اسلام سلامتی کا دین

اسلام رنگ و نسل اور دیگر تفاخر کا سختی سے ناقد اور انہیں ہر سطح پر یکسر مسترد کرتا ہے

اسلام نے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور آپس میں تفرقہ ڈالنے سے سختی سے منع فرمایا ہے فوٹو : فائل

اسلام، سلامتی کا نام ہے۔ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملتا ہے تو اس پر سلامتی بھیجتا ہے۔

اسلام رنگ و نسل اور دیگر تفاخر کا سختی سے ناقد اور انہیں ہر سطح پر یکسر مسترد کرتا ہے۔ اسلام نے اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور آپس میں تفرقہ ڈالنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ زبانیں، قومیں اور قبائل صرف تعارف کے لیے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ تم میں کسی کالے کو گورے اور گورے کو کالے، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اگر کوئی افضل ہے تو صرف وہ جو تقوے اور پرہیز گاری میں بڑھ کر ہے۔

جناب رسالت مآب ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر رواداری، حسن سلوک اور انسانی احترام کی نادر و نایاب مثال پیش کی۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر اپنے بدترین دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جب آپ نے ارشاد فرمایا کہ آج تم سب سے کوئی بازپرس اور انتقام نہیں لیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے ہدایات جاری فرمائیں کہ کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہیں کیا جائے، جو اپنے گھر میں یا کسی چبوترے پر کھڑا ہو اسے امان ہے، جو نہتے ہوں وہ امان میں ہوں گے، صرف ان کے مقابل آیا جائے گا جو ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر آجائیں۔

اسلام نے جنگوں کے اصول بھی متعین فرمائے ہیں۔ اسلام نے جنگ کے دوران بھی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں اور نہتوں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ اسلامی احکامات کی رو سے حالت جنگ میں فصلوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، درختوں کو نہیں کاٹا جاسکتا اور نہ ہی پانی میں زہر ملایا جاسکتا ہے۔

اسلام نے انسانی جان کو کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانا قرار دیا ہے۔ اﷲ نے انسانوں کو اپنا کنبہ قرار دیا ہے۔


ایک جنگ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت اسامہ ؓ نے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا ہے جس نے حالت جنگ میں ان کی تلوار کی نوک کے نیچے کلمہ پڑھ لیا تھا، لیکن حضرت اسامہ ؓ نے اسے پھر بھی قتل کردیا تو آپ ﷺ انتہائی رنجیدہ ہوئے اور بار بار فرمایا کہ '' اے اﷲ میں اسامہ کے اس فعل کا ذمے دار نہیں ہوں۔''

نبی کریم ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت اسامہ ؓ نے کہا، یارسول اﷲ ﷺ اس نے تو موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھا تھا۔ یہ سن کر جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا،'' کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ وہ خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ رہا ہے۔''

عام لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسان جب تک انسان ہے اور سوچ رہا ہے وہ اختلاف کرے گا۔ تمام اختلافات کا حتمی فیصلہ صرف قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کرنے کے مجاز ہیں۔ انسان جب تک دنیا میں ہیں تحقیق اور تخلیق کریں گے۔ اپنی رائے قائم اور اس پر نظر ثانی کریں گے۔ صرف انبیاء کرام ؑ ہوتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ سے براہ راست ہدایات لیتے ہیں۔ عام انسان سے غلطی ہوسکتی ہے۔

نبی کریم حج الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا: ''تمہارے (مسلمانوں کے) خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچادی؟''

آج کچھ لوگ اسلام کے نام پر اسلام کی زریں تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں۔ اسلام نے انسانیت کے احترام کا درس دیا ہم نے انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا۔ اﷲ مصوّر حقیقی ہے اور انسان اس کا بنایا ہوا شاہکار۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم مصوّر کی تصویروں کی بے حرمتی اور انہیں خاک میں ملا کر اس مصوّر کے قرب کے طلب گار رہیں۔

ہمارا وطن عزیز فرقہ واریت اور لسانی تعصبات کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے تدارک کی کوششوں میں مصروف اداروں اور خفیہ ایجنسیز کے درمیان بامقصد اقدامات کے لیے موثر رابطوں کا فقدان ہے۔ سیکیوریٹی اداروں کے پاس دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا توڑ کیوں نہیں ہے؟ کیا سرکاری وسائل، دہشت گردی کے مسائل کے لیے ناکافی ہیں؟ اگر ناکافی ہیں تو انہیں ہم آہنگ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ شہر آزردہ میں معصوم لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے اور حکومت کا کام صرف لاشوں کی گنتی کرنا رہ گیا ہے۔
Load Next Story