اصل دھاندلی انھیں کیوں نظر نہیں آتی
ناقص العقل ہے اور اس کے دماغ میں سیاسی نوعیت کے فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی
آپ کی نگاہوں نے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے شاندار جلوس دیکھے ہوں گے، جن میں باپردہ اور بے پردہ خواتین کی بھاری تعداد شامل ہوتی ہے۔رنگین ملبوسات، کلائیوں میں اپنی جماعت کے رنگوں کی ریشمی چوڑیاںاور ہاتھوں میں اپنی جماعت کے پرچم۔ تحریک انصاف کی ان دلربا خواتین کو بھلا کون بھول سکتا ہے جو تحریک کے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں میں اپنے چہروں پر تحریک کا پرچم پینٹ کروا کے آتی تھیں اور جن کا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔
جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور کئی دوسری سیاسی جماعتوں کے اس جدید انداز اور خواتین کے لیے مساوی حقوق کی بات کرنے والوں کو دیکھتے ہوئے بھلا یہ کیسے فرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ جماعتیں جو نئے پاکستان کی تخلیق کی دعویدار ہیں اور جو اپنے لوگوں کو ملک کا مستقبل روشن خطوط پر استوارکرنے کے خواب دکھاتی ہیں، وہ قبائلی علاقوں میں قدم رکھتے ہی اپنے چہروں پر صدیوں پرانی مقامی روایات کا نقاب اوڑھ لیتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ضابطوں اور قاعدوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان علاقوں میں غیر تحریری فرمان جاری ہوجاتا ہے اور وہ ہوتا ہے انتخابات میں عورتوں کے حق رائے دہی کی منسوخی کا فرمان... ان علاقوں میں انتخابات کا حصہ بننے والی قومی اور مذہبی جماعتیں الیکشن کمیشن سے وعدہ کرتی ہیں کہ عورتوں کو بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی،لیکن ان کے اشارہ ابرو پر ان علاقوں کی اکثر عورتیں پیچ و تاب کھاتی ہوئی انتخابات کے دن گھر میں بیٹھی رہتی ہیں۔ اس کا سبب ان کا قبائلی اور جاگیر داری نظام ہے۔
جس کے خیال میں عورت کم تر ہے۔ ناقص العقل ہے اور اس کے دماغ میں سیاسی نوعیت کے فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ووٹ کسے دیا جائے اور کسے نہیں جیسا اہم معاملہ اس مخلوق پر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے جس کے کاسۂ سر میں بکری جیسا دماغ ہے۔ یہ مخلوق گھر کا تنورگرم رکھنے اور افزائش نسل کے لیے پیدا کی گئی ہے، اس لیے وہ اپنی حدود و قیود میں رہے۔
اپنے سیاسی حقوق و فرائض کے بارے میں پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم سے عورتیں شکایت نہیں کرسکتیں، مسلم لیگ (ن) پہلے کی نسبت روشن خیال اور روادار ہوئی ہے لیکن ابھی تک اس کے رہنما قبائلی علاقوں میں اپنی رٹ نافذ نہیں کرسکے اور علاقے کے سرداروں اور خوانین کے سامنے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
پی کے 95 میں جو ضمنی انتخاب 7 مئی کو منعقد ہوئے، اس میں یہ بات سامنے آئی کہ اس حلقۂ انتخاب میں 47,280 خواتین ووٹرزکی موجودگی کے باوجود کسی ایک... جی ہاں ... کسی بھی ایک خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ یہ وہ صورت حال ہے جس پر ملک بھر کے جمہورت پسندوں کی طرف سے خواہ وہ خاتون ہوں یا مرد، احتجاج کیا گیا۔
یہ بات بھی یاد دلائی گئی کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مجوزہ انتخابی اصلاحات میں یہ بھی کہا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر اگر رجسٹرڈ عورتوں کے 10 فیصد سے کم ووٹ ڈالے جائیں، تووہاں کے نتائج کو مسترد کردیا جائے اور دوبارہ سے انتخابات کرائے جائیں۔ اس بارے میں ملک بھر کے جمہوریت پسندوں کی طرف سے احتجاج کو نظر میں رکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا بیان سامنے آیا کہ میں نے دیر میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کی شمولیت کے لیے باقاعدہ اپیل کی تھی۔
انھوں نے لوئر دیر کی تحصیل خال میں ایک پارٹی میٹنگ کے دوران کہا کہ یہ صرف جماعت کی ہی عورتیں نہیں تھیں جنہوں نے ووٹ نہیں ڈالا، جے یو آئی ایف ، اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کی عورتیں بھی گھر سے نہیں نکلیں۔ یہ بات انھوں نے بالکل درست کہی لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ ان عورتوں اور روشن خیال سیاسی جماعتوںکے علاقائی عہدیداروں سے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر کسی عورت نے بھی گھر سے قدم نکالا تو نتائج کی ذمے دار وہ خود ہوگی۔ انھیں یقیناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ ضلعی الیکشن کمیشن کے افسران نے مساجد سے یہ اعلان کرایا تھا کہ خواتین پولنگ بوتھ پر آکر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ ان اعلانات کے باوجود جماعت اسلامی کی عورتیں بھی اگر ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نہ آئیں تو اس کی حقیقی وجوہ پر سراج الحق کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
آج نہیں تو کل یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو آئینی اور اخلاقی بنیادوں پر حل کرنا پڑے گا اور جیسا کہ مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں انتخابی عمل میں عورتیں شریک نہ ہوں، وہاں کے انتخابات کالعدم قرار دے دیے جائیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ان علاقوں میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کے مفادات اور عورتوں کا حق رائے دہی ایک دوسرے سے جڑسکیں گے۔ صرف اسی طرح عورتوں کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لانے کا ''فریضہ'' قبائلی روایات و ثقافت کے محافظین خود ادا کر رہے ہوں گے۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکمران ہے، وہاں پی ٹی آئی کی طرف سے اس سارے مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ یہ دھاندلی انھیں کیوں نظر نہیں آتی؟اس پارٹی کے سربراہ کی تمام روشن خیالی دھرنے کے ساتھ دھری رہ گئی، ان دھرنوں میں شریک خواتین سے پوچھا جائے کہ ان کا قبائلی علاقوں کی عورتوں کے حق رائے دہی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ہم اگر قومی انتخابات 2013ء کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو اس میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے 8 اضلاع ایسے تھے جن میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔گھروں کے اندر جو احکامات جاری کیے گئے تھے، یہ ان ہی کا نتیجہ تھا کہ خیبرپختونخوا کے 8 اضلاع میں ووٹ ڈالنے والی عورتوں کی تعداد بہت کم تھی۔ دیر زیریں میں قومی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ تھا جس نے مقامی ثقافت اور روایت کی پاسداری کے نام پر وہاں کی عورتوں کو گھر سے قدم باہر نکانے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکا ۔ لوئر دیر میں اس ''حکم'' کی کارفرمائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں 1,38,910 رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف ایک عورت نے ووٹ ڈالنے کا اپنا حق استعمال کیا۔ ضلع بونیر میں صورتحال بہتر تھی۔
وہاں جہاں 1,64,821 رجسٹرڈ ووٹ تھے،وہاں کے 11پولنگ اسٹیشنوں پر 17,655 نے اپنا ووٹ ڈالا۔ PK-95 میں انتخابات سے پہلے ایسے پمفلٹ تقسیم کیے گئے جن میں عورتوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر انھوں نے ووٹ ڈالے تو انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ان تمام حقائق سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا گیا اور مطالبہ کیا گیا تھاکہ جہاں اس نوعیت کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے وہاں کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ان مطالبات کے باوجود 2 برس بعد بھی لوئردیر میں نام نہاد قبائلی روایات کا سربلند ہوا اور علاقے کی عورتیں رائے دہی کے حق سے محروم رکھی گئیں۔
اب 30 مئی کو گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی ہمیں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ اے این پی کی ویمن ونگ کی صوبائی نائب صدر سینیٹر زاہدہ خان نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ PK-95 دیر زیریں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے کیوں کہ وہاں ہونے والے انتخابات میں کسی ایک عورت نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا جب کہ وہاں عورتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 47000 ہے۔
اسلام آباد میں ایوان بالا سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کے جو انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں اس میں بھی قبائلی روایات کے نام پر عورتوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ابھی سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اس بارے میں ایم کیو ایم کی نسرین جلیل، پیپلزپارٹی کے سعید غنی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس بارے میں دلچسپ تبصرہ جے یو آئی (ایف) کے رکن عطاء الرحمن کا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ عورتوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا ان کی جماعت کی پالیسی نہیں لیکن کیا ایسے علاقے جہاں کی عورتوں نے اپنے شناختی کارڈ تک نہیں بنوائے، انھیں زبردستی پولنگ بوتھ تک لے جانا درست ہوگا؟ وہ اس گستاخی کو معاف کریں تو پوچھا جائے کہ شناختی کارڈ نہ بنوانے کا فیصلہ کس کا ہے؟
