پریویو ریونج آف دی ورتھلیس
ابھی میں گھر میں بیٹھا اِس بات پر غور کر ہی رہا تھا کہ ہمارے ملک میں رفتہ رفتہ آرٹ اور کلچر فروغ پانے کے بچائے الٹا زوال پزیری کی جانب گامزن ہے، اتنے میں ایک دوست کی کال آئی کہ عون فاسٹ اینڈ فیوریس 7 ریلیز ہوگئی ہے، کیا کہتے ہو میں نے کہا یار کب تک ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھتے رہیں گے؟ اس نے کہا بھائی اب کیا کریں کہ ہمارے ملک میں فلمیں اس معیار کی بن ہی نہیں رھیں جیسے آج سے پہلے بنتی تھیں تو اب تفریح کے لئے یہی کچھ ہے۔
تم یہ بتاو چلنا ہے کہ نہیں؟ میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد منع کردیا۔ دراصل انکار کی اصل وجہ یہی تھی کہ مجھے اس بات کا غصہ تھا کہ ہمارے ملک میں اچھی فلمیں بننا تو شروع ہو گئی ہیں جیسے خدا کے لئے، وار، نا معلوم افراد وغیرہ لیکن! ہر فلم کے ریلیز ہونے کے بعد ایک طویل وقفہ آجاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہو اور اس کے بعد ہمارے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اس طرح پُرسکون ہوجاتے ہیں جیسے سارے کام مکمل ہوگئے اور اب کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں دنیا بھر کے کام تو ہوتے رہتے ہیں لیکن آرٹ اور کلچر کے فروغ کے لئے جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو پھر کوئی آگے نہیں بڑھتا اور المیہ تو یہ ہے کہ جب کوئی ہمارے ملک میں اس جانب اپنی توجہ مبذول کرتا بھی ہے تو اس کو بے جا تنقید کا سامنا کرنا پرتا ہے کیونکہ اس ملک میں سینیما کی تباہی میں جہاں وزارتِ نشر و اشاعت کی ذمہ داری ہے تو اسی طرح ان تمام اداکاروں، صداکاروں، ہدایت کاروں کی بھی یہ کاہلی کہہ لیجئے یا کوتاہی کہ انہوں نے اب دل برداشتہ ہوکر اس صنعت سے منہ ہی موڑ لیا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایسے ڈرامے بنتے ہیں جو دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے وہ کوالٹی کے ہر معیار پر پورا اترتے ہیں۔ پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری کی مضبوطی کے لیے تو یہاں ہر کوئی اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے اور اگر ڈرامہ انڈسٹری کے عالمی شہرت یافتہ کرداروں کی فہرست مرتب کی جائے تو شاید صفحات کم پر جائیں۔ ان ناموں میں سے کچھ یہ ہیں قاضی واجد، انور مقصود، معین اختر، طلعت حسین، فردوس جمال، بہروز سبزواری، بشریٰ انصاری، شہزاد رضا، عمر شریف، روبینہ اشرف، حنا دلپزیر، نیلوفر عباسی نہ صرف یہ بلکہ ایک طویل فہرست ہے ایسے ہیروں کی جنہوں نے پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری کو اتنا مظبوط اور مستحکم کردیا کہ آج پڑوسی ملک بھی ہمارے ڈراموں کی کاپی کرتا ہے اور ہمارے اداکاروں سے سیکھتا ہے۔
لیکن سوال پھر وہیں آکر رک جاتا ہے کہ فلم انڈسٹری کا یہ حال کیوں ہوا؟ جہاں تک بات ہے عوام کی تو عوام تو چاہتی ہے کہ سینیما کا سیاح دور ختم ہو اور پھر وہی روشنی آجائے جو پہلے کسی دور میں ہوا کرتی تھی۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو ایک ذرا ایک نظر نئے بننے والے سینیما گھروں پر ڈالیے تو میری بات پر آپ کو ضرور یقین آجائے گا۔ اِس وقت سینیما گھروں کا معاملہ یہ ہے کہ ہر شو فل چل رہا ہے جبکہ اِس وقت پاکستانی فلموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اگر ہالی ووڈ اور بالی ووٹ کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کی تعداد بھی بڑھ جائے تو لوگوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
لیکن انہی سوچوں کے دوران خبروں میں 22 مئی کو ریلیز ہونے والی نئی پاکستانی فلم پریویو؛ ریونج آف دی ورتھلیس کا ٹریلر آرہا تھا اچانک ٹی وی پر یہ ٹریلر دیکھتے ہی مجھے دل سے خوشی ہوئی کہ چلو بھئی ہمارے فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے اداروں نے کچھ تو اچھا کام کیا۔ بس ٹریلر دیکھتے ہی تجسس میں اضافہ ہوا اور فوری طور پر لیپ ٹاپ کھولا اور فلم کے بارے میں سرچ کرنا شروع کیا۔ تو معلوم یہ ہوا ہے کہ اس فلم میں ہدایت کاری اور اداکاری دونوں کے فرائض معروف اداکار جمال شاہ نے ادا کئے ہیں، اس کے علاوہ اس فلم میں فردوس جمال، ایوب کھوسو، مائرہ خان اور دیگر شامل ہیں۔ پوری طرح اس فلم کے بارے میں جاننے کے بعد یوں بھی اچھا لگا کہ یہ فلم روایتی طریقوں سے ہٹ کر ایک جاندار کہانی پر بنائی گئی ہے جس میں قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افواجِ پاکستان کے کردار، ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے والوں پر کیا گزرتی ہے اور ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے، اس بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لئے یہ فلم ایک بہترین کاوش ہے۔ فلم کی کہانی 2009 میں سوات میں پیش آنے والے ایک سچے واقع پر مبنی ہے جس میں ملک دشمن اورانسانیت سے عاری دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والی پاک فوج کے سپاہیوں کے بلند حوصلوں کی ترجمانی کی گئی ہے۔
اس طرح کی فلموں کا بننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آجکل دہشت گردوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اسلام کے چہرہ مسخ کرنے کی جو سازش شروع کی ہے اس کو اس طرح کی فلمیں بنا کر کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو کینیا کی گاریسا یونیورسٹی میں مارے جانے والے 147 طالبعلموں کی بات کی جائے یا پھر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے 132 بچوں کی بات ہو، ہر جگہ ایک ہی چیز نظر آتی ہے کہ یہ دہشت گرد صرف امن و امان کے دشمن ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تعلیم کے بھی دشمن ہیں اور انسانیت کے بھی ہیں۔
اس لئے اس طرح کی فلموں کے آنے سے پاکستان اور پاکستانیت کو فروغ ملے گا کیونکہ دہشت گردی سے سب سے ذیادہ متاثر ہونے والی اگر کوئی قوم ہے تو وہ پاکستانی قوم ہے اور اگر کوئی ملک ان دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی کر رہا ہے تو وہ بھی پاکستان ہی ہے۔ اِس لیے میں امید کرتا ہوں کہ 22 مئی کو ریلیز ہونے والی اس فلم کو بھرپور طریقے سے مقبولیت ملے گی کیونکہ اس کی کہانی صرف کچھ لوگوں کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی کہانی ہے اور اس فلم کے ذریعے دنیا یہ جان سکے گی کہ پاکستانی قوم اور یہاں کا بچہ بچہ دہشت گردوں کے خلاف ہے اور ہماری پاک افواج ہر آن ہر لحضہ ان درندوں کے تعقب میں ہے۔
[poll id="413"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی