غربت کا شاخسانہ
صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوئے مجھے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے
صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوئے مجھے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے، ایک ہفت روزہ اخبار میں بطور رپورٹر کے چونکا دینے والی خبروں کی تلاش میں سرگرداں رہنا میرا معمول تھا۔ اسی سرکردگی میں مجھے ایک خبر ایسی ملی کہ جس سے میں خود چونک گیا تھا۔ خبر ایسی تھی کہ سماجی حلقے ہکا بکا رہ گئے تھے جس نے ایک تحریک کی صورتحال پیدا کردی تھی۔
خبر یہ تھی کہ ''حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں نئے ملازمین کی بھرتی پر پابندی کے باوجود ایک کو آپریٹوسوسائٹی میں75 نئے ملازمین رکھے گئے جن میں سے صرف 5افراد مقامی نوجوان ہیں باقی غیر مقامی افراد ہیں۔ اس خبر میں افسوس ناک اور چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ قدیم بستی لیاری سے تعلق رکھنے والے 5 نوجوانوں کو ان کے افلاس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بطور خاکروب ملازمت دی گئی تھی۔ یہ پانچوں نوجوان بلوچ تھے جو لیاری کے رہائشی تھے جن کی غربت کا مذاق اڑایاگیا تھا۔ یہ نوجوان میٹرک تا انٹرکلاس پاس تھے۔
آج 25 سال بعد ایسی ہی ایک خبر نے مجھے رنجیدہ کردیا ہے کہ غربت اور بیروزگاری کے باعث ماسٹرز اور گریجویٹ افراد بھی خاکروب بھرتی ہونے لگے ہیں۔ سندھ کے ماتحت عدالتوں میں دفتری عملے کی اسامیاں پر ہوجانے کے بعد کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان خاکروب ہی بھرتی ہوگئے۔ ان افراد کا کہناہے کہ پڑھائی کے باوجود اہلیت پر ملازمت تو نہ مل سکی لیکن کم از کم گھر کا چولہا تو جل رہا ہے۔
ہری چند جوکہ ضلع ویسٹ میں بطور خاکروب بھرتی ہوا وہ بی کام کا طالبعلم ہے۔ سنجے اور دینش نے بھی بی کام پاس کیا ہے ان نوجوانوں کا کہناہے کہ انھوں نے کلرک اور بیلف اور پیشکار کے لیے درخواست دی تھی لیکن ہزاروں اعلیٰ تعلیمیافتہ افراد نے مذکورہ اسامیوں کے لیے درخواستیں اور انٹرویو دیے تھے لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ غریب اور کافی عرصے سے بیروزگار تھے اور خاکروب کی اسامی کے لیے انھیں آفر ہوئی جو انھوں نے قبول کی، ان کا کہناہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انھیں کوئی سرکاری ملازمت نہیں ملی لیکن گھر کا چولہا جلانے کے لیے جو نوکری ملی اسے بخوشی قبول کرلیا۔
اس کے علاوہ متعدد ماسٹر اور گریجویٹ نائب قاصد بھرتی ہوئے ہیں۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں غربت اور بیروزگاری اپنی انتہا پر ہے اور انسان پیٹ کی دوزخ کی آگ کو بجھانے کے لیے انتہا تک جانے کو بھی تیار ہے یعنی بھوک، تہذیب و آداب بھلادیتی ہے جو خوفناک صورتحال ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ خاکروب کی اسامی صرف غیر مسلم اقلیت کے لیے کیوں؟ کیا یہ امتیاز نہیں ہے؟ غربت اور بیروزگاری سے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی متاثر ہیں اور یہاں ہم دونوں ہی کی بات کررہے ہیں، جب سے ہوش سنبھالا ہے غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کی باتیں سنی ہیں یہ چیزیں ختم تو نہ ہوسکیں البتہ ان کے کوکھ سے جرائم اور دہشتگردی کی عفریت نے سر اٹھا رکھا ہے آج کل ہم اسی سے نبرد آزما ہیں یعنی جڑ کو چھوڑ کر شاخوں کو توڑ رہے ہیں۔
تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات تیزی سے سرائیت کررہی ہے کہ تعلیم تمام مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ تعلیمی نظام طاقت اور اسٹیٹس کی دوڑ ہے اور بس اور جاب مارکیٹ میں کامیاب ہونے کے لیے صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں بلکہ ذریعے یا سفارش کا ہونا بھی لازمی ہے، تعلیم کے کئی نظاموں کی موجودگی اور اقتصادی نا ہمواری کی وجہ سے پیدا ہوئی عدم مساوات پاکستان میں مخصوص شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔ملازمتیں فروخت ہوتی ہیں۔ایک طرف نوجوان حصول روزگار کے لیے سرگرداں ہیں تو دوسری طرف ساری زندگی نوکری کرنیوالے ریٹائرڈ بوڑھے لوگ پنشن کے حصول کے لیے پریشان حال ہیں۔ ای او بی آئی سے پنشن حاصل کرنیوالوں کی تعداد 34 لاکھ سے زائد ہے۔ انھیں حکومت کے تمام تر وعدوں کے باوجود اضافی رقم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ای او بی آئی کے پنشنرز کے لیے سو فیصد اضافے کا اعلان کیا مگر اس پر نہ تو پیپلزپارٹی دور میں عمل در آمد ہوسکا اور نہ ہی موجودہ مسلم لیگ (ن) حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی عملی اقدام کیا ہے۔
گزشتہ سال تو ای او بی آئی کے فنڈز ہی واپس ہوگئے تھے، اس وقت ای او بی آئی کے پنشنرز کی تعداد 34 لاکھ سے زائد ہے جنھیں 'اب جاکر' ماہانہ5200 روپے فی کس کے حساب سے قلیل پنشن دی جاتی ہے ''اگر حکومت نے ای او بی آئی سے پنشن لینے والے مزدوروں کا استحصال ہی کرنا ہی تو پھر ہم اس ادارے کو بند کردیتے ہیں، نہ اس طرح کا کوئی ادارہ ہوگا جو ملازمین کا استحصال کریگا اور نہ مزدوروں کا مذاق اڑایا جائے گا۔
حکومت غریب ملازمین کے ساتھ مذاق بند کردے، غریب لوگ کس کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ کسی کو ان کے ساتھ مذاق کرنے کی اجازت نہیں دینگے، غریب ملازم اتنی سی پنشن میں اپنے بچوں کو کیا لے کر دیتا ہوگا۔ غریب چاہے مر ہی کیوں نہ جائے لیکن حکومتی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی طرح کی ذمے داری قبول نہیں کرتے،اس پنشن میں تو ایک وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، پہلے بھی کافی ٹاسک فورسز بنی لیکن کیا نتیجہ نکلا، یہ صرف اکٹھے ہوتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں، ای او بی آئی میں اتنے بحران آئے، اربوں روپے کی کرپشن ہوئی مگر حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
غریب ملازمین کی پنشن اہم معاملہ ہے، ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے جب کہ حکومت غیر ضروری معاملات میں بڑی سرگرمی دکھاتی ہے۔'' یہ آبزرویشن اور ریمارکس جسٹس ثاقب نثار نے ای او بی آئی میگا اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران دیے ہیں۔علاوہ ازیں ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں ہر دوسرا فرد اور خاندان سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، ایدھی، چھیپا اور عالمگیر ٹرسٹ کی دستر خوان بھوک کے عارضی حل تو ہوسکتے ہیں مستقل حل نہیں۔
خبر یہ تھی کہ ''حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں نئے ملازمین کی بھرتی پر پابندی کے باوجود ایک کو آپریٹوسوسائٹی میں75 نئے ملازمین رکھے گئے جن میں سے صرف 5افراد مقامی نوجوان ہیں باقی غیر مقامی افراد ہیں۔ اس خبر میں افسوس ناک اور چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ قدیم بستی لیاری سے تعلق رکھنے والے 5 نوجوانوں کو ان کے افلاس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بطور خاکروب ملازمت دی گئی تھی۔ یہ پانچوں نوجوان بلوچ تھے جو لیاری کے رہائشی تھے جن کی غربت کا مذاق اڑایاگیا تھا۔ یہ نوجوان میٹرک تا انٹرکلاس پاس تھے۔
آج 25 سال بعد ایسی ہی ایک خبر نے مجھے رنجیدہ کردیا ہے کہ غربت اور بیروزگاری کے باعث ماسٹرز اور گریجویٹ افراد بھی خاکروب بھرتی ہونے لگے ہیں۔ سندھ کے ماتحت عدالتوں میں دفتری عملے کی اسامیاں پر ہوجانے کے بعد کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان خاکروب ہی بھرتی ہوگئے۔ ان افراد کا کہناہے کہ پڑھائی کے باوجود اہلیت پر ملازمت تو نہ مل سکی لیکن کم از کم گھر کا چولہا تو جل رہا ہے۔
ہری چند جوکہ ضلع ویسٹ میں بطور خاکروب بھرتی ہوا وہ بی کام کا طالبعلم ہے۔ سنجے اور دینش نے بھی بی کام پاس کیا ہے ان نوجوانوں کا کہناہے کہ انھوں نے کلرک اور بیلف اور پیشکار کے لیے درخواست دی تھی لیکن ہزاروں اعلیٰ تعلیمیافتہ افراد نے مذکورہ اسامیوں کے لیے درخواستیں اور انٹرویو دیے تھے لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہ غریب اور کافی عرصے سے بیروزگار تھے اور خاکروب کی اسامی کے لیے انھیں آفر ہوئی جو انھوں نے قبول کی، ان کا کہناہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انھیں کوئی سرکاری ملازمت نہیں ملی لیکن گھر کا چولہا جلانے کے لیے جو نوکری ملی اسے بخوشی قبول کرلیا۔
اس کے علاوہ متعدد ماسٹر اور گریجویٹ نائب قاصد بھرتی ہوئے ہیں۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں غربت اور بیروزگاری اپنی انتہا پر ہے اور انسان پیٹ کی دوزخ کی آگ کو بجھانے کے لیے انتہا تک جانے کو بھی تیار ہے یعنی بھوک، تہذیب و آداب بھلادیتی ہے جو خوفناک صورتحال ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی عیاں ہوتی ہے کہ خاکروب کی اسامی صرف غیر مسلم اقلیت کے لیے کیوں؟ کیا یہ امتیاز نہیں ہے؟ غربت اور بیروزگاری سے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی متاثر ہیں اور یہاں ہم دونوں ہی کی بات کررہے ہیں، جب سے ہوش سنبھالا ہے غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کی باتیں سنی ہیں یہ چیزیں ختم تو نہ ہوسکیں البتہ ان کے کوکھ سے جرائم اور دہشتگردی کی عفریت نے سر اٹھا رکھا ہے آج کل ہم اسی سے نبرد آزما ہیں یعنی جڑ کو چھوڑ کر شاخوں کو توڑ رہے ہیں۔
تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات تیزی سے سرائیت کررہی ہے کہ تعلیم تمام مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ تعلیمی نظام طاقت اور اسٹیٹس کی دوڑ ہے اور بس اور جاب مارکیٹ میں کامیاب ہونے کے لیے صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں بلکہ ذریعے یا سفارش کا ہونا بھی لازمی ہے، تعلیم کے کئی نظاموں کی موجودگی اور اقتصادی نا ہمواری کی وجہ سے پیدا ہوئی عدم مساوات پاکستان میں مخصوص شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
مسئلہ ترقی کی کمی کا نہیں ہے بلکہ طبقے اور طاقت کا ہے جو لوگوں کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔ملازمتیں فروخت ہوتی ہیں۔ایک طرف نوجوان حصول روزگار کے لیے سرگرداں ہیں تو دوسری طرف ساری زندگی نوکری کرنیوالے ریٹائرڈ بوڑھے لوگ پنشن کے حصول کے لیے پریشان حال ہیں۔ ای او بی آئی سے پنشن حاصل کرنیوالوں کی تعداد 34 لاکھ سے زائد ہے۔ انھیں حکومت کے تمام تر وعدوں کے باوجود اضافی رقم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ای او بی آئی کے پنشنرز کے لیے سو فیصد اضافے کا اعلان کیا مگر اس پر نہ تو پیپلزپارٹی دور میں عمل در آمد ہوسکا اور نہ ہی موجودہ مسلم لیگ (ن) حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی عملی اقدام کیا ہے۔
گزشتہ سال تو ای او بی آئی کے فنڈز ہی واپس ہوگئے تھے، اس وقت ای او بی آئی کے پنشنرز کی تعداد 34 لاکھ سے زائد ہے جنھیں 'اب جاکر' ماہانہ5200 روپے فی کس کے حساب سے قلیل پنشن دی جاتی ہے ''اگر حکومت نے ای او بی آئی سے پنشن لینے والے مزدوروں کا استحصال ہی کرنا ہی تو پھر ہم اس ادارے کو بند کردیتے ہیں، نہ اس طرح کا کوئی ادارہ ہوگا جو ملازمین کا استحصال کریگا اور نہ مزدوروں کا مذاق اڑایا جائے گا۔
حکومت غریب ملازمین کے ساتھ مذاق بند کردے، غریب لوگ کس کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ کسی کو ان کے ساتھ مذاق کرنے کی اجازت نہیں دینگے، غریب ملازم اتنی سی پنشن میں اپنے بچوں کو کیا لے کر دیتا ہوگا۔ غریب چاہے مر ہی کیوں نہ جائے لیکن حکومتی اداروں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی طرح کی ذمے داری قبول نہیں کرتے،اس پنشن میں تو ایک وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی، پہلے بھی کافی ٹاسک فورسز بنی لیکن کیا نتیجہ نکلا، یہ صرف اکٹھے ہوتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں، ای او بی آئی میں اتنے بحران آئے، اربوں روپے کی کرپشن ہوئی مگر حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
غریب ملازمین کی پنشن اہم معاملہ ہے، ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے جب کہ حکومت غیر ضروری معاملات میں بڑی سرگرمی دکھاتی ہے۔'' یہ آبزرویشن اور ریمارکس جسٹس ثاقب نثار نے ای او بی آئی میگا اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران دیے ہیں۔علاوہ ازیں ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں ہر دوسرا فرد اور خاندان سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، ایدھی، چھیپا اور عالمگیر ٹرسٹ کی دستر خوان بھوک کے عارضی حل تو ہوسکتے ہیں مستقل حل نہیں۔