بس میں گھس کر لوگوں کو مارنا کراچی کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے
ماضی میں کراچی میں بسوں کو بارود سے بھری موٹرسائیکل یا گاڑی کے ذریعے نشانا بنایا گیا
ISLAMABAD:
دہشت گردوں کی جانب سے بڑی تعداد میں جانی نقصان پہنچانے کی حکمت عملی تبدیل کر کے گلزار ہجری میں اسماعیلی کمیونٹی کی بس میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے خواتین سمیت 44 افراد کی ہلاکت کراچی کی تاریخ میں پہلی واردات ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑا اس سے قبل ماضی میں دہشت گردوں نے بڑی تعداد میں جانی نقصان پہنچانے کے لیے بسوں کو بارود سے بھری موٹر سائیکل یا گاڑی کواستعمال کرکے نشانہ بنایا جسے سڑک کے کنارے کھڑا کر کے قریب سے گزرنے والی بس کو بم دھماکے کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا تھا ۔
دہشت گردوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کے لیے اس سے قبل ماضی میں کار ساز ، ڈیفنس اور بلدیہ ٹاؤن حب ریور روڈ پر نیوی کی بسوں ، نیشنل ہائی وے پر رزاق آباد سے جانے والی جانے والی اسپیشل سیکیورٹی یونٹ ( ایس ایس یو) کے کمانڈوز کی بسوں ، کورنگی کراسنگ پر ریپڈ رسپانس فورس ( آر آر ایف ) کے اہلکاروں کے ٹرک ، شارع قائدین فلائی اوور پر چہلم حضرت امام حسین کے موقع پر اعزا داروں کی بس کو سڑک کے کنارے بارود سے بھری ہوئی موٹر سائیکل اور گاڑی کے ذریعے نشانہ بنایا جا چکا ہے جبکہ رینجرز اور پولیس کی موبائلوں کو بھی سڑک کنارے نصب کیے جانے والے بموں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ۔
دہشت گردوں کی جانب سے اعلیٰ پولیس افسران کو بھی نشانہ بنانے کے لیے سڑک کے کنارے بارودی سے بھری گاڑیوں کا استعمال کیا گیا جس میں لیاری ایکسپریس وے عیسیٰ نگری انٹر چینج پر ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم اور ڈیفنس میں ایس پی اسپشیل انویسٹی گیشن یونٹ فاروق اعوان کو نشانہ بنانے کے واقعات زیادہ پرانے نہیں ہیں ۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے بسوں میں گھس کر فائرنگ کے واقعات زیادہ تر صوبہ بلوچستان میں پیش آئے ہیں جبکہ گلزار ہجری والا پہلا واقعہ ہے جس میں دہشت گردوں نے اسماعیلی کمیونٹی کی خواتین اور مردوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس میں بڑی تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑا ،ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کی اس نئی حکمت عملی کا مختلف پہلوؤں پر باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات کا سراغ لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے حکمت عملی واقعی تبدیل کی ہے یا کوئی نیا گروپ شہر میں دہشت گردی پھیلانے کیلیے سرگرم ہے۔
دہشت گردوں کی جانب سے بڑی تعداد میں جانی نقصان پہنچانے کی حکمت عملی تبدیل کر کے گلزار ہجری میں اسماعیلی کمیونٹی کی بس میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے خواتین سمیت 44 افراد کی ہلاکت کراچی کی تاریخ میں پہلی واردات ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑا اس سے قبل ماضی میں دہشت گردوں نے بڑی تعداد میں جانی نقصان پہنچانے کے لیے بسوں کو بارود سے بھری موٹر سائیکل یا گاڑی کواستعمال کرکے نشانہ بنایا جسے سڑک کے کنارے کھڑا کر کے قریب سے گزرنے والی بس کو بم دھماکے کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا تھا ۔
دہشت گردوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے کے لیے اس سے قبل ماضی میں کار ساز ، ڈیفنس اور بلدیہ ٹاؤن حب ریور روڈ پر نیوی کی بسوں ، نیشنل ہائی وے پر رزاق آباد سے جانے والی جانے والی اسپیشل سیکیورٹی یونٹ ( ایس ایس یو) کے کمانڈوز کی بسوں ، کورنگی کراسنگ پر ریپڈ رسپانس فورس ( آر آر ایف ) کے اہلکاروں کے ٹرک ، شارع قائدین فلائی اوور پر چہلم حضرت امام حسین کے موقع پر اعزا داروں کی بس کو سڑک کے کنارے بارود سے بھری ہوئی موٹر سائیکل اور گاڑی کے ذریعے نشانہ بنایا جا چکا ہے جبکہ رینجرز اور پولیس کی موبائلوں کو بھی سڑک کنارے نصب کیے جانے والے بموں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ۔
دہشت گردوں کی جانب سے اعلیٰ پولیس افسران کو بھی نشانہ بنانے کے لیے سڑک کے کنارے بارودی سے بھری گاڑیوں کا استعمال کیا گیا جس میں لیاری ایکسپریس وے عیسیٰ نگری انٹر چینج پر ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم اور ڈیفنس میں ایس پی اسپشیل انویسٹی گیشن یونٹ فاروق اعوان کو نشانہ بنانے کے واقعات زیادہ پرانے نہیں ہیں ۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے بسوں میں گھس کر فائرنگ کے واقعات زیادہ تر صوبہ بلوچستان میں پیش آئے ہیں جبکہ گلزار ہجری والا پہلا واقعہ ہے جس میں دہشت گردوں نے اسماعیلی کمیونٹی کی خواتین اور مردوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جس میں بڑی تعداد میں جانی نقصان اٹھانا پڑا ،ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کی اس نئی حکمت عملی کا مختلف پہلوؤں پر باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات کا سراغ لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے حکمت عملی واقعی تبدیل کی ہے یا کوئی نیا گروپ شہر میں دہشت گردی پھیلانے کیلیے سرگرم ہے۔