غیرمحفوظ شہری
دنیامیں پانچ ایسے بدقسمت ممالک ہیں جن میں دہشت گردی کے82فیصدواقعات پیش آتے ہیں۔
دنیامیں پانچ ایسے بدقسمت ممالک ہیں جن میں دہشت گردی کے82فیصدواقعات پیش آتے ہیں۔گلوبل دہشت گردی کے انڈکس(Global Terrorism Index)کے اعتبارسے پاکستان ان میں تقریباًسرِفہرست ہے۔اس منفی فہرست میں افغانستان،عراق،شام اور نائیجریا بھی شامل ہیں۔ان ملکوں میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد کااندازہ فرمائیے۔صرف ایک سال یعنی2014ء میں اٹھارہ ہزار انسانوں کودہشت گردوں نے لقمہ خاک بنادیا۔
ان قیامت خیزہلاکتوں کے پیچھے تنظیمیں محض چارہیں۔ داعش، القائدہ، طالبان اوربوکوحرام!یہ تنظیمیں قتل عام کی ستر فیصدکی حدتک ذمے دارہیں۔سوال یہ ہے کہ مرنے اور مارنے والے لوگ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟مجھے جواب لکھنے کی ضرورت نہیں۔بدقسمتی سے ہم باہمی قتل وغارت میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی سرتوڑکوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کامسئلہ اس لحاظ سے زیادہ گھمبیرہے کہ ہمارے اوپرتسلسل سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گردپیداکررہے ہیں؟اس الزام میں ماضی کی حدتک کچھ صداقت موجودہے۔سب سے مشکل بات یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کامستقل شکاربھی ہے۔ یہ دنیاکی سب سے غیرمحفوظ ایٹمی قوت ہے۔ہم ظالم بھی ہیں اورمظلوم بھی!یہی ستم،قانون قدرت ہے!اوریہی مکافات عمل بھی ہے۔
ہمارے حالات سے سبق سیکھتے ہوئے دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں اوراملاک کومحفوظ بنانے کے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اوروہ اس میں مکمل طورپر کامیاب بھی نظرآتے ہیں۔اس کے برعکس ہم آج تک ایک کاغذی نیشنل ایکشن پلان(National Action Plan)لیے گلی گلی میں اپنے بے گناہ لوگوں کی گردن کٹوانے پرمجبورہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے اعتبارسے پاکستان ابھی تک شدید دباؤ کا شکارہے۔
ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظرآتے ہیں۔کراچی میں اسماعیلی فرقے کے مسلمانوں کادن دیہاڑے قتل عام اس ناکامی کی ایک بھرپورمثال ہے۔ فرانس مغرب کا واحدملک ہے جودہائیوں سے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف کارہے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ یورپ میں یہ واحدملک ہے جس نے عدوی تعدادکے اعتبارسے سب سے زیادہ دہشت گردپیداکیے ہیں۔یہ تضاد اس درجہ سنجیدہ ہے کہ فرانس نے اس جنگ کوجیتنے کے لیے اپنے قوانین کویکسرتبدیل کردیاہے۔وہ اپنے قانون کی ایک ایک شق پربھرپورعمل کرتے ہیں۔
2001ء سے لے کرآج تک انھوں نے چار ایسے قوانین بنائے ہیں جنکے ذریعے اس عفریت سے لڑاجاسکے۔آپکویہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فرانس انسانی حقوق اورآزادی رائے کاسب سے بڑا استاد ہے۔فرانس میں دہشت گردی کے تمام مقدمات خصوصی عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔مقدمات کی پیروی کے لیے خصوصی وکلاء کاچناؤکیاجاتاہے۔یہ وکیل دہشت گردی کے قوانین کے ماہرترین لوگ ہوتے ہیں۔
اس طرح کی تمام عدالتیں ہماری طرح پورے ملک میں پھیلائی نہیں گئیں بلکہ یہ صرف پیرس تک محدودہیں۔وکیل استغاثہ اورججزبراہِ راست خفیہ اداروں کوبلواکران سے حقائق دریافت کرتے رہتے ہیں۔خفیہ اداروں کی رائے اتنی اہم ہوتی ہے کہ ملکی مفادات کی خاطروہ براہِ راست جج صاحبان کے فیصلہ پراثراندازہوتے ہیں۔حکومت کے پاس 2014ء کی آئین سازی سے بے انتہا اختیارات آچکے ہیں۔حکومت کسی بھی ایسے شخص تک کو گرفتار کر سکتی ہے جودہشت گردی کی ویب سائٹس پرمعلومات حاصل کررہاہویاجوکسی بھی طرح کی تربیت حاصل کررہاہے جسے دہشت گردی میں استعمال کیاجاسکے۔
حکومتی ادارے کسی بھی فرانسی یاغیرفرانسیسی فردکے کمپیوٹرکوچیک کر سکتے ہیں۔وہ لوگوں کی آپس میں بات چیت سن سکتے ہیں۔عدالت سے پوچھے بغیرکسی بھی شخص کوسفرکرنے سے منع کیا جاسکتا ہے۔ صرف شک کی بنیادپرکسی بھی شہری کاپاسپورٹ ضبط کیا جاسکتا ہے۔وہاں اس حدتک سختی روارکھی گئی ہے کہ اگرکوئی گروہ یاشخص صرف دہشت گردی کی محض منصوبہ بندی کررہاہو ، تواسے تیس سال تک قیدکی سزاسنائی جاسکتی ہے۔ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی اقتصادی یاسائنسی مفادات کونقصان پہنچانابھی دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے۔
دہشت گردی کی کسی واردات کاحقیقی طورپروقوع پذیرہوناتوچھوڑدیجیے،اگرکسی کے پاس سے ایک معمولی سی ایسی چیزبرآمدہوجائے جس سے شبہہ ہوکہ دھماکا خیزموادبنایاجاسکتاہے،توصرف اس جرم کی سزابیس برس ہے۔فرانس نے یورپین یونین کے لوگوں کواپنے ملک میں آنے پرپابندی لگادی ہے جوکسی بھی طرح شدت پسندی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔یعنی اب وہاں کی حکومت کسی بھی تخریب کاری کے عنصرکوجڑسے اکھاڑنے کی طاقت رکھتی ہے اور ان کے ملک میں قانون کے ایک ایک لفظ پر عملدرآمد ہو رہاہے۔چندماہ پہلے حکومت نے دودہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی تھی۔
یہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ دوملزمان کی گرفتاری کے لیے حکومت نے کتنے افرادمختص کیے تھے۔ایک ہزار،دس ہزار،بیس ہزار؟ صرف ایک واقعے کے لیے انھوں نے88000افرادکومتعین کیا تھا۔اس میں پولیس،فوج اورپیراملٹری فورس،تمام اداروں کے اہلکارشامل تھے۔صرف چوبیس گھنٹے میں ملزمان کیفرکردارتک پہنچ چکے تھے۔
دنیاکی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت شور مچایاکہ حکومت،فوج اورپولیس کے پاس اتنے خوفناک اختیارات نہیں ہونے چاہیے مگرحکومت نے اس جنگ میں کوئی دباؤ قبول کرنے سے انکارکردیا۔قانون کی بے لاگ عملداری کی بدولت فرانس اب کافی حدتک محفوظ ہوچکا ہے۔ وہ ہمارے جیسے ملکوں کی پولیس اورایجنسیوں کو سمجھاتے ہیں کہ دہشت گردی سے نبردآزماکیسے ہوا جاسکتا ہے۔ان کے شہری اپنے ملک میں ہرطرح سے محفوظ ہیں۔ کیا یہ کوئی چھوٹی چیز ہے!نہیں۔صاحبان۔یہ کسی بھی حکومت کاسب سے بڑا کارنامہ ہوسکتاہے۔
آپکی توجہ اب برطانیہ کی جانب کروانا چاہتا ہوں۔ ذہن میں رکھیے کہ فرانس کی طرح،برطانیہ آج بھی انسانی حقوق اورآزادی رائے کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں آپ حکومت کی کسی بھی پالیسی،کسی بھی حکومتی ادارے یا سیاستدان سے اختلاف کرسکتے ہیں۔پوری حکومت اپنی طاقت کے باوجودآپکوکچھ نہیں کہہ سکتی۔ مگر جہاں شدت پسندی اوردہشت گردی کے معاملات سامنے آتے ہیں توکسی بھی طرح کی نرمی یالچک کامظاہرہ نہیں کیا جاتا۔یورپ میں یہ بات مشہورہے کہ برطانوی قوانین دہشت گردی کے حوالے سے پوری دنیامیں سب سے سخت ہیں بلکہ جابرانہ ہیں۔
مگر برطانوی حکومت شدت پسندی کے خلاف فیصلوں پرٹس سے مس نہیں ہوتی۔2001ء میں برطانیہ میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے نئے قوانین بنائے گئے۔سیکیورٹی ادارے، اجازت کے بغیرکسی بھی گھر پر چھاپہ مارسکتے ہیں۔وہ کسی بھی مشتبہ انسان کی الیکٹرونک ٹیگنگ(Electronic Tagging)کرسکتے ہیں۔
وہ ان کی ملاقات پربھی پابندی لگا سکتے ہیں۔وہ جج کی اجازت کے بغیرکسی بھی شخص کی ذاتی زندگی کی نگرانی کرسکتے ہیں۔اس کی ای۔میلزاورکمپیوٹرکوقبضہ میں لے سکتے ہیں۔وہ گاڑیوں اورعمارتوں میں جاسوسی کے جدیدآلات لگاسکتے ہیں۔دہشت گردی کی کسی بھی ممکنہ واردات کوروکنے کے لیے انھیں انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں!وہ کسی کی بات سننے کوتیارنہیں۔
برطانوی حکومت کے پاس ایک ایسااختیاربھی ہے جو میرے تصورسے باہرتھا۔وہ کسی بھی شہری کواپنے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جلاوطن کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔یعنی ملک کے اندرکسی بھی شخص کوایک شہرسے جبراً نکالا جاسکتاہے۔برطانیہ میں میڈیاکو مکمل طورپرآزادی ہے۔ مگر حکومت کسی بھی شدت پسندکے ٹیلی ویژن انٹرویوتک کوروک سکتی ہے۔
وہ اپنے قانون کی ایک ایک لائن پرعمل کررہے ہیں۔اورانھوں نے اپنے شہریوں کومکمل طورپرمحفوظ کرلیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ برطانوی پولیس کے پاس جرمن گسٹاپو سے زیادہ اختیارات ہیں۔یہ بات بالکل درست ہے۔مگریہ صرف اورصرف دہشت گردی کے متعلق ہیں۔ہم اپنے ملک میں انتہا پسندوں کے انٹرویوزاورٹی وی شوزکو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
چین کوبھی اپنے ایک صوبہ سنکیانگ میں دہشت گردی کا سامناہے۔یہ مسئلہ دراصل نسلی تعصب پرمشتمل ہے۔اوگرقوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہین چائنیز(Han Chineese)لوگوں کے خلاف ہیں۔اوگرقوم میں سے اکثریت کاتعلق اسلام سے ہے۔2013ء میں تینامن سکوئر (Tiananmen Square)میں ایک بم دھماکے میں دو سیاح مارے گئے۔2014ء میں اراکی مارکیٹ میں بم دھماکے سے چالیس افرادجاں بحق ہوئے۔ان دوواقعات کے بعدچینی حکومت نے دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی ہے۔کسی بھی دہشت گردکوپھانسی کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی گئی۔شدت پسندرویہ کی مکمل بیخ کنی کردی گئی ہے۔چینی پولیس کومحض شک کی بنیادپرمکمل کارروائی کرنے کااختیارہے۔
ہم انتہائی درجے کی دہشت گردی کاشکار ہیں۔ ہمارے ہزاروں لوگ اس جنگ میں لقمہ اَجل بن چکے ہیں۔قتل وغارت کی کسی بھی سنگین واردات کے بعد نمائشی قسم کے ادنیٰ مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں جو لوگوں کے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہیں۔چندمیٹنگزکی جاتی ہیںجنکی تصاویرنمایاں طور پر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ نتیجہ کیاہوا!کسی کومعلوم نہیں۔ ہماری قیادت تواتنی بہادرہے کہ چنددہشت گردوں کوپھانسی لگانے میں ہزاربارسوچتی ہے۔
صرف فوج ایک آخری ادارہ ہے جواس سنجیدہ معاملے میں سنجیدہ نظر آتا ہے۔ہربھیانک واقعہ ایک ہی طرح کے حکومتی اعلان پرختم ہوتاہے کہ ہم اپنے شہریوں کومکمل طورپرمحفوظ رکھنے کی تمام کوشش کرینگے۔اس گھسے پٹے اعلان کاعملی نتیجہ یہ ہے کہ ہماراہرشہری مکمل طور پر غیرمحفوظ ہوچکاہے!
ان قیامت خیزہلاکتوں کے پیچھے تنظیمیں محض چارہیں۔ داعش، القائدہ، طالبان اوربوکوحرام!یہ تنظیمیں قتل عام کی ستر فیصدکی حدتک ذمے دارہیں۔سوال یہ ہے کہ مرنے اور مارنے والے لوگ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟مجھے جواب لکھنے کی ضرورت نہیں۔بدقسمتی سے ہم باہمی قتل وغارت میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی سرتوڑکوشش کررہے ہیں۔
پاکستان کامسئلہ اس لحاظ سے زیادہ گھمبیرہے کہ ہمارے اوپرتسلسل سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گردپیداکررہے ہیں؟اس الزام میں ماضی کی حدتک کچھ صداقت موجودہے۔سب سے مشکل بات یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کامستقل شکاربھی ہے۔ یہ دنیاکی سب سے غیرمحفوظ ایٹمی قوت ہے۔ہم ظالم بھی ہیں اورمظلوم بھی!یہی ستم،قانون قدرت ہے!اوریہی مکافات عمل بھی ہے۔
ہمارے حالات سے سبق سیکھتے ہوئے دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں اوراملاک کومحفوظ بنانے کے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اوروہ اس میں مکمل طورپر کامیاب بھی نظرآتے ہیں۔اس کے برعکس ہم آج تک ایک کاغذی نیشنل ایکشن پلان(National Action Plan)لیے گلی گلی میں اپنے بے گناہ لوگوں کی گردن کٹوانے پرمجبورہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے اعتبارسے پاکستان ابھی تک شدید دباؤ کا شکارہے۔
ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظرآتے ہیں۔کراچی میں اسماعیلی فرقے کے مسلمانوں کادن دیہاڑے قتل عام اس ناکامی کی ایک بھرپورمثال ہے۔ فرانس مغرب کا واحدملک ہے جودہائیوں سے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف کارہے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ یورپ میں یہ واحدملک ہے جس نے عدوی تعدادکے اعتبارسے سب سے زیادہ دہشت گردپیداکیے ہیں۔یہ تضاد اس درجہ سنجیدہ ہے کہ فرانس نے اس جنگ کوجیتنے کے لیے اپنے قوانین کویکسرتبدیل کردیاہے۔وہ اپنے قانون کی ایک ایک شق پربھرپورعمل کرتے ہیں۔
2001ء سے لے کرآج تک انھوں نے چار ایسے قوانین بنائے ہیں جنکے ذریعے اس عفریت سے لڑاجاسکے۔آپکویہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فرانس انسانی حقوق اورآزادی رائے کاسب سے بڑا استاد ہے۔فرانس میں دہشت گردی کے تمام مقدمات خصوصی عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔مقدمات کی پیروی کے لیے خصوصی وکلاء کاچناؤکیاجاتاہے۔یہ وکیل دہشت گردی کے قوانین کے ماہرترین لوگ ہوتے ہیں۔
اس طرح کی تمام عدالتیں ہماری طرح پورے ملک میں پھیلائی نہیں گئیں بلکہ یہ صرف پیرس تک محدودہیں۔وکیل استغاثہ اورججزبراہِ راست خفیہ اداروں کوبلواکران سے حقائق دریافت کرتے رہتے ہیں۔خفیہ اداروں کی رائے اتنی اہم ہوتی ہے کہ ملکی مفادات کی خاطروہ براہِ راست جج صاحبان کے فیصلہ پراثراندازہوتے ہیں۔حکومت کے پاس 2014ء کی آئین سازی سے بے انتہا اختیارات آچکے ہیں۔حکومت کسی بھی ایسے شخص تک کو گرفتار کر سکتی ہے جودہشت گردی کی ویب سائٹس پرمعلومات حاصل کررہاہویاجوکسی بھی طرح کی تربیت حاصل کررہاہے جسے دہشت گردی میں استعمال کیاجاسکے۔
حکومتی ادارے کسی بھی فرانسی یاغیرفرانسیسی فردکے کمپیوٹرکوچیک کر سکتے ہیں۔وہ لوگوں کی آپس میں بات چیت سن سکتے ہیں۔عدالت سے پوچھے بغیرکسی بھی شخص کوسفرکرنے سے منع کیا جاسکتا ہے۔ صرف شک کی بنیادپرکسی بھی شہری کاپاسپورٹ ضبط کیا جاسکتا ہے۔وہاں اس حدتک سختی روارکھی گئی ہے کہ اگرکوئی گروہ یاشخص صرف دہشت گردی کی محض منصوبہ بندی کررہاہو ، تواسے تیس سال تک قیدکی سزاسنائی جاسکتی ہے۔ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی اقتصادی یاسائنسی مفادات کونقصان پہنچانابھی دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے۔
دہشت گردی کی کسی واردات کاحقیقی طورپروقوع پذیرہوناتوچھوڑدیجیے،اگرکسی کے پاس سے ایک معمولی سی ایسی چیزبرآمدہوجائے جس سے شبہہ ہوکہ دھماکا خیزموادبنایاجاسکتاہے،توصرف اس جرم کی سزابیس برس ہے۔فرانس نے یورپین یونین کے لوگوں کواپنے ملک میں آنے پرپابندی لگادی ہے جوکسی بھی طرح شدت پسندی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔یعنی اب وہاں کی حکومت کسی بھی تخریب کاری کے عنصرکوجڑسے اکھاڑنے کی طاقت رکھتی ہے اور ان کے ملک میں قانون کے ایک ایک لفظ پر عملدرآمد ہو رہاہے۔چندماہ پہلے حکومت نے دودہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی مہم شروع کی تھی۔
یہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ دوملزمان کی گرفتاری کے لیے حکومت نے کتنے افرادمختص کیے تھے۔ایک ہزار،دس ہزار،بیس ہزار؟ صرف ایک واقعے کے لیے انھوں نے88000افرادکومتعین کیا تھا۔اس میں پولیس،فوج اورپیراملٹری فورس،تمام اداروں کے اہلکارشامل تھے۔صرف چوبیس گھنٹے میں ملزمان کیفرکردارتک پہنچ چکے تھے۔
دنیاکی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت شور مچایاکہ حکومت،فوج اورپولیس کے پاس اتنے خوفناک اختیارات نہیں ہونے چاہیے مگرحکومت نے اس جنگ میں کوئی دباؤ قبول کرنے سے انکارکردیا۔قانون کی بے لاگ عملداری کی بدولت فرانس اب کافی حدتک محفوظ ہوچکا ہے۔ وہ ہمارے جیسے ملکوں کی پولیس اورایجنسیوں کو سمجھاتے ہیں کہ دہشت گردی سے نبردآزماکیسے ہوا جاسکتا ہے۔ان کے شہری اپنے ملک میں ہرطرح سے محفوظ ہیں۔ کیا یہ کوئی چھوٹی چیز ہے!نہیں۔صاحبان۔یہ کسی بھی حکومت کاسب سے بڑا کارنامہ ہوسکتاہے۔
آپکی توجہ اب برطانیہ کی جانب کروانا چاہتا ہوں۔ ذہن میں رکھیے کہ فرانس کی طرح،برطانیہ آج بھی انسانی حقوق اورآزادی رائے کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں آپ حکومت کی کسی بھی پالیسی،کسی بھی حکومتی ادارے یا سیاستدان سے اختلاف کرسکتے ہیں۔پوری حکومت اپنی طاقت کے باوجودآپکوکچھ نہیں کہہ سکتی۔ مگر جہاں شدت پسندی اوردہشت گردی کے معاملات سامنے آتے ہیں توکسی بھی طرح کی نرمی یالچک کامظاہرہ نہیں کیا جاتا۔یورپ میں یہ بات مشہورہے کہ برطانوی قوانین دہشت گردی کے حوالے سے پوری دنیامیں سب سے سخت ہیں بلکہ جابرانہ ہیں۔
مگر برطانوی حکومت شدت پسندی کے خلاف فیصلوں پرٹس سے مس نہیں ہوتی۔2001ء میں برطانیہ میں دہشت گردی کو روکنے کے لیے نئے قوانین بنائے گئے۔سیکیورٹی ادارے، اجازت کے بغیرکسی بھی گھر پر چھاپہ مارسکتے ہیں۔وہ کسی بھی مشتبہ انسان کی الیکٹرونک ٹیگنگ(Electronic Tagging)کرسکتے ہیں۔
وہ ان کی ملاقات پربھی پابندی لگا سکتے ہیں۔وہ جج کی اجازت کے بغیرکسی بھی شخص کی ذاتی زندگی کی نگرانی کرسکتے ہیں۔اس کی ای۔میلزاورکمپیوٹرکوقبضہ میں لے سکتے ہیں۔وہ گاڑیوں اورعمارتوں میں جاسوسی کے جدیدآلات لگاسکتے ہیں۔دہشت گردی کی کسی بھی ممکنہ واردات کوروکنے کے لیے انھیں انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں!وہ کسی کی بات سننے کوتیارنہیں۔
برطانوی حکومت کے پاس ایک ایسااختیاربھی ہے جو میرے تصورسے باہرتھا۔وہ کسی بھی شہری کواپنے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جلاوطن کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔یعنی ملک کے اندرکسی بھی شخص کوایک شہرسے جبراً نکالا جاسکتاہے۔برطانیہ میں میڈیاکو مکمل طورپرآزادی ہے۔ مگر حکومت کسی بھی شدت پسندکے ٹیلی ویژن انٹرویوتک کوروک سکتی ہے۔
وہ اپنے قانون کی ایک ایک لائن پرعمل کررہے ہیں۔اورانھوں نے اپنے شہریوں کومکمل طورپرمحفوظ کرلیا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ برطانوی پولیس کے پاس جرمن گسٹاپو سے زیادہ اختیارات ہیں۔یہ بات بالکل درست ہے۔مگریہ صرف اورصرف دہشت گردی کے متعلق ہیں۔ہم اپنے ملک میں انتہا پسندوں کے انٹرویوزاورٹی وی شوزکو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
چین کوبھی اپنے ایک صوبہ سنکیانگ میں دہشت گردی کا سامناہے۔یہ مسئلہ دراصل نسلی تعصب پرمشتمل ہے۔اوگرقوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہین چائنیز(Han Chineese)لوگوں کے خلاف ہیں۔اوگرقوم میں سے اکثریت کاتعلق اسلام سے ہے۔2013ء میں تینامن سکوئر (Tiananmen Square)میں ایک بم دھماکے میں دو سیاح مارے گئے۔2014ء میں اراکی مارکیٹ میں بم دھماکے سے چالیس افرادجاں بحق ہوئے۔ان دوواقعات کے بعدچینی حکومت نے دہشت گردی میں ملوث تمام افراد کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی ہے۔کسی بھی دہشت گردکوپھانسی کے علاوہ کوئی سزا نہیں دی گئی۔شدت پسندرویہ کی مکمل بیخ کنی کردی گئی ہے۔چینی پولیس کومحض شک کی بنیادپرمکمل کارروائی کرنے کااختیارہے۔
ہم انتہائی درجے کی دہشت گردی کاشکار ہیں۔ ہمارے ہزاروں لوگ اس جنگ میں لقمہ اَجل بن چکے ہیں۔قتل وغارت کی کسی بھی سنگین واردات کے بعد نمائشی قسم کے ادنیٰ مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں جو لوگوں کے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہیں۔چندمیٹنگزکی جاتی ہیںجنکی تصاویرنمایاں طور پر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ نتیجہ کیاہوا!کسی کومعلوم نہیں۔ ہماری قیادت تواتنی بہادرہے کہ چنددہشت گردوں کوپھانسی لگانے میں ہزاربارسوچتی ہے۔
صرف فوج ایک آخری ادارہ ہے جواس سنجیدہ معاملے میں سنجیدہ نظر آتا ہے۔ہربھیانک واقعہ ایک ہی طرح کے حکومتی اعلان پرختم ہوتاہے کہ ہم اپنے شہریوں کومکمل طورپرمحفوظ رکھنے کی تمام کوشش کرینگے۔اس گھسے پٹے اعلان کاعملی نتیجہ یہ ہے کہ ہماراہرشہری مکمل طور پر غیرمحفوظ ہوچکاہے!