ان عورتوں کا یا ان کے مردوں کا جو ان پر اپنی حاکمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں؟ ان عورتوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی رقم بینک میں رکھنے کی، جائیداد کی خرید و فروخت کی، پاسپورٹ بنوانے، ٹرین اور ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایسی قیدی ہیں جو گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ''دھاندلی'' کے خلاف دھرنے دیتے ہیں، انھیں اتنی بڑی دھاندلی نظر نہیں آتی۔ کیوں نظر نہیں آتی؟ اس کا جواب ان ہی سے طلب کیجیے۔
جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور کئی دوسری سیاسی جماعتوں کے اس جدید انداز اور خواتین کے لیے مساوی حقوق کی بات کرنے والوں کو دیکھتے ہوئے بھلا یہ کیسے فرض کیا جاسکتا ہے کہ یہ جماعتیں جو نئے پاکستان کی تخلیق کی دعویدار ہیں اور جو اپنے لوگوں کو ملک کا مستقبل روشن خطوط پر استوارکرنے کے خواب دکھاتی ہیں، وہ قبائلی علاقوں میں قدم رکھتے ہی اپنے چہروں پر صدیوں پرانی مقامی روایات کا نقاب اوڑھ لیتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ضابطوں اور قاعدوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان علاقوں میں غیر تحریری فرمان جاری ہوجاتا ہے اور وہ ہوتا ہے انتخابات میں عورتوں کے حق رائے دہی کی منسوخی کا فرمان... ان علاقوں میں انتخابات کا حصہ بننے والی قومی اور مذہبی جماعتیں الیکشن کمیشن سے وعدہ کرتی ہیں کہ عورتوں کو بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی،لیکن ان کے اشارہ ابرو پر ان علاقوں کی اکثر عورتیں پیچ و تاب کھاتی ہوئی انتخابات کے دن گھر میں بیٹھی رہتی ہیں۔ اس کا سبب ان کا قبائلی اور جاگیر داری نظام ہے۔
جس کے خیال میں عورت کم تر ہے۔ ناقص العقل ہے اور اس کے دماغ میں سیاسی نوعیت کے فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ووٹ کسے دیا جائے اور کسے نہیں جیسا اہم معاملہ اس مخلوق پر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے جس کے کاسۂ سر میں بکری جیسا دماغ ہے۔ یہ مخلوق گھر کا تنورگرم رکھنے اور افزائش نسل کے لیے پیدا کی گئی ہے، اس لیے وہ اپنی حدود و قیود میں رہے۔
اپنے سیاسی حقوق و فرائض کے بارے میں پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم سے عورتیں شکایت نہیں کرسکتیں، مسلم لیگ (ن) پہلے کی نسبت روشن خیال اور روادار ہوئی ہے لیکن ابھی تک اس کے رہنما قبائلی علاقوں میں اپنی رٹ نافذ نہیں کرسکے اور علاقے کے سرداروں اور خوانین کے سامنے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
پی کے 95 میں جو ضمنی انتخاب 7 مئی کو منعقد ہوئے، اس میں یہ بات سامنے آئی کہ اس حلقۂ انتخاب میں 47,280 خواتین ووٹرزکی موجودگی کے باوجود کسی ایک... جی ہاں ... کسی بھی ایک خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ یہ وہ صورت حال ہے جس پر ملک بھر کے جمہورت پسندوں کی طرف سے خواہ وہ خاتون ہوں یا مرد، احتجاج کیا گیا۔
یہ بات بھی یاد دلائی گئی کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مجوزہ انتخابی اصلاحات میں یہ بھی کہا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر اگر رجسٹرڈ عورتوں کے 10 فیصد سے کم ووٹ ڈالے جائیں، تووہاں کے نتائج کو مسترد کردیا جائے اور دوبارہ سے انتخابات کرائے جائیں۔ اس بارے میں ملک بھر کے جمہوریت پسندوں کی طرف سے احتجاج کو نظر میں رکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا بیان سامنے آیا کہ میں نے دیر میں ہونے والے انتخابات میں خواتین کی شمولیت کے لیے باقاعدہ اپیل کی تھی۔
انھوں نے لوئر دیر کی تحصیل خال میں ایک پارٹی میٹنگ کے دوران کہا کہ یہ صرف جماعت کی ہی عورتیں نہیں تھیں جنہوں نے ووٹ نہیں ڈالا، جے یو آئی ایف ، اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کی عورتیں بھی گھر سے نہیں نکلیں۔ یہ بات انھوں نے بالکل درست کہی لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ ان عورتوں اور روشن خیال سیاسی جماعتوںکے علاقائی عہدیداروں سے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر کسی عورت نے بھی گھر سے قدم نکالا تو نتائج کی ذمے دار وہ خود ہوگی۔ انھیں یقیناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ ضلعی الیکشن کمیشن کے افسران نے مساجد سے یہ اعلان کرایا تھا کہ خواتین پولنگ بوتھ پر آکر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ ان اعلانات کے باوجود جماعت اسلامی کی عورتیں بھی اگر ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نہ آئیں تو اس کی حقیقی وجوہ پر سراج الحق کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
آج نہیں تو کل یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو آئینی اور اخلاقی بنیادوں پر حل کرنا پڑے گا اور جیسا کہ مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں انتخابی عمل میں عورتیں شریک نہ ہوں، وہاں کے انتخابات کالعدم قرار دے دیے جائیں۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ان علاقوں میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کے مفادات اور عورتوں کا حق رائے دہی ایک دوسرے سے جڑسکیں گے۔ صرف اسی طرح عورتوں کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لانے کا ''فریضہ'' قبائلی روایات و ثقافت کے محافظین خود ادا کر رہے ہوں گے۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ خیبرپختونخوا جہاں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکمران ہے، وہاں پی ٹی آئی کی طرف سے اس سارے مسئلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ یہ دھاندلی انھیں کیوں نظر نہیں آتی؟اس پارٹی کے سربراہ کی تمام روشن خیالی دھرنے کے ساتھ دھری رہ گئی، ان دھرنوں میں شریک خواتین سے پوچھا جائے کہ ان کا قبائلی علاقوں کی عورتوں کے حق رائے دہی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ہم اگر قومی انتخابات 2013ء کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو اس میں بھی یہی نظر آتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے 8 اضلاع ایسے تھے جن میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔گھروں کے اندر جو احکامات جاری کیے گئے تھے، یہ ان ہی کا نتیجہ تھا کہ خیبرپختونخوا کے 8 اضلاع میں ووٹ ڈالنے والی عورتوں کی تعداد بہت کم تھی۔ دیر زیریں میں قومی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان ایک غیر تحریر شدہ معاہدہ تھا جس نے مقامی ثقافت اور روایت کی پاسداری کے نام پر وہاں کی عورتوں کو گھر سے قدم باہر نکانے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکا ۔ لوئر دیر میں اس ''حکم'' کی کارفرمائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں 1,38,910 رجسٹرڈ ووٹروں میں سے صرف ایک عورت نے ووٹ ڈالنے کا اپنا حق استعمال کیا۔ ضلع بونیر میں صورتحال بہتر تھی۔
وہاں جہاں 1,64,821 رجسٹرڈ ووٹ تھے،وہاں کے 11پولنگ اسٹیشنوں پر 17,655 نے اپنا ووٹ ڈالا۔ PK-95 میں انتخابات سے پہلے ایسے پمفلٹ تقسیم کیے گئے جن میں عورتوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر انھوں نے ووٹ ڈالے تو انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ان تمام حقائق سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا گیا اور مطالبہ کیا گیا تھاکہ جہاں اس نوعیت کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے وہاں کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے۔ ان مطالبات کے باوجود 2 برس بعد بھی لوئردیر میں نام نہاد قبائلی روایات کا سربلند ہوا اور علاقے کی عورتیں رائے دہی کے حق سے محروم رکھی گئیں۔
اب 30 مئی کو گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی ہمیں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ اے این پی کی ویمن ونگ کی صوبائی نائب صدر سینیٹر زاہدہ خان نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ PK-95 دیر زیریں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے کیوں کہ وہاں ہونے والے انتخابات میں کسی ایک عورت نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا جب کہ وہاں عورتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 47000 ہے۔
اسلام آباد میں ایوان بالا سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کے جو انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں اس میں بھی قبائلی روایات کے نام پر عورتوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی ابھی سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اس بارے میں ایم کیو ایم کی نسرین جلیل، پیپلزپارٹی کے سعید غنی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس بارے میں دلچسپ تبصرہ جے یو آئی (ایف) کے رکن عطاء الرحمن کا تھا ۔ انھوں نے کہا کہ عورتوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا ان کی جماعت کی پالیسی نہیں لیکن کیا ایسے علاقے جہاں کی عورتوں نے اپنے شناختی کارڈ تک نہیں بنوائے، انھیں زبردستی پولنگ بوتھ تک لے جانا درست ہوگا؟ وہ اس گستاخی کو معاف کریں تو پوچھا جائے کہ شناختی کارڈ نہ بنوانے کا فیصلہ کس کا ہے؟
ان عورتوں کا یا ان کے مردوں کا جو ان پر اپنی حاکمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں؟ ان عورتوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی رقم بینک میں رکھنے کی، جائیداد کی خرید و فروخت کی، پاسپورٹ بنوانے، ٹرین اور ہوائی جہاز میں سفر کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایسی قیدی ہیں جو گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلنے کا اختیار نہیں رکھتیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ''دھاندلی'' کے خلاف دھرنے دیتے ہیں، انھیں اتنی بڑی دھاندلی نظر نہیں آتی۔ کیوں نظر نہیں آتی؟ اس کا جواب ان ہی سے طلب کیجیے۔