بک ریویو گلزار آواز میں لپٹی خاموشی
’’آواز میں لپٹی خاموشی‘‘ معنویت کے اعتبار سے ایک خاص صوتی معنویت رکھتا ہے تو اندر نجانے کتنے اسرار پوشیدہ ہوں گے۔
گلزار کے ٹیلی ڈرامہ ''مرزا غالب'' کی 14،15 قسطیں ہم نے ڈاون لوڈ کی ہوئی ہیں۔ جب ذرا کتاب بینی سے اکتاہٹ سی محسوس ہوتی ہے تو اس کی ایک دو قسطیں دیکھ لیتے ہیں یا یوں کہیے کہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس موندھی ہوئی کیفیت میں مرزا غالب کی غزلیں بہت لطف دیتی ہیں۔ موسیقی کی لے ختم ہوتے ہی آنکھیں کھولتے ہیں تو نصیرالدین شاہ غالب کے روپ میں نظر آنے لگتے ہیں، ہمیں گلزار کے بارے میں تو کچھ زیادہ پتہ نہیں ہے ہمارا خیال تھا کہ یہ نامور لکھاری خود کو صرف گلزار کیوں لکھتا ہے، پھر خود اپنے خیال کا جواب بھی دے دیا کہ ہندو معاشرے میں مسلمانوں کو زندہ رہنے کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اس لئے گلزار اپنے نام کے آگے کچھ نہیں لکھتا ہوگا۔
خیر مجھے کیا، مجھے تو اس کا کام اچھا لگتا ہے، مرزا غالب میں غالب کو حقیقت میں مجسم کر دکھایا ہے گلزار نے۔ لیکن ایک کسک سی محسوس ہوتی رہی ہمیشہ کہ سابقے لاحقے کے بغیر گلزار کوئی قابلِ تکریم نام نہیں ہے، جسے کوئی لاوارث گل شیر، ایک نوجوان لکھاری جس نے گلزار کو سمجھا اور اسی کا ہو کر رہ گیا۔ گلزار کیا ہے؟ پہلی بار برصغیر میں گلزار پر اس قسم کا کام ہوا ہے، گل شیر اُس وقت یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ قانون میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی کام سرانجام دے رہے ہیں۔
''آواز میں لپٹی خاموشی'' جو گل شیر بٹ کی تخلیق ہے، بک کارنر جہلم کے امر شاہد کے توسط سے پڑھنے کا موقع ملا، پہلے تو ہمیں نام نے ہی سوچنے پر مجبور کر دیا، آواز کی بے آوازی نے ہمیں مجبور کیا کہ جب نام ہی اپنی معنویت کے اعتبار سے ایک خاص صوتی معنویت رکھتا ہے تو اندر نجانے کتنے اسرار پوشیدہ ہوں گے۔
آغاز ہی میں گلزار صاحب لکھا نظر آیا، اچھا تو گل شیر نے گلزار کو خط لکھا ہے لیکن گل شیر سے بھی رہا نہیں گیا اسے بھی سابقے لاحقے کے بغیر گلزار اچھا نہیں لگا اس لئے اس نے اور کچھ نہیں تو صاحب تو لگا ہی دیا۔ یہ پڑھ کر اپنے اندر نجانے کس بات کی تسکین محسوس کی۔ لیکن ذھن میں ایک جھناکا سا ہوا ''آپ کی شخصیت کو پر در پرت کھولتے ہوئے بچپن تک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اصل نام یا یوں کہیئے کہ پیدائشی نام سمپورن سنگھ ہے''۔ ہندو ہیں شاید لیکن نہیں یار سکھ ہیں شاید کیونکہ سنگھ لگا ہوا ہے جنم پتری نام میں ذھن نے خود ہی سوال کیا خود ہی خواب دیا۔ چلو چھوڑو یہ ذھن کھپانے کا کام گل شیر پر چھوڑتے ہیں جوان آدمی ہے۔ گلزار کا عاشق بھی جانے کب سے گلزار پر کام کر رہا ہے، میرے بوڑھے ذھن نے مزید سوچنے سے انکار کرتے ہوئے گل شیر کے گلزار صاحب کو لکھے ہوئے خط کو آگے پڑھنے کی صلاح دی۔
یار یہ خط ہے یا دوستوں کے درمیان مکالمہ جس میں موضوعِ سخن صرف گلزار ہیں، میرا بوڑھا ذھن پھر خاموش نہ رہ سکا۔ او کوڑ مغز، میرے اندر سے کوئی بولا، یہ خط ہی ہے جس میں گل شیر اپنے دوستوں کے درمیان گلزار پر ہونے والی گفتگو اور دوستوں کے اٹھائے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات کے ذریعے گلزار کی شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب چپ کر تسلسل توڑ دیتا ہے مداخلت کرکے میرے اندر سے کسی نے میرے بوڑھے ذھن کو ڈانٹا۔
گلزار صاحب اور مذھب کے مابین تعلق کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ مذہبی رسومات کو گناہ و ثواب سے قطع نظر ثقافت کے خوبصورت پہلو کے طور پر مناتے ہیں۔ ان رسومات سے کہانیوں کے کردار، مکالمے، حوالے اور علامتیں ڈھونڈتے ہیں۔ خاور نے مذہب کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بات کی۔ بھائی گلزار صاحب تو سبھی مذاہب اور مذہبی لوگوں کا احترام کرنے والوں میں شامل ہیں اور عالم گیر بھائی چارے کی تبلیغ کرتے ہیں، لیکن گلزار صاحب کی کوئی بھی فلم مسلمان کردار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ان کی نظموں میں بھی مذاہب ایک ساتھ ہوتے ہیں۔
میرا بوڑھا ذھن رہ نہ سکا کہنے لگا یہ بات تو درست ہے مرزا غالب میں مسلمان کرداروں کی بھرمار ہے، ویسے یار وہ اپنے نام کے ساتھ کوی لاحقہ کیوں نہیں لگاتے؟ گلزار صاحب اپنے نام کے حوالے سے بڑے Possessive ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ بھی نہیں لگانا چاہتے بلکہ ایک دفعہ پنجابی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تو تب بھی انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ کرنا مناسب نہیں سمجھا، گل شیر نے میری تسلی کراتے ہوئے گلزار صاحب کو بتایا۔
گل شیر نے بات آگے بڑھانے کے لئے دوستوں کے تین چار کردار تراشے ہوئے ہیں جن کے ذریعے کبھی وہ دینہ کی ان گلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں گلزار کا جنم ہوا، جس نے دینہ کو سمجھ لیا اس نے گلزار صاحب کو جان لیا۔ دینہ ان کا آغاز ہے، ان کا ماضی ہے، ان کا ضمیر ہے، ان کا مذہب ہے، ان کا اصل گھر ہے۔ گل شیر نے ایک سانس میں یہ سب کچھ کہہ ڈالا جسے مکتب کا بچہ اپنے قابلِ احترام استاد کے سامنے ایک سانس میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دینہ گلزار صاحب کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ دینہ نہ صرف ان کو سوچ دیتا ہے بلکہ سوچ اور فکر کو شکل دینے کے لئے لفظ، علامتیں، استعارے، تشبیہات اور بات کرنے کا ڈھنگ بھی۔ یہ بات تو تم صحیح کہتے ہو گل شیر دھرتی پسند مصنفین سے دھرتی کی خوشبو کوئی نہیں نکال سکتا، میرے بوڑھے ذھن نے پھر لقمہ دیا۔ میں داستان جاری رکھوں یا اپنی داستان کو سمیٹ لوں، گل شیر نے ذرا مصنوعی غصے سے کہا، تو میرے بوڑھے ذھن نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
اشفاق احمد کے نزدیک، ،،گلزار صاحب کی روحانی اور آتمائی پروگرامنگ کا ذمہ دار دینہ ہے جس نے اس کے فن کو منفرد جلا بخش کر گلزار سے مختص کر دیا،،
میرے اندر بیٹھے سوچتے بوڑھے نے چپ سادھ لی تھی اور گل شیر اسے دینہ سے فلمستان، گلزار کی فلموں اور ان کی فلموں کے کردار خود کشی کیوں کرتے ہیں جیسے سوالوں اور ان کے جوابات میں الجھاتا ہوا گلزار کی ذاتی زندگی کے بارے میں بتاتا ہو۔ گلزار کے کام کی مکمل تصویر دکھاتا ہوا ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی زبان سے کہلواتا ہے کہ گلزار بہت پر فریب فن کار ہے ہر قدم پر جل دے جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو یہ منفرد و عقیدت مند گل شیر بٹ اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتا تھا۔
پوری کتاب ایک خط ہے، بائیوگرافی ہے، عقید ت کا اظہار ہے، اپنے اسلوب کے اعتبار ایک خط کے ذریعے سوانح لکھنے کا اچھوتا انداز ہے
نثر میں شاعری پڑھنے کے لئے ''گلزار، آواز میں لپٹی خاموشی'' ایک عمدہ نثری مجموعہ ہے جسے گگن شاہد اور امر شاہد نے بڑے تزئین و آرائش کے ساتھ بک کارنر پرنٹرز جہلم سے شائع کیا ہے، 208 صفحات کے اس مجموعے کی قیمت 600 روپے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
خیر مجھے کیا، مجھے تو اس کا کام اچھا لگتا ہے، مرزا غالب میں غالب کو حقیقت میں مجسم کر دکھایا ہے گلزار نے۔ لیکن ایک کسک سی محسوس ہوتی رہی ہمیشہ کہ سابقے لاحقے کے بغیر گلزار کوئی قابلِ تکریم نام نہیں ہے، جسے کوئی لاوارث گل شیر، ایک نوجوان لکھاری جس نے گلزار کو سمجھا اور اسی کا ہو کر رہ گیا۔ گلزار کیا ہے؟ پہلی بار برصغیر میں گلزار پر اس قسم کا کام ہوا ہے، گل شیر اُس وقت یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ قانون میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی کام سرانجام دے رہے ہیں۔
''آواز میں لپٹی خاموشی'' جو گل شیر بٹ کی تخلیق ہے، بک کارنر جہلم کے امر شاہد کے توسط سے پڑھنے کا موقع ملا، پہلے تو ہمیں نام نے ہی سوچنے پر مجبور کر دیا، آواز کی بے آوازی نے ہمیں مجبور کیا کہ جب نام ہی اپنی معنویت کے اعتبار سے ایک خاص صوتی معنویت رکھتا ہے تو اندر نجانے کتنے اسرار پوشیدہ ہوں گے۔
آغاز ہی میں گلزار صاحب لکھا نظر آیا، اچھا تو گل شیر نے گلزار کو خط لکھا ہے لیکن گل شیر سے بھی رہا نہیں گیا اسے بھی سابقے لاحقے کے بغیر گلزار اچھا نہیں لگا اس لئے اس نے اور کچھ نہیں تو صاحب تو لگا ہی دیا۔ یہ پڑھ کر اپنے اندر نجانے کس بات کی تسکین محسوس کی۔ لیکن ذھن میں ایک جھناکا سا ہوا ''آپ کی شخصیت کو پر در پرت کھولتے ہوئے بچپن تک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اصل نام یا یوں کہیئے کہ پیدائشی نام سمپورن سنگھ ہے''۔ ہندو ہیں شاید لیکن نہیں یار سکھ ہیں شاید کیونکہ سنگھ لگا ہوا ہے جنم پتری نام میں ذھن نے خود ہی سوال کیا خود ہی خواب دیا۔ چلو چھوڑو یہ ذھن کھپانے کا کام گل شیر پر چھوڑتے ہیں جوان آدمی ہے۔ گلزار کا عاشق بھی جانے کب سے گلزار پر کام کر رہا ہے، میرے بوڑھے ذھن نے مزید سوچنے سے انکار کرتے ہوئے گل شیر کے گلزار صاحب کو لکھے ہوئے خط کو آگے پڑھنے کی صلاح دی۔
یار یہ خط ہے یا دوستوں کے درمیان مکالمہ جس میں موضوعِ سخن صرف گلزار ہیں، میرا بوڑھا ذھن پھر خاموش نہ رہ سکا۔ او کوڑ مغز، میرے اندر سے کوئی بولا، یہ خط ہی ہے جس میں گل شیر اپنے دوستوں کے درمیان گلزار پر ہونے والی گفتگو اور دوستوں کے اٹھائے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات کے ذریعے گلزار کی شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ اب چپ کر تسلسل توڑ دیتا ہے مداخلت کرکے میرے اندر سے کسی نے میرے بوڑھے ذھن کو ڈانٹا۔
گلزار صاحب اور مذھب کے مابین تعلق کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ مذہبی رسومات کو گناہ و ثواب سے قطع نظر ثقافت کے خوبصورت پہلو کے طور پر مناتے ہیں۔ ان رسومات سے کہانیوں کے کردار، مکالمے، حوالے اور علامتیں ڈھونڈتے ہیں۔ خاور نے مذہب کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بات کی۔ بھائی گلزار صاحب تو سبھی مذاہب اور مذہبی لوگوں کا احترام کرنے والوں میں شامل ہیں اور عالم گیر بھائی چارے کی تبلیغ کرتے ہیں، لیکن گلزار صاحب کی کوئی بھی فلم مسلمان کردار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ان کی نظموں میں بھی مذاہب ایک ساتھ ہوتے ہیں۔
میرا بوڑھا ذھن رہ نہ سکا کہنے لگا یہ بات تو درست ہے مرزا غالب میں مسلمان کرداروں کی بھرمار ہے، ویسے یار وہ اپنے نام کے ساتھ کوی لاحقہ کیوں نہیں لگاتے؟ گلزار صاحب اپنے نام کے حوالے سے بڑے Possessive ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ بھی نہیں لگانا چاہتے بلکہ ایک دفعہ پنجابی یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی تو تب بھی انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ کرنا مناسب نہیں سمجھا، گل شیر نے میری تسلی کراتے ہوئے گلزار صاحب کو بتایا۔
گل شیر نے بات آگے بڑھانے کے لئے دوستوں کے تین چار کردار تراشے ہوئے ہیں جن کے ذریعے کبھی وہ دینہ کی ان گلیوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں گلزار کا جنم ہوا، جس نے دینہ کو سمجھ لیا اس نے گلزار صاحب کو جان لیا۔ دینہ ان کا آغاز ہے، ان کا ماضی ہے، ان کا ضمیر ہے، ان کا مذہب ہے، ان کا اصل گھر ہے۔ گل شیر نے ایک سانس میں یہ سب کچھ کہہ ڈالا جسے مکتب کا بچہ اپنے قابلِ احترام استاد کے سامنے ایک سانس میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دینہ گلزار صاحب کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ دینہ نہ صرف ان کو سوچ دیتا ہے بلکہ سوچ اور فکر کو شکل دینے کے لئے لفظ، علامتیں، استعارے، تشبیہات اور بات کرنے کا ڈھنگ بھی۔ یہ بات تو تم صحیح کہتے ہو گل شیر دھرتی پسند مصنفین سے دھرتی کی خوشبو کوئی نہیں نکال سکتا، میرے بوڑھے ذھن نے پھر لقمہ دیا۔ میں داستان جاری رکھوں یا اپنی داستان کو سمیٹ لوں، گل شیر نے ذرا مصنوعی غصے سے کہا، تو میرے بوڑھے ذھن نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
اشفاق احمد کے نزدیک، ،،گلزار صاحب کی روحانی اور آتمائی پروگرامنگ کا ذمہ دار دینہ ہے جس نے اس کے فن کو منفرد جلا بخش کر گلزار سے مختص کر دیا،،
میرے اندر بیٹھے سوچتے بوڑھے نے چپ سادھ لی تھی اور گل شیر اسے دینہ سے فلمستان، گلزار کی فلموں اور ان کی فلموں کے کردار خود کشی کیوں کرتے ہیں جیسے سوالوں اور ان کے جوابات میں الجھاتا ہوا گلزار کی ذاتی زندگی کے بارے میں بتاتا ہو۔ گلزار کے کام کی مکمل تصویر دکھاتا ہوا ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی زبان سے کہلواتا ہے کہ گلزار بہت پر فریب فن کار ہے ہر قدم پر جل دے جاتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو یہ منفرد و عقیدت مند گل شیر بٹ اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتا تھا۔
پوری کتاب ایک خط ہے، بائیوگرافی ہے، عقید ت کا اظہار ہے، اپنے اسلوب کے اعتبار ایک خط کے ذریعے سوانح لکھنے کا اچھوتا انداز ہے
ابھی نہ پردہ گراو، کہ داستان آگے اور بھی ہے
ابھی نہ پردہ گراو، ٹھہرو۔۔۔
ابھی تو ٹوٹی ہے کچی مٹی، ابھی تو بس جسم ہی گرے ہیں
ابھی تو کردار ہی بجھے ہیں۔۔۔
ابھی سلگتے ہیں روح کے غم،
ابھی دھڑکتے ہیں درد دل کے
ابھی تو احساس جی رہا ہے۔۔۔
یہ لو بچا لو، جو تھک کے کردار کی ہتھیلی سے گر پڑی ہے
یہ لوَ بچا لو، یہیں سے اُٹھے گی جستجو پھر بگولا بن کر
یہیں سے اُٹھے گا کوئی کردار پھر اسی روشنی کو لے کر
کہیں تو انجام و جستجو کے سرے ملیں گے
ابھی نہ پردہ گراو، ٹھہرو۔۔۔
نثر میں شاعری پڑھنے کے لئے ''گلزار، آواز میں لپٹی خاموشی'' ایک عمدہ نثری مجموعہ ہے جسے گگن شاہد اور امر شاہد نے بڑے تزئین و آرائش کے ساتھ بک کارنر پرنٹرز جہلم سے شائع کیا ہے، 208 صفحات کے اس مجموعے کی قیمت 600 روپے ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس