نلتر کا سانحہ اور میڈیا
12مئی 2015 کو ’’ایکسپریس‘‘ کے صفحۂ اول پر ایک نمایاں رنگین فوٹو شایع ہوئی ہے
12مئی 2015 کو ''ایکسپریس'' کے صفحۂ اول پر ایک نمایاں رنگین فوٹو شایع ہوئی ہے۔ کیپشن میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں: ''وزیراعظم نواز شریف سانحۂ نلتر میں جاں بحق افراد کی یاد میں (منعقدہ) تعزیتی ریفرنس کے دوران ایک منٹ کی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ (مشیرِ خارجہ) سرتاج عزیز اور طارق فاطمی بھی موجود ہیں۔'' ساتھ ہی تین کالمی خبر بھی شایع کی گئی ہے جس کی سرخی میں بتایا گیا ہے: ''جاں بحق سفیروں اور فوجی شہداء کے لیے ستارئہ پاکستان کا اعلان۔''
وادیٔ نلتر، گلگت کے شمال مشرق میں چالیس کلومیٹرکے فاصلے پر ایک نہایت خوبصورت خطّہ ہے۔ جنت نظیر وادی، لیکن یہاں تک رسائی خاصی دشوار ہے۔ چند روز قبل سیاحت کے ایک بڑے پراجیکٹ کی تکمیل کا افتتاح کرنے کے لیے حکومت اور ہماری وزارتِ خارجہ نے یہاں ایک بڑی دعوت کا بھی اہتمام کیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ یہاں تین دن گزارے جائیں گے۔ سیکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔
مدعوئین راولپنڈی سے گلگت بذریعہ جہاز پہنچے۔ گلگت سے نلتر پہنچنے کے لیے چار بہترین ہیلی کاپٹروں کا بندوبست تھا۔ ایم آئی سترہ نام کے یہ ہیلی کاپٹر دنیا بھر میں اپنی بہترین کارکردگی کے باعث نہایت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ تین ہیلی کاپٹر تو اپنی قیمتی سواریوں کے ساتھ بحفاظت وادیٔ نلتر پہنچ گئے لیکن چوتھا لکھی گئی تقدیرِازلی کے حصار میں تھا۔ اس میں سترہ مسافر سوار تھے۔ یہ ہیلی کاپٹر منزل سے تھوڑے ہی فاصلے پرچکر کھاتا ہوا نشیب میں گر گیا۔ تقدیر، جسے کوئی ٹال سکتا تھا نہ ٹال سکتا ہے۔ چند غیر ملکی سفیر، ہمارے دو پائلٹ اور ان کے معاون کی قیمتی جانیں دیکھتے ہی دیکھتے تلف ہوگئیں۔
جو غیر ملکی سفیر جان سے گزر گئے، ان کی جانیں تو واپس نہیں لائی جاسکتیں لیکن ان کے ممالک اور گزرجانے والوں کے خاندانوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونے کے لیے ہمارے وزیراعظم، حکومتِ پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف اور پاکستان ایئرفورس کے سربراہ نے جس یک جہتی اور غم گساری کا اظہار کیا ہے، اس سے یقینا پاکستان کی طرف سے غیر ممالک کو ایک اچھا پیغام گیا ہے۔ آئی ایس پی آر اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے درمیان بہت اچھا تعاون رہا۔ انھوں نے نہایت ذمے داری سے پَل پَل کی خبروں سے متعلقہ اور متاثرہ ممالک کے سفارت خانوں سے مسلسل آگاہ کیے رکھا۔
اس اقدام نے شفافیت کی نئی مثال بھی قائم کی اور دشمن کے منفی پروپیگنڈے کو کاؤنٹر بھی کیا۔ جن جن ممالک کے سفرا اور ان کے اہلِ خانہ اس حادثے سے متاثر ہوئے ہیں، خدا کا خصوصی شکر ہے کہ ان سب نے اسے محض حادثہ قرار دیا ہے اور صاف و غیر مبہم الفاظ میں اسے دہشت گردی کی کسی واردات کا عنوان دینے سے انکار کردیا ہے۔ یہ مکینیکل فالٹ تھا جو کسی بھی کامل سے کامل ترین مشینری میں کسی بھی وقت پیدا ہوسکتا ہے۔
افسوس مگر اس بات کا ہے کہ بعض ملکی و غیر ملکی میڈیا نے دانستہ اور زبردستی اس حادثے کو ''دہشت گردوں کی کامیاب کارروائی'' سے موسوم کرنے کی سعی کی۔ پاکستان کے خلاف یہ سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔ اسے سازش بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی قابل مذمت کوشش کی گئی۔ اوّلین اور نفرت آگیں کوشش ''دی ٹیلی گراف'' اخبار نے کی۔ ہم سمجھتے رہے ہیں کہ برطانوی اور غیر ملکی مغربی اخبارات عموماً ذمے داری کا ثبوت دیتے ہیں اور کوئی اہم ترین خبر شایع کرنے سے قبل اس کے تمام قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کے تقاضے پورے کرتے ہیں لیکن مذکورہ اخبار نے سانحۂ نلتر کے حوالے سے نہایت غیر ذمے دارانہ اور قابلِ نفرت کردار ادا کیا ہے۔
