’’استعفیٰ نہ ڈیسوں‘‘
اگر قائم علی شاہ کی نظر میں یہی بہترین کارکردگی ہے تو جانے کونسی بُری کارکردگی استعفے کے میرٹ پر پوری اترے گی؟
''دہشت گردی تو تمام صوبوں میں ہورہی ہے ہم استعفیٰ کیوں دیں؟ اگر کارکردگی نہ دکھا سکے تو حکومت چھوڑ دیں گے''، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا یہ بیان اس وقت آیا جب صفورا گوٹھ میں دہشت گردوں کی بولتی بندوقیں بس کے 45 بے بس مسافروں کی زندگی کا سفر ختم کر چکی تھیں۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد، اِس بار بھی سندھ سرکار کے ری ایکشن کی وہی گھسی پٹی فلم چلی جو ہر بار چلتی ہے۔
وہی پرانا فارمولا۔ سب سے پہلے مذمتی بیان آئے، حسب روایت اور حسب ضرورت غم و غصہ اور ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لفظی گولے برسے، پولیس افسران معطل ہوئے، رپورٹ طلب ہوئی، تحقیقات کا روایتی حکم آیا اور مقتول کے خاندان کو انصاف دینے کی بجائےپانچ پانچ لاکھ امداد کا مرہم رکھ کر شاید انمول جانوں کا مول لگا دیا گیا اور پھر ایک دن کے لئے ملک میں سوگ کا اعلان کرکے فرض پورا ہوگیا!
لیکن آگے کیا ہوگا؟ شاید وہی جو ماضی میں ہوتا آرہا ہے۔ ملزموں کےخاکے بنیں گے، کمیٹی بنے گی اور مجرم پکڑنے کا 'مشن امپوسیبل' شروع ہوجائے گا۔ پولیس کو نہ مجرم ملے گا اور نہ لواحقین کو انصاف۔ سانپ نکلنے کے بعد صرف لکیر پیٹی جائے گی اور ماضی سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھا جائے گا۔ یہ وہ ملک ہےجہاں انسانی زندگی شائد بہت ہی سستی ہے۔ دہشت گردی سے ہزاروں افراد کی جان جاچکی ہے، قاتل دندناتے پھرتے ہیں، گھات لگا کر قتل کرتے ہیں، بسوں میں گھس کر خون کی ہولی کھیلتے ہیں اور بار بار اپنے ناپاک عزائم کو مکمل کرکے سب کو زبان دکھاتے ہوئے روانہ ہوجاتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار سرکار 'خواب غفلت' سے بیدار ہوجائے۔ ایسے سانحات پر کوئی ذمہ دار نہ شرمندہ ہوتا ہے اور نہ اپنےعہدہ سےمستعفی ہوتا ہے۔
قائم علی شاہ کی مثال ہی لے لیں۔ موصوف مستعفی کیوں ہوں؟ قائم صاحب تو عہدے پر قائم رہنا چاہتے ہیں، اِسی لئے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ''دہشت گردی تو تمام صوبوں میں ہو رہی ہے ہم استعفیٰ کیوں دیں؟ اگر کارکردگی نہ دکھا سکے تو حکومت چھوڑ دیں گے''۔ میں تو اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شاہ صاحب نے یہ بیان واقعی سنجیدگی میں دیا ہے یا قوم سے مذاق کر رہے ہیں؟ اس سادگی یا ہٹ دھرمی پر کون نہ مرجائے۔ وزیر اعلیٰ سندھ صاحب نے آئی جی سندھ کو تو عہدے سے فارغ کردیا لیکن خود اپنی سیٹ کے ساتھ چمٹے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں وہ بہت ہی اعلیٰ وزیر اعلیٰ ہیں۔ تو آئیے سندھ حکومت کی ''بہترین کارگردگی'' کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
مٹھی میں پانی اور روٹی کو ترستے سینکڑوں تھر باسیوں کی زندگیاں مٹی میں مل گئیں۔ ریگستان کے سینے پر کئی ننھی قبریں بن گئیں۔ تھر والوں کو پانی کی پیاس ہے، حکومت سے امداد کی آس ہے لیکن قائم سرکار ریگستان کی تپتی ریت میں بے حسی اور نااہلی کی اسی ریت پر قائم ہے، کیا اسے کہتے ہیں گڈگورننس؟
سندھ میں تعلیم اور امتحانات ہی حکومت کی کارکردگی کا امتحان لینے کے لئے کافی ہیں۔ پرچوں میں پرچی چلتی ہے اور نقل کو عقل پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ڈگریاں برائے فروخت ہیں اور تعلیمی ادارے بیمار۔ سندھ دھرتی کے بیٹے علم سے محروم ہیں لیکن سائیں سرکار خود کو کارکردگی میں پورے نمبر دے رہی ہے۔ کیا اسے کہتے ہیں گڈ گورننس؟
