اسرائیلی انتخابات
اسرائیلی ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق41 فیصد آبادی مقروض ہے اور انتہائی مشکل حالات میں ز ندگی گزار رہی ہے۔
ISLAMABAD:
17 ما رچ 2015ء میں اسرائیل میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر دا ئیں بازو کی لیکوڈ پارٹی جیتی ہے لیکن بائیں بازو کی 'اتاش' پارٹی قابل ذکر نشستیں حاصل کر کے ایک مضبوط حزب اختلاف بن گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے20 مارچ کو اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ 'نیتن یاہو اپنے چوتھے دور حکو مت میں جو را ستہ اختیار کرے گا وہ اتنا ہی پر اسرار اور مبہم ہو گا جتنا وہ خود ہے۔' بائیں بازو کی 'اتاش' نامی جماعت کے رہنما ایمن اودھے نے کھل کر صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اپنے ایک بیان میں ایمن اودھے نے کہا ہے کہ ''سرمایہ داروں اور کاروباری سیٹھوں کی یہ ریاست اسرائیل میں بسنے والے محروموں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔'' بائیں بازو کو صرف عرب اسرائیلوں میں ہی نہیں بلکہ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں میں بھی حمایت مل رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے ہر دور حکو مت میں حکمران طبقے اور سامراج کی خد مت گزاری کرتے ہوئے عوام پر معاشی اور سماجی حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق41 فیصد آبادی مقروض ہے اور انتہائی مشکل حالات میں ز ندگی گزار رہی ہے۔ گھروں کی قیمت اور کرائے میں پچھلے دو سال میں 55 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ محنت کشوں کی اجرت طویل عرصے سے منجمد ہے اور بے روزگا ری بڑھ رہی ہے۔ سماجی بہبود، تعلیم اور علاج کی ریاستی سہولیات واپس چھینی جا رہی ہیں۔
یہ سلسلہ پچھلے دو سال میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیکل بائیں بازو کو پہلی بار اسرائیلی پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس پس منظر میں اگر گہرائی میں اسرائیلی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محنت کش عوام کے دماغ میں یہودی حکمران طبقے کے خلاف نفرت کے شعلے بلند ہو رہے ہیں جس سے کسی بھی وقت پورے سماج میں بغاوت کی آگ بھڑک سکتی ہے اور نیتن یاہو کی یہ جیت پوری صہیونی ریاست کی شکست میں بدل سکتی ہے۔
اگست2011ء کی مثٓال ہمارے سامنے موجود ہے جب لاکھوں اسرائیلی محنت کش اور نوجوان تل ابیب، یروشلم، حیفہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر تھے۔ انقلاب مصر سے متاثر اس تحریک کا بنیادی نعرہ 'ایک مصری کی طرح آ گے بڑھو' تھا جو ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کے عوام مذہبی جنون اور صہیونی ریاست کی دہشت گردی کو نہ صرف مسترد کر تے ہیں بلکہ خود اس کا شکار بھی ہیں۔
ان مظاہروں میں چی گویرا کے پوسٹر بھی نمایاں تھے اور مبارک، اسد، نیتن یاہو مردہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔ اسرائیل سمیت مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمران امریکی سامراج کی سازشوں کے شکار ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں میں 35 فیصد یمنی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما طاہر مشہدی نے کہا کہ 'سعودیہ کو کسی بیرونی حملے کا خطرہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے پڑوسی مما لک فوجی اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں، سعودی عرب کو صرف اندرونی بغاوت کا خطرہ ہے۔ اسی لیے پا کستانی فوج کو طلب کیا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دا عش کو امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل فنڈنگ کر رہا ہے۔ اسی طرح دا خلی سطح پر عوامی بغاوت کو زائل کر نے کے لیے صہیونی حکمران خا رجی سطح پر جنگ اور انتشار کو مزید ہوا دیں گے۔ خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے معا شی زوال اور سفارتی کمزوری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کی مختلف علا قائی قوتیں بہت خود سر ہو گئی ہیں، جن میں ترکی، ایران، سعودی عرب، قطر اور اسرائیل سرفہرست ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ 'یمن جنگ میں ہم مشرق وسطیٰ کے سنی مسلمانوں کے سا تھ ہیں۔' انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو نے امریکی صدر اور وہائٹ ہائوس کو مطلع کیے بغیر ری پبلکن پارٹی کی دعوت پر امریکا کا دورہ کیا۔
امریکی کانگریس میں اس کی تقریر اوباما کی کھلی تذلیل کے مترادف تھی جس میں اس نے ایران کے ساتھ امریکا کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتخابات جوں جوں قریب آتے گئے نیتن یاہو کی زہر آلود لفاظی بھی بڑھتی چلی گئی جس میں آ خرکار اس نے فلسطینی ریا ست کے نظریے اور قیام کو ہی یکسر مسترد کر ڈالا۔ اس کا کم از کم ایک فائدہ تو خطے کے عوام کو یہ ہو گا کہ 'امن مذاکرات' کا ڈراما اب نہیں چل پائے گا۔
دہائیوں کے واقعات اور تجربات نے فلسطین کے عوام، خاص کر نوجوانوں پر یہ ٹھوس حقیقت واضح کی ہے کہ ایک انقلا بی لڑائی لڑے بغیر صہیونی ریاست کے قبضے اور درند گی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے نہ ہی ان کٹھ پتلی عرب حکمرانوں کے تخت اکھا ڑے جا سکتے ہیں جو اس کچل دینے وا لے استحصالی نظام میں خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عرب عوام غربت اور محرو می میں غرق ہیں۔
اکانومسٹ اپنے چودہ مارچ کے اداریے میں لکھتا ہے کہ 'عرب دنیا میں جہادیوں اور شیعہ ملیشیائوں کی با ہمی لڑا ئیوں کی وجہ سے ان کی بندوقوں کا رخ اسرائیل سے ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف ہو گیا ہے۔
وہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور اسی خلفشار میں اسرائیلی ریاست نے مصر اور عرب بادشاہتوں سے نیم خفیہ طور پر قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔'' نتین یاہو اور عرب بادشاہوں کے ایران امریکا مذاکرات اور دوسرے معاملات پر بیانات ہو بہو ایک جیسے ہیں اور ان کی پالیسیاں مشترک ہیں۔ عوام کو مذہب، قوم اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم کر نے وا لے یہ حکمران اپنے مفادات کے لیے یکجا ہیں، یہ سب کچھ اب بے نقاب ہو رہا ہے۔ خطے کے نہ ختم ہونے والے خون ریز انتشار سے نجات اور آ زادی فلسطین، اس نظام کے خاتمے سے منسلک ہے جس کو مسلط رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔
اس نظام کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار اسرائیل کے محنت کش عوام، پیداواری قوتیں، شہری اور نوجوانوں کا ہے۔ اسرائیل کے صہیونی حکمرانوں اور ریا ست کو اسرائیل کے عوام ہی شکست دے سکتے ہیں، جس طرح ویتنام پر 23 سال تک امریکی بمباری کے باوجود امریکی سامراج نے ویتنامیوں کے سامنے تب ہتھیار ڈالے جب وا شنگٹن میں لاکھوں امریکی شہری سڑکوں پہ نکل آئے جس میں پروفیسر نوم چومسکی بھی شریک تھے اور نعرے لگا رہے تھے کہ 'ویتنام پر بمباری بند کرو۔' برطا نوی سامراج کو بھی ہندوستان سے تب جانا پڑا جب برطانیہ کے عوام اپنے حکمرانوں پر شدید دبائو ڈالا۔ مصر، لیبیا، الجزائر، عراق اور شام میں بھی بادشاہتیں تب ختم ہوئیں جب وہاں کے عوام خود اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہتوں کا تختہ الٹ کر عوامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اسی طرح اب اسرائیلی عوام بھی2011ء کی طرح (77 لا کھ کی آبادی میں7 لا کھ لوگوں کی ہڑتال) پھر ایک بار اس سے زیادہ قوت کے سا تھ اٹھ کھڑے ہوں گے اور بغاوت کر کے اس صہیونی ریاست کا خاتمہ کر کے عوا م کی حکمرانی قائم کریں گے۔
17 ما رچ 2015ء میں اسرائیل میں ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر دا ئیں بازو کی لیکوڈ پارٹی جیتی ہے لیکن بائیں بازو کی 'اتاش' پارٹی قابل ذکر نشستیں حاصل کر کے ایک مضبوط حزب اختلاف بن گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے20 مارچ کو اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ 'نیتن یاہو اپنے چوتھے دور حکو مت میں جو را ستہ اختیار کرے گا وہ اتنا ہی پر اسرار اور مبہم ہو گا جتنا وہ خود ہے۔' بائیں بازو کی 'اتاش' نامی جماعت کے رہنما ایمن اودھے نے کھل کر صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اپنے ایک بیان میں ایمن اودھے نے کہا ہے کہ ''سرمایہ داروں اور کاروباری سیٹھوں کی یہ ریاست اسرائیل میں بسنے والے محروموں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔'' بائیں بازو کو صرف عرب اسرائیلوں میں ہی نہیں بلکہ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں میں بھی حمایت مل رہی ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے ہر دور حکو مت میں حکمران طبقے اور سامراج کی خد مت گزاری کرتے ہوئے عوام پر معاشی اور سماجی حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق41 فیصد آبادی مقروض ہے اور انتہائی مشکل حالات میں ز ندگی گزار رہی ہے۔ گھروں کی قیمت اور کرائے میں پچھلے دو سال میں 55 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ محنت کشوں کی اجرت طویل عرصے سے منجمد ہے اور بے روزگا ری بڑھ رہی ہے۔ سماجی بہبود، تعلیم اور علاج کی ریاستی سہولیات واپس چھینی جا رہی ہیں۔
یہ سلسلہ پچھلے دو سال میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیکل بائیں بازو کو پہلی بار اسرائیلی پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس پس منظر میں اگر گہرائی میں اسرائیلی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محنت کش عوام کے دماغ میں یہودی حکمران طبقے کے خلاف نفرت کے شعلے بلند ہو رہے ہیں جس سے کسی بھی وقت پورے سماج میں بغاوت کی آگ بھڑک سکتی ہے اور نیتن یاہو کی یہ جیت پوری صہیونی ریاست کی شکست میں بدل سکتی ہے۔
اگست2011ء کی مثٓال ہمارے سامنے موجود ہے جب لاکھوں اسرائیلی محنت کش اور نوجوان تل ابیب، یروشلم، حیفہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر تھے۔ انقلاب مصر سے متاثر اس تحریک کا بنیادی نعرہ 'ایک مصری کی طرح آ گے بڑھو' تھا جو ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کے عوام مذہبی جنون اور صہیونی ریاست کی دہشت گردی کو نہ صرف مسترد کر تے ہیں بلکہ خود اس کا شکار بھی ہیں۔
ان مظاہروں میں چی گویرا کے پوسٹر بھی نمایاں تھے اور مبارک، اسد، نیتن یاہو مردہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔ اسرائیل سمیت مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمران امریکی سامراج کی سازشوں کے شکار ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں میں 35 فیصد یمنی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما طاہر مشہدی نے کہا کہ 'سعودیہ کو کسی بیرونی حملے کا خطرہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے پڑوسی مما لک فوجی اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں، سعودی عرب کو صرف اندرونی بغاوت کا خطرہ ہے۔ اسی لیے پا کستانی فوج کو طلب کیا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دا عش کو امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل فنڈنگ کر رہا ہے۔ اسی طرح دا خلی سطح پر عوامی بغاوت کو زائل کر نے کے لیے صہیونی حکمران خا رجی سطح پر جنگ اور انتشار کو مزید ہوا دیں گے۔ خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے معا شی زوال اور سفارتی کمزوری کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کی مختلف علا قائی قوتیں بہت خود سر ہو گئی ہیں، جن میں ترکی، ایران، سعودی عرب، قطر اور اسرائیل سرفہرست ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ 'یمن جنگ میں ہم مشرق وسطیٰ کے سنی مسلمانوں کے سا تھ ہیں۔' انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو نے امریکی صدر اور وہائٹ ہائوس کو مطلع کیے بغیر ری پبلکن پارٹی کی دعوت پر امریکا کا دورہ کیا۔
امریکی کانگریس میں اس کی تقریر اوباما کی کھلی تذلیل کے مترادف تھی جس میں اس نے ایران کے ساتھ امریکا کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتخابات جوں جوں قریب آتے گئے نیتن یاہو کی زہر آلود لفاظی بھی بڑھتی چلی گئی جس میں آ خرکار اس نے فلسطینی ریا ست کے نظریے اور قیام کو ہی یکسر مسترد کر ڈالا۔ اس کا کم از کم ایک فائدہ تو خطے کے عوام کو یہ ہو گا کہ 'امن مذاکرات' کا ڈراما اب نہیں چل پائے گا۔
دہائیوں کے واقعات اور تجربات نے فلسطین کے عوام، خاص کر نوجوانوں پر یہ ٹھوس حقیقت واضح کی ہے کہ ایک انقلا بی لڑائی لڑے بغیر صہیونی ریاست کے قبضے اور درند گی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے نہ ہی ان کٹھ پتلی عرب حکمرانوں کے تخت اکھا ڑے جا سکتے ہیں جو اس کچل دینے وا لے استحصالی نظام میں خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عرب عوام غربت اور محرو می میں غرق ہیں۔
اکانومسٹ اپنے چودہ مارچ کے اداریے میں لکھتا ہے کہ 'عرب دنیا میں جہادیوں اور شیعہ ملیشیائوں کی با ہمی لڑا ئیوں کی وجہ سے ان کی بندوقوں کا رخ اسرائیل سے ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف ہو گیا ہے۔
وہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور اسی خلفشار میں اسرائیلی ریاست نے مصر اور عرب بادشاہتوں سے نیم خفیہ طور پر قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔'' نتین یاہو اور عرب بادشاہوں کے ایران امریکا مذاکرات اور دوسرے معاملات پر بیانات ہو بہو ایک جیسے ہیں اور ان کی پالیسیاں مشترک ہیں۔ عوام کو مذہب، قوم اور نسل کی بنیادوں پر تقسیم کر نے وا لے یہ حکمران اپنے مفادات کے لیے یکجا ہیں، یہ سب کچھ اب بے نقاب ہو رہا ہے۔ خطے کے نہ ختم ہونے والے خون ریز انتشار سے نجات اور آ زادی فلسطین، اس نظام کے خاتمے سے منسلک ہے جس کو مسلط رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔
اس نظام کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار اسرائیل کے محنت کش عوام، پیداواری قوتیں، شہری اور نوجوانوں کا ہے۔ اسرائیل کے صہیونی حکمرانوں اور ریا ست کو اسرائیل کے عوام ہی شکست دے سکتے ہیں، جس طرح ویتنام پر 23 سال تک امریکی بمباری کے باوجود امریکی سامراج نے ویتنامیوں کے سامنے تب ہتھیار ڈالے جب وا شنگٹن میں لاکھوں امریکی شہری سڑکوں پہ نکل آئے جس میں پروفیسر نوم چومسکی بھی شریک تھے اور نعرے لگا رہے تھے کہ 'ویتنام پر بمباری بند کرو۔' برطا نوی سامراج کو بھی ہندوستان سے تب جانا پڑا جب برطانیہ کے عوام اپنے حکمرانوں پر شدید دبائو ڈالا۔ مصر، لیبیا، الجزائر، عراق اور شام میں بھی بادشاہتیں تب ختم ہوئیں جب وہاں کے عوام خود اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہتوں کا تختہ الٹ کر عوامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اسی طرح اب اسرائیلی عوام بھی2011ء کی طرح (77 لا کھ کی آبادی میں7 لا کھ لوگوں کی ہڑتال) پھر ایک بار اس سے زیادہ قوت کے سا تھ اٹھ کھڑے ہوں گے اور بغاوت کر کے اس صہیونی ریاست کا خاتمہ کر کے عوا م کی حکمرانی قائم کریں گے۔