بغیر کسی تصدیق کے ''دی ٹیلی گراف'' نے نہایت غیر ذمے دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے سانحۂ وادیٔ نلتر کے حوالے سے جو خبر شایع کی، اس کی ہیڈنگ یوں تھی: Taliban claims it downed Pakistan helicopter as ambassadors killed in crash ۔ اخبار نے اب تک اس غلطی پر ندامت کا اظہار کیا ہے نہ اس کی تردید شایع کی ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے بھی یہی خبر اپنے ہاں شایع کردی۔ ایسے میں بھلا بھارت کہاں پیچھے رہ سکتا تھا؟ چنانچہ ہم نے یہ افسوسناک مناظر دیکھے اور پڑھے ہیں کہ بھارتی ٹی وی چینلز اور اخبارات مسلسل یہی خبریں شایع اور نشر کرتے رہے کہ طالبان نے سفارت کاروں سے بھرا ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ اگر ہیلی کاپٹر کو کسی میزائل نے ہٹ کیا ہوتا تو کوئی زخمی بچ نہ نکلتا۔ ماہم مصدق، جو اس سانحہ کے عینی شاہدین میں سے ایک ہیں، کی جو رپورٹ ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں شایع ہوئی ہے۔
وہ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وادیٔ نلتر کا حادثہ دہشت گردانہ کارروائی ہر گز نہ تھی۔ بھارتی میڈیا مگر اسی پروپیگنڈے کو ہوا دیتا رہا، حالانکہ اسے تو عالمی غم میں برابر کا شریک ہونا چاہیے تھا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہی کوئی حادثہ بھارت میں پیش آتا تو پاکستانی میڈیا یقینا بھارت مخالف خبریں نشر اور شایع نہ کرتا۔ جب 23جون 1980 کو بھارتی وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے سنجے گاندھی ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے تو پاکستان اور پاکستانی میڈیا پوری طرح بھارتی غم میں شریک تھا۔ جب 31اکتوبر 1984 کو خود مسز اندرا گاندھی سکھ محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئیں تو بھی پاکستان اور پاکستانی میڈیا نے شرافت کا مظاہرہ کیا۔
اکیس مئی 1991 کو جب سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی انتخابی مہم کے دوران تامل ناڈو کی ایک خود کش بمبار خاتون کا ہدف بن کر ہلاک ہوگئے تو بھی پاکستان، پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی میڈیا نے شائستگی ہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی غم و افسوس میں برابر کی شرکت کی۔ گلگت کی وادیٔ نلتر میں وقوع پذیر ہونے والے افسوسناک حادثے میں مگر بھارت اور بھارتی میڈیا نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرکے ایک بار پھر پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور پاکستان کے عوام بھارت سے کیا مثبت توقعات وابستہ کرسکتے ہیں!!
وادیٔ نلتر، گلگت کے شمال مشرق میں چالیس کلومیٹرکے فاصلے پر ایک نہایت خوبصورت خطّہ ہے۔ جنت نظیر وادی، لیکن یہاں تک رسائی خاصی دشوار ہے۔ چند روز قبل سیاحت کے ایک بڑے پراجیکٹ کی تکمیل کا افتتاح کرنے کے لیے حکومت اور ہماری وزارتِ خارجہ نے یہاں ایک بڑی دعوت کا بھی اہتمام کیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ یہاں تین دن گزارے جائیں گے۔ سیکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔
مدعوئین راولپنڈی سے گلگت بذریعہ جہاز پہنچے۔ گلگت سے نلتر پہنچنے کے لیے چار بہترین ہیلی کاپٹروں کا بندوبست تھا۔ ایم آئی سترہ نام کے یہ ہیلی کاپٹر دنیا بھر میں اپنی بہترین کارکردگی کے باعث نہایت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ تین ہیلی کاپٹر تو اپنی قیمتی سواریوں کے ساتھ بحفاظت وادیٔ نلتر پہنچ گئے لیکن چوتھا لکھی گئی تقدیرِازلی کے حصار میں تھا۔ اس میں سترہ مسافر سوار تھے۔ یہ ہیلی کاپٹر منزل سے تھوڑے ہی فاصلے پرچکر کھاتا ہوا نشیب میں گر گیا۔ تقدیر، جسے کوئی ٹال سکتا تھا نہ ٹال سکتا ہے۔ چند غیر ملکی سفیر، ہمارے دو پائلٹ اور ان کے معاون کی قیمتی جانیں دیکھتے ہی دیکھتے تلف ہوگئیں۔
جو غیر ملکی سفیر جان سے گزر گئے، ان کی جانیں تو واپس نہیں لائی جاسکتیں لیکن ان کے ممالک اور گزرجانے والوں کے خاندانوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونے کے لیے ہمارے وزیراعظم، حکومتِ پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف اور پاکستان ایئرفورس کے سربراہ نے جس یک جہتی اور غم گساری کا اظہار کیا ہے، اس سے یقینا پاکستان کی طرف سے غیر ممالک کو ایک اچھا پیغام گیا ہے۔ آئی ایس پی آر اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے درمیان بہت اچھا تعاون رہا۔ انھوں نے نہایت ذمے داری سے پَل پَل کی خبروں سے متعلقہ اور متاثرہ ممالک کے سفارت خانوں سے مسلسل آگاہ کیے رکھا۔
اس اقدام نے شفافیت کی نئی مثال بھی قائم کی اور دشمن کے منفی پروپیگنڈے کو کاؤنٹر بھی کیا۔ جن جن ممالک کے سفرا اور ان کے اہلِ خانہ اس حادثے سے متاثر ہوئے ہیں، خدا کا خصوصی شکر ہے کہ ان سب نے اسے محض حادثہ قرار دیا ہے اور صاف و غیر مبہم الفاظ میں اسے دہشت گردی کی کسی واردات کا عنوان دینے سے انکار کردیا ہے۔ یہ مکینیکل فالٹ تھا جو کسی بھی کامل سے کامل ترین مشینری میں کسی بھی وقت پیدا ہوسکتا ہے۔
افسوس مگر اس بات کا ہے کہ بعض ملکی و غیر ملکی میڈیا نے دانستہ اور زبردستی اس حادثے کو ''دہشت گردوں کی کامیاب کارروائی'' سے موسوم کرنے کی سعی کی۔ پاکستان کے خلاف یہ سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔ اسے سازش بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی قابل مذمت کوشش کی گئی۔ اوّلین اور نفرت آگیں کوشش ''دی ٹیلی گراف'' اخبار نے کی۔ ہم سمجھتے رہے ہیں کہ برطانوی اور غیر ملکی مغربی اخبارات عموماً ذمے داری کا ثبوت دیتے ہیں اور کوئی اہم ترین خبر شایع کرنے سے قبل اس کے تمام قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کے تقاضے پورے کرتے ہیں لیکن مذکورہ اخبار نے سانحۂ نلتر کے حوالے سے نہایت غیر ذمے دارانہ اور قابلِ نفرت کردار ادا کیا ہے۔
بغیر کسی تصدیق کے ''دی ٹیلی گراف'' نے نہایت غیر ذمے دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے سانحۂ وادیٔ نلتر کے حوالے سے جو خبر شایع کی، اس کی ہیڈنگ یوں تھی: Taliban claims it downed Pakistan helicopter as ambassadors killed in crash ۔ اخبار نے اب تک اس غلطی پر ندامت کا اظہار کیا ہے نہ اس کی تردید شایع کی ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے بھی یہی خبر اپنے ہاں شایع کردی۔ ایسے میں بھلا بھارت کہاں پیچھے رہ سکتا تھا؟ چنانچہ ہم نے یہ افسوسناک مناظر دیکھے اور پڑھے ہیں کہ بھارتی ٹی وی چینلز اور اخبارات مسلسل یہی خبریں شایع اور نشر کرتے رہے کہ طالبان نے سفارت کاروں سے بھرا ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ اگر ہیلی کاپٹر کو کسی میزائل نے ہٹ کیا ہوتا تو کوئی زخمی بچ نہ نکلتا۔ ماہم مصدق، جو اس سانحہ کے عینی شاہدین میں سے ایک ہیں، کی جو رپورٹ ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں شایع ہوئی ہے۔
وہ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وادیٔ نلتر کا حادثہ دہشت گردانہ کارروائی ہر گز نہ تھی۔ بھارتی میڈیا مگر اسی پروپیگنڈے کو ہوا دیتا رہا، حالانکہ اسے تو عالمی غم میں برابر کا شریک ہونا چاہیے تھا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہی کوئی حادثہ بھارت میں پیش آتا تو پاکستانی میڈیا یقینا بھارت مخالف خبریں نشر اور شایع نہ کرتا۔ جب 23جون 1980 کو بھارتی وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے سنجے گاندھی ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے تو پاکستان اور پاکستانی میڈیا پوری طرح بھارتی غم میں شریک تھا۔ جب 31اکتوبر 1984 کو خود مسز اندرا گاندھی سکھ محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئیں تو بھی پاکستان اور پاکستانی میڈیا نے شرافت کا مظاہرہ کیا۔
اکیس مئی 1991 کو جب سابق بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی انتخابی مہم کے دوران تامل ناڈو کی ایک خود کش بمبار خاتون کا ہدف بن کر ہلاک ہوگئے تو بھی پاکستان، پاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی میڈیا نے شائستگی ہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی غم و افسوس میں برابر کی شرکت کی۔ گلگت کی وادیٔ نلتر میں وقوع پذیر ہونے والے افسوسناک حادثے میں مگر بھارت اور بھارتی میڈیا نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرکے ایک بار پھر پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور پاکستان کے عوام بھارت سے کیا مثبت توقعات وابستہ کرسکتے ہیں!!