپنی مائوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ جیمز بھی باپ پر ماں کو ترجیح دیتا تھا، مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ماں اسے باپ کے مقابلے میں زیادہ پیار کرتی تھی، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ماں کا نام سُن کر اسے زبان پر مزے دار آئس کریم کا ذائقہ محسوس ہوتا تھا جب کہ باپ کے نام کا ' ذائقہ' بُھنے ہوئے مٹر کے دانوں جیسا تھا۔
سائنستھیسیا پر ایڈنبرگ یونی ورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق اس مرض کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے عام قسم وہ ہے جس میں متاثرہ فرد الفاظ اور اعداد کو رنگوں کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یعنی کوئی مخصوص الفاظ یا عدد سُن کر اس کے ذہن میں مخصوص رنگ کا تصور اُبھر آتا ہے۔ جیمز کو لاحق سائنستھیسیا کو طبی اصطلاح میں lexical gustatory synaesthesia کہا جاتا ہے جو اس مرض کی نادر قسم ہے۔ عام فہم زبان میں اسے ' الفاظ کا ذائقہ' کہتے ہیں۔
سائنستھیسیا کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین حتمی طور پر کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ایڈنبرگ یونی ورسٹی کی ڈاکٹر جولیا سمنر کے مطابق ماہرین یہ جان چکے ہیں کہ سائنستھیسیا میں مبتلا افراد کے دماغ کی بیرونی جھلی( grey matter) بعض مقامات پر عام لوگوں کے دماغ کی جھلی سے دبیز ہوتی ہے۔
جیمز کو سائنستھیسیا کی تشخیص نوجوانی میں ہوئی تھی۔ جیمز کا کہنا ہے کہ دس برس کی عمر میں والدین اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اسکول کے امتحانات کے دوران کلاس میں طالب علموں کی پنسلوں کے گرنے کی آوازیں اس کے منہ میں بے حد کڑوا ذائقہ پیدا کررہی تھیں جس کی وجہ سے اس کے لیے پیپر دینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے والدین کو اپنی مشکل بتائی تو وہ سمجھے کہ زبان میں چھالے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر نے جیمز کی بات سننے کے بعد کہا کہ یہ کیفیت بڑھتی عمر کا حصہ ہے، اس بچے کی قوت متخیلہ غیرمعمولی ہے جو وقت کے ساتھ نارمل سطح پر آجائے گی۔
جیمز کا کہنا ہے بیس برس کی عمر میں، ایم آر آئی کروانے کے بعد ڈاکٹر اس کے مرض کی صحیح تشخیص کرنے میں کام یاب ہوئے۔ ایم آر آئی سے واضح ہوا کہ جیمز کے دماغ کے آواز کو کنٹرول کرنے والے اور ذائقے کا احساس پیدا کرنے والے حصوں کے درمیان ایک اضافی تعلق یا لِنک موجود تھا، جسے ختم کرنا ممکن نہیں۔
ان تمام برسوں کے دوران جیمز کو ہم جماعتوں، دوستوں اور عزیزوں کی تنقید بھی سہنی پڑی تھی، جن کا خیال تھا کہ وہ محض توجہ حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتا رہتا ہے۔
جیمز کا کہنا ہے کانوں میں پڑنے والی آوازیں اس کی زبان پر مختلف ذائقوں کا احساس پیدا کرتی رہتی ہیں۔ کچھ ذائقے چند سیکنڈ اور کچھ کئی گھنٹے تک اس کی زبان پر موجود رہتے ہیں۔ اس کیفیت کی وجہ سے جیمز کے لیے ٹیلی ویژن دیکھنا یا سنیما جانا ممکن نہیں کیوں کہ آوازوں کا شور اسے ' ذائقوں کی اذیت' میں مبتلا کردیتا ہے۔