سمندر کنارے آباد شہر کراچی پانی کو ترس رہا ہے لیکن سائیں سرکار کو چلو بھر پانی کہیں نظر نہیں آتا۔ شہری پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کے دعوے کرنے والے سائیں سرکار پانی تک نہ دے سکی، حد تو یہ ہے کہ کراچی میں اب جنازے کو غسل کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہے، مگر شرم سے پانی پانی ہونے کے بجائے، وزیر اعلیٰ صاحب فرماتے ہیں، ''استعفیٰ نہیں دوں؟ اگر کارکردگی نہ دکھائی تو حکومت چھوڑ دیں گے''۔
عوام کا سوال ہے کہ نااہلی کے سمندر میں غوطے کھانے والی سرکار اگر پانی نہ دے سکے تو کم از کم استعفیٰ تو دے دے لیکن سائیں کی منطق ہی نرالی ہے، استعفیٰ تو تب دیں جب کارکردگی بری ہو۔ یہاں تو 'آل از ویل' کی رٹ نے اپنی نااہلی کو بہترین کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ میں تبدیل کررہی ہے۔
کراچی شہر کو ایک سے بڑھ کر ایک بیماریاں لگی ہیں۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم اور جانے کیا کیا، لیکن ان تمام حالات کے باوجود سائیں سرکار کی کارکردگی ابھی استعفیٰ دینے والی نہیں۔ مینجمنٹ خود بیمار ہوگی تو سماجی برائیاں ٹھیک کرنے کیا آسمان سے فرشتے آئیں گے؟ آج پھر کراچی میں 45 لاشیں گرگئیں۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والی سندھ سرکار عوام کی نظروں سے بھی گرگئی لیکن سائیں سرکار جانے کونسی ہواؤں میں اڑ رہی ہے۔ اگر قائم علی شاہ کی نظر میں یہی بہترین کارکردگی ہے تو جانے وہ کونسی بُری کارکردگی استعفے کے میرٹ پر پوری اترے گی؟
دہشت گردوں نے بس میں سوار نہتے مسافروں کو گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔۔۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کے ٹھیکیدار شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود سیکیورٹی حصار کے بغیر باہر نہیں آتے۔ عوام مر رہے ہیں لیکن اُسی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے 45 گاڑیوں کے قافلے میں آکر صفورا گوٹھ کے زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں اور اسپتال جا کر زخمیوں کے زخموں پر وی آئی پی کلچر کا نمک چھڑکتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہماری کارکردگی اچھی ہے، ''استعفی نہیں دوں گا''۔
اب پتہ نہیں کہ سندھ حکومت کو بری کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ کون دے گا؟
عزت مآب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاة صاحب۔ اگر آپ کی کارکردگی استعفیٰ کے میرٹ پر پوری نہیں اترتی تو ایک نظر الف اعلان اور ایس ڈی پی آئی نامی غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹ پر ڈال لیں جو تعلیم کے لحاظ سے سندھ کو بدترین صوبہ قرار دے چکی ہے۔
اگر پھر بھی یقین نہیں آتا تو گڈ گورننس پر پلڈاٹ کا سروے ہی دیکھ لیں جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں سندھ کی کارکردگی سب سے کم تر ہے لیکن شاید آپ کی نظر میں یہ سب جھوٹ ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کے بجائے دودھ بہہ رہا ہے، کراچی پھر روشینوں کا شہر بن چکا ہے، سندھ کے تعلیمی اداروں میں طلباء باہر سے پڑھنے آتے ہیں، کرپشن صفر ہوچکی ہے، رشوت کا بازار ٹھنڈا پڑچکا ہے اور قانون کی عملداری ہر جگہ قائم ہے، اس لئے تو آپ کا نام بھی قائم ہے آپ کا عہدہ بھی قائم ہے اور آپکی حکومت بھی قائم ہے۔ آپ اپنے عزم پر بھی قائم رہیں کہ استعفٰی تو بالکل بھی نہیں بنتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس