ہمارا نوجوان ناکامی سے دو چار کیوں

ہم قدیم کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ زمین میں مختلف مقامات پر خزانے دفن ہیں اور ہر خزانے کا محافظ ایک اژدھا ہے

jabbar01@gmail.com

ہم قدیم کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ زمین میں مختلف مقامات پر خزانے دفن ہیں اور ہر خزانے کا محافظ ایک اژدھا ہے اور جب تک ہم اس اژدھے پر غالب نہ آجائیں ہم اس خزانے تک پہنچ نہیں سکتے۔

اس کہانی کو بہت سے لوگ ایک من گھڑت کہانی سمجھتے ہیں،اس کہانی کے مطلب میں ایک حقیقت پوشیدہ ہے، خزانے در اصل وہ ذہن اور جسمانی صلاحیتیں ہیں جو ایک انسان کو عطا کی گئی ہیں اور اژدھے در اصل منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے راہ میں آنے والی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے بیشتر نوجوان جب کسی کام کی ابتدا کرتے ہیں تو ان کی راہ میں جب مشکلات اور سختیاں آتی ہیں تو وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان میں صلاحیت یا اہلیت کی کمی ہے ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت اور اہلیت ہے بد قسمتی سے ہمارا پورا سسٹم کچھ ایسا ہے کہ جس میں ناکامی ہمارے نوجوانوں کا مقدر بن جاتی ہے۔

ہمارے یہاں نوجوانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں رہنمائی دینے کا کوئی واضح نظام موجود نہیں ہے، ہمارے یہاں نہ ایسی اکیڈمی ہے جو بچوں کی صلاحیت کو جانچ کر ان کو رہنمائی فراہم کریں اور نہ ہی ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہے جس سے طالب علم خود اپنی منزل متعین کرسکے۔ بالخصوص نچلے اور متوسط طبقے کے طلبا کے لیے یہ ان کی تعلیمی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے۔

پالیسی ساز اداروں کو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ (کم از کم میٹرک کے نصاب میں ایک Subject ایسا ضرور ہونا چاہیے جو طلبا کی اس حوالے سے رہنمائی کرسکے) اس ضمن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض نوجوان والدین کے دباؤ یا دوستوں کی رائے یا کسی شخصیت کو اپنے لیے آئیڈیل بناکر اپنے لیے پیشے (کیریئر) کا انتخاب کرتے ہیں اگر اس میں ان کی دلچسپی ،ذہنی رجحان اور اس شعبے کے لیے مطلوبہ صلاحیت نہ ہوں تو وہ ناکامی سے دو چار ہوجاتے ہیں۔ بعض نوجوان ذاتی تجربوں کو کامیابی کا زینہ بناتے ہیں، ذاتی تجربوں کے ذریعے کامیابی کا حصول مشکل ہوتا ہے ہونا یہ چاہیے کہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہوسکے۔

اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جو یہ فیصلہ خود نہیں کرتے بلکہ حالات کا دھارا انھیں جس سمت بہاکر لے جائے وہ اسی دھارے میں بہتے چلے جاتے ہیں، اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارنے کے بعد انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں صلاحیتیں کچھ اور تھیں بن کچھ اور گئے وہ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں جو ان کا شوق ہوتا ہے وہی ان کا Job بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کام ایک مشغلہ بن جاتا ہے، کام کو انجام دینے میں انسان کو تھکن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اسے ادا کرنے میں اسے ایک طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح وہ پر مسرت اور خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔

ایسے نوجوان جو ناکامی سے دوچار ہیں ان کے لیے چند اصول ہیں جن کو اپناکر وہ اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنے اندر پائی جانے والی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ کامیابی کا اہم راز یہ ہے کہ ایسے کام کو اپنائیں جو آپ کی روح کے ذوق کے مطابق ہو۔ ہمارے باطنی رجحانات مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں۔ سیکھی ہوئی چیزیں ہمارے باطنی رجحانات کے مطابق ہوں تو وہ آسانی سے ہمارے حافظہ کے خزانے میں محفوظ ہوجاتی ہیں اور لمبی مدت تک رہتی ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو ہمارا ذہن اسے فراموش کردیتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسے کاموں کو اپنایا جائے جس میں آپ کی دلچسپی، رجحان، لیاقت اور صلاحیت پائی جاتی ہو۔


ہر کام میں جس حد تک مشکلات اور سختیاں ہوتی ہیں اسی حد تک اس میں ارادے کی پختگی اور مضبوطی درکار ہوتی ہے مضبوط قوت ارادی ہی کامیابی کا وہ راز ہے جو مشکلات اور سختیوں کو راستے سے ہٹا دیتا ہے، اس لیے جس کام کا بھی آغاز کریں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اس کے حصول میں لگ جایئے۔

کامیابی کے حصول کے لیے جذبے کا ہونا بہت ضروری ہے یہ آپ کا مشاہدہ ہوگا کہ مرغی بلی کے مقابلے میں ایک بہت کمزور جانور ہے جب بلی مرغی پر جھپٹتی ہے تو مرغی راہ فرار اختیار کرتی ہے لیکن جب یہی بلی مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی میں بچوں کی محبت کا جذبہ غالب آجاتا ہے وہ اس جذبے کی طاقت سے بلی جیسے طاقت ور جانور کے مقابلے پر اتر آتی ہے یعنی جذبہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہمارے اندر کی دبی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے اس لیے جذبے کے بغیر کسی بڑی کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔

آپ کسی لکڑی پر کلہاڑی سے مسلسل ضرب لگاتے ہیں، کچھ ضربیں لگانے کے بعد لکڑی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے آپ آخری ضرب یا وار کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں جب کہ کامیابی آخری ضرب لگانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ضرب لگانے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کامیابی کے حصول کے لیے ایک اہم راز مسلسل جدوجہد ہے اس کے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔

کامیابی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یکسوئی بھی ہے،کام میں یکسوئی کا وہی کردار ہے جو کسی بوجھ اٹھانے میں لیورکا ہوتا ہے لیور کا اصول یہ ہے کہ اس کی مدد سے طاقتیں ایک نقطے پر جمع ہوجاتی ہے اور لیور ایک مناسب زور لگاکر بڑے اور بھاری جسم کو بلند کرکے اٹھالیتا ہے۔ اس طرح یکسوئی فکر اور سوچ کو ایک نقطہ پر مرکوز رکھتی ہے جس سے انسان کے سامنے آنے والی مشکلات اس کے سامنے سے اٹھ جاتی ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص مثبت سمت میں کام کرتا ہے جہاں اس کے بہت سے لوگ حامی اور مددگار ہوتے ہیں وہاں اس کی مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے ایسے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے، ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے۔

اس کے لیے آپ کو اپنے اندر یقین کی قوت پیدا کرنی ہوگی۔ یقین ایک ایسا سرمایہ ہے جس کی بدولت انسان اپنی کامیابی کے لیے منزل مقصود ، ہدف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بے قرار رہتا ہے، کام میں کامیابی کا تعین اسے زندگی کے سخت لمحات میں بھی کام اور کوشش سے دستبردار ہونے نہیں دیتا۔ بعض اوقات تمام تر کوشش کے باوجود انسان ناکامی سے دو چار رہتا ہے، ایسے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ بہت سی کامیابیاں انسان کو ناکامیوں کے بعد حاصل ہوتی ہیں کیوں کہ شکست کھانے والے ایک زندہ روح اور نئے عزم کے ساتھ دوبارہ کام کے میدان میں وار ہوتے ہیں اور آخر منزل مقصود پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ شکست خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ہمیشہ وقتی ہوتی ہے اور اسے دوبارہ منصوبہ بندی کے ذریعے کامیابی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کامیابی کا فیصلہ صرف اس بات سے نہیں کیا جانا چاہیے کہ آپ زندگی میں کس مقام پر پہنچ جاتے ہیں بلکہ کامیابی کا فیصلہ اس بات سے کیا جانا چاہیے کہ آپ نے اپنی مشکلات اور حالات میں رہتے ہوئے کس حد تک جدوجہد کی اور ان مشکلات پر قابو پایا۔ یاد رکھیں! زندگی ایک طویل تھکا دینے والی کہانی ہے اس کو وہی لوگ کامیاب بناسکتے ہیں جن کی توجہ کہانی کے اگلے پیراگراف پر لگی رہے۔
Load Next Story