معراج مصطفٰی ﷺ کا آفاقی پیغام عہد حاضرکے تناظرمیں
تیزرفتاربراق پرسوارآقائے دو جہاںﷺ اورجبریل امین ؑ پرمشتمل مختصرسے قافلہ نے پہلا قیام مسجد اقصیٰ میں فرمایا
QUETTA:
ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کُن اور اذیت ناک تھے۔ بقول شخص اسلام کی تاریخ بننے سے قبل ہی بگڑتی معلوم ہوتی تھی۔ گنتی کے چند لوگ ہی قبول اسلام کے بعد اپنے نظریے پر استقامت سے کھڑے تھے۔
شرق وغرب اورعرب وعجم سے کفروظلم کی تاریکیوں کو مٹانے کی دعوے دار یہ قلیل سی، مگر منظم اجتماعیت خود اپنے ہی شہر میں تاریخی جبر کے ہاتھوں مجبور اور مقہور تھی۔ وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر صد آفرین کہ بار گاہ الہیٰ میں ایک ساعت کے لیے بھی شاکی نہ ٹھہرے۔
ایسے میں رب العالمین نے اپنے محبوب ﷺ اوران کے جان نثاروں کی دل بستگی اور ہمت افزائی کے لیے وہ تاریخی انعام فرمایا کہ جو حضور سرور دو عالم ﷺ کے توسط و تصدق سے تا قیامت عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان قرار پایا۔
۔ سابقہ انبیاء ؑ ورسل ؑ نے استقبال فرمایا اور آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ لہٰذا خاتم الا انبیاء ﷺ سفر معراج کی ابتداء میں امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کے کیا کہنے! کہ جو اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔
یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی، جہاں چنیدہ اُوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام موجود تھا۔
پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ نے مرحبا کہا، تیسرے آسمان پر حسن یوسف ؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے تعارف ہوا، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپاء استقبال تھا اور ساتویں آسمان پر آپ ﷺ کے جد امجد سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ ؑ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے۔
برصغیر پاک و ہند کے نامور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ کے مطابق:'' کسی شخص سے آگے بڑھنے کے لیے اس کی برابر کی سطح تک آنا ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی ان پیغمبروں سے ملاقات ان کی خصوصیات کا اعلیٰ پیمانے پر حصول تھا۔ حضرت آدم ؑ کے پاس اپنی غلطی کے اعتراف کی جرأت تھی، حضرت عیسیٰ کو دنیاوی اور مادی آلائشوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی، حضرت یوسف ؑ نے عظمت و پاکیزگی کی مثال قائم کی، حضرت ادریس ؑ کے بارے میں آنحضور ﷺ نے بتایا کہ وہ تحریر کے موجد تھے جس سے تمام انسانی تہذیب و ترقی ہوئی، حضرت ہارون ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ نے اہل ایمان کو ظالم فرعون کے ظلم و ستم سے بچایا، حضرت ابراہیم ؑ نے ہمیں توحید کا پاکیزہ ترین مفہوم سمجھایا۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے کاموں کے مابین فرق قائم کیا۔ یہ ایک اچھے مومن کی بنیادی خصوصیات ہیں اور محمد ﷺ نے ان تمام خصوصیات کو حاصل کیا، حتیٰ کہ آپ ﷺ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے۔''
(بحوالہ: ۔ محمد الرسول اﷲ ﷺ از ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ)
بعد ازاں آپ ﷺ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امین ؑ نے آگے جانے سے معذرت چاہی۔ آخر کار سفر معراج کی وہ منزل مقصود بھی آپہنچی کہ جس کے لیے آپ ﷺ کو فرش سے عرش پر بلایا گیا اور دیدار الہیٰ کی نعمت عظمیٰ آپ کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم میں ہے (جس ذات (اﷲ) نے ترقی کا پیمانہ مقرر کیا اور پھر انسانیت کی اس کی طرف راہ نمائی کی) یعنی خدا نے تمام انسانیت کو صالح فطرت پر پیدا فرمایا اور انسانیت کی ترقی اور کام یابی کے لیے راہ ہدایت کی طرف اس کی راہ نمائی فرمائی۔
عظیم ترین تاریخی واقعہء معراج انسانی ارادہ، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بلکہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔
(بحوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم ص252)
واقعہء اسراء میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی سیر واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ نبی القبلتین کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ورنہ آپ ﷺ سے پہلے جس قدر انبیاء ؑ شام اور عرب میں گزرے ہیں، وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قبلہ کے متولی ہو ا کرتے تھے۔
سیدنا ابراہیم ؑ کو اﷲ نے دو بیٹے عطا کیے۔ حضرت اسحاق ؑ شام میں آباد ہوئے اور سیدنا اسماعیل ؑ نے عرب میں قیام فرمایا۔ آگے چل کر ان دو صاحب زادوں کی اولاد میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی تفریق پیدا ہوئی، جسے اﷲ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے ذریعے ختم کیا، اور آپ ﷺ نے پھر سے ملت ابراہیمی کو نظری، عملی اور تاریخی اعتبار سے وحدت بخشی۔
اس سفر میں سابقہ انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی امامت کے شرف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے اور سابقہ پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ بلکہ باہمی فرق صرف زمانی و مکانی حالات، معروضیت اور عصری تقاضوں کا ہے، اسی لیے پہلے انبیاء قومی درجہ پر مبعوث ہوئے جب کہ آپ ﷺ نے سیدنا ابراہیمؑ کی عالم گیر دعوت کے غلبہ و اشاعت کی تکمیل فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑ کو طور سینا پر احکام عشرہ سے نوازا گیا اور آپ ﷺ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔
(بحوالہ : سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
معراج نبویﷺ کا عظیم ترین تحفہ جو آپ ﷺ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔ نماز معراج مومن ہے، سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کے سفر ارتقاء اور عروج کا حاصل اور مطلوب صرف اور صرف ''حقیقت کبریٰ'' اور ''ذات خداوندی'' کا عرفان ہونا چاہیے۔ معراج کا یہ عظیم ہدیہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں فلسفہء حیات اور فلسفہء معراج کی یاد دلاتا ہے اور یقینا دنیائے رنگ و بُو میں اہل بصیرت کے لیے نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، جیسا کہ حدیث میں ''احسان'' کی تعریف موجود ہے۔ ''اﷲ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے''۔
واقعہ معراج کی عظمت موجودہ دور کی انسانیت کو متوجہ کرتی ہے کہ آج اگر ہم نے انسانیت میں ہر قسم کے امتیازات اور تفریق کو ختم کر کے اُسے وحدت بخشنا ہے، انسانی معاشروں کو امن، خوش حالی، عدل و انصاف اور جامع و اجتماعی ترقی سے ہم کنار کرنا ہے، اگر قافلہء انسانیت کو بہیمیت سے نجات دلا کر اسے اخلاق و کردار حسنہ سے روشناس کرانا ہے اور اگر انسانی ظاہر و باطن میں توازن اور یگانگت پیدا کر کے انسانیت کو اس کی اصل کی طرف لوٹانا ہے، جوکہ اس کی تمام تر ترقی اور عروج کی معراج ہے، تو پھر ہمیں تمام انبیاء ؑ کے اُسوہ سے راہ نمائی حاصل کر نا ہوگی، جس کی طرف قرآن نے بھی دعوت دی ہے۔
خصوصاً امام الانبیاء، خاتم الانبیاء ﷺ کے لائے ہوئے جامع دین کا مکمل شعور حاصل کرنا ہوگا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ انسانیت کو پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوگا۔ اور اسی طرح سورہ بنی اسرائیل جو کہ اصل میں سورہ اسراء و معراج ہے، اس میں موجود بارہ احکامات کو سماجی نظاموں میں پرو کر اپنے معاشروں کی ظاہری و باطنی تطہیر کرنا ہوگی تاکہ انسانیت کو اپنی معراج پانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
رسول اکرم ﷺ: اﷲ کے خاص مہمان
''اور یہ جو ہم نے تمہیں دکھایا، یہ تو محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا'' (القرآن)
یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم ﷺ جزیرہ نما عرب میں دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل انجام دے رہے تھے، مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہورہی تھی۔ درمیان میں ظلم و ستم اور رکاوٹیں حائل تھیں۔ اس کے باوجود افق کی دور دراز پنہائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی کہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کب واقع ہوئی؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ یہ عظیم الشان واقعہ دو مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں نبی کریم ﷺ رات کے وقت مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) تک تشریف لے گئے جسے اسراء کہا گیا اور دوسرا مرحلہ معراج کا ہے جس میں اﷲ کے حبیب ﷺ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک تشریف لے گئے اور پھر واپس تشریف لے آئے۔
'اسراء' کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے: ''پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی، جس کے گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھلائیں ۔ بے شک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔''
( بنی اسرائیل، آیت1)
واقعۂ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔ اس کے راوی صحابہؓ کی تعداد پچیس سے زیادہ ہی ہے۔ واقعۂ معراج جسمانی تھا۔ اس ضمن میں متعدد دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہیں تھا، بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعۂ معراج کا بالکل ہی انکار کرتے ہیں۔ لیکن واقعہ اسراء چوں کہ قرآن میں مذکور ہے، اس لیے اس کی غلط تاویل کرلیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ہیں :
٭ آیت میں عبد یعنی بندے کا لفظ آیا ہے جو جسم اور روح دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف انسانی جسم پر ہوتا ہے اور نہ صرف روح انسانی پر، بلکہ دونوں پر ہوتا ہے۔
٭ اگر واقعے کے بعد کافروں کی تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خلاف عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اور جب یہ (کافر) کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔''
اور یہ 'بات' صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کے وقت نبی آخرالزماں ﷺ نے مکے کے لوگوں کو گذشتہ رات کا یہ حیرت انگیز واقعہ سنایا تو کفار نے یقین کرنے کے بجائے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے سے بیت المقدس تک کا سفر 40دن کا ہے۔ وہاں تک جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے میں پورے 80 دن لگیں گے۔ اتنا طویل سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے؟ کفار مکہ نے یہ بھی کہا کہ یہ بات (نعوذ باﷲ) آپؐ کی گھڑی ہوئی کہانی ہے اور یہ کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
لیکن اپنے نبی ؐ کو سچا اور صحیح ثابت کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی پھر مدد کی۔ ہوا یوں کہ مکے کے بعض لوگ بیت المقدس کا اکثر سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ اس جگہ سے اور اس کے راستوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے نبی پاکؐ سے کچھ سوالات یہ سوچ کر کیے کہ اﷲ کے نبیؐ ان کے جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس وقت آپؐ حطیم میں کھڑے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے سے سب پردے ہٹا دیے اور مسجد اقصیٰ آپ ؐ کو سامنے نظر آنے لگی جسے دیکھ کر رسول کریم ﷺ تمام کافروں کے سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دیتے چلے گئے۔
اس موقع پر نبی برحقؐ کی صداقت کے لیے ارشاد ہوا: ''اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا، یہ تو محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا۔'' (بنی اسرائیل، آیت 60)
٭واقعۂ معراج احادیث کی روشنی میں:
اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے، ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اﷲ کا شکر ہے جس نے آپ ؐ کی فطری راستے (یعنی اسلام) کی طرف راہ نمائی کی۔''
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرمؐ کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دی گئی اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیلؑ نے کہا: ''محمد ﷺ سے شوخی کرتے ہو، حالاں کہ اﷲ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو۔'' یہ سنتے ہی براق کا پسینا ٹپکنے لگا۔ (ترمذی)
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''معراج کی رات میں جب بیت المقدس پہنچا تو جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک ستون کو چیرا اور اس سے براق کو باندھ دیا۔'' (ترمذی)
نبی پاکؐ کا ارشاد ہے: ''معراج کی رات جبرئیل مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ پھر وہ مجھے جنت میں لے گئے، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔'' (بخاری)
٭ واقعۂ معراج کی اہم باتیں:
بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیائؑ کا جمع ہونا اور جبرئیل کا آپؐ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپؐ کا امامت کرانا جس سے آپؐ کی تمام انبیائؑ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مختلف آسمانوں پر بعض رسولوں سے آپؐ کی ملاقات کا ہونا۔ دن میں پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پنج وقتہ نماز ادا کی جانے لگی۔ ساتوں آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اﷲ تعالیٰ کے عجائبات کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی سزائوں کا مشاہدہ وغیرہ۔ آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا جو ساتویں آسمان پر واقع ہے۔ فرشتے بھی اس مقام سے آگے نہیں جاسکتے۔ پھر آپؐ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا۔ پھر اﷲ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپؐ اﷲ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
سورۂ نجم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا''
واﷲ اعلم بالصواب
٭ واقعۂ معراج کی حکمت:
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی، وہ یہ ہے:
''تاکہ ہم (اﷲ تعالیٰ) آپ کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصود تھا، اسے بھی اﷲ تعالیٰ اپنے ارشاد ''تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو '' کے ذریعے واضح فرما دیا۔ چناں چہ جب انبیائے کرام ؑ کے علوم کو اس طرح کے مشاہدات کی سند حاصل ہوتی تھی تو انہیں عین الیقین کا مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
نبی کریم ﷺ کا سفر معراج
'' پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں''
واقعۂ معراج، اﷲ تعالیٰ کی حضور اکرم ﷺ سے محبت اور احترام کی ایک لازوال اور نایاب مثال ہے۔ معراج النبی ﷺ میں بہت سے سبق آموز اشارے پنہاں ہیں۔ یہ واقعہ اﷲ تعالیٰ کی زبردست قوت اور اس کائنات کی ہر ایک شے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر زبردست اور فیصلہ کن دست رس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کا اندازہ آپ ایسے لگاسکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو حضور پاک ﷺ کے اس کائناتی سفر کی تکمیل کرانے کے لیے کسی دھاتی خول، کشش ِ ثقل کی قوتوں کے توڑ کے لیے راکٹ انجن، خلائی لباس، آکسیجن ماسک، سیٹ بیلٹس، مداروی قوتوں کی جمع تفریق کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے دیگر کائناتی قوانین اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خود کار تکمیل کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے براق نامی ایک سواری پر حضور پاک ﷺ کو سوار کیا اور یہ سفر یقینا ً حضور پاک ﷺ کی سفر کی دعا کے بعد کسی بھی ناگہانی حادثے سے مبّرا مکمل بے فکری کے ساتھ آگے کی منزلوں کی طرف شروع ہوا۔ واقعہء معراج اﷲ تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر کن فیاکون کا مظہر ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنی کسی بات کو نافذ کرنے کی ٹھان لیتے ہے تو کسی بھی قسم کی کوئی کم زوری، کوئی مجبوری، کوئی عذر، کوئی تنگیء وقت اس کے آگے تاب نہیں لا سکتی۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ '' پاک ہے ( یعنی ہر کم زوری سے مبراء ہے ) وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں''۔
سوال یہ ہے کہ قدرت کے نمونوں کا ادراک تو حضور اکرم ﷺ کو وحی، خواب یا کسی اور طریقے سے بھی کرایا جاسکتا تھا، جو بدستور اپنی جگہ مستند اور قابل ِ یقین ہی ہوتا۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح حضور پاک ﷺ کو عین الیقین اور حق الیقین کی منزل پر لے جانا تھا لہٰذا یہ طریقہ اپنایا گیا۔
سورہ البقرہ کی آیت260 کا ترجمہ: ''جب ابراہیم نے (اﷲ سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیوں کر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا کہ کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، لیکن ( میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں ) کہ میرا دل اطمینان حاصل کرلے، اﷲ نے کہا کہ چار جانور پکڑو اور اپنے پاس منگالو، ( اور ٹکڑے ٹکڑے کردو) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ، تو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے اور جان رکھو کہ اﷲ ( غالب ) اور صاحب حکمت ہے۔''
حضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ وہ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حق الیقین کی سطح تک لانے کے لیے انہیں ایک مرحلے سے گزارا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے ایسا کوئی سوال تو نہیں کیا تھا، مگر چوں کہ اﷲ تعالیٰ نے معراج ہی کے ذریعے حضور پاک ﷺ کو حق الیقین کی مزید منزلوں پر لے جانا طے کر لیا تھا لہٰذا یہ سچا عملی معجزہ ہو کر رہا۔ حضور پاک ﷺ، اﷲ تعالیٰ کے مہمان بنے۔ انسانیت کو قرب کی انتہاء نصیب ہوئی۔ عرش ِ معلیٰ پر وقوع پذیر ہونے والی یہ مہمان نوازی کس قدر شان دار ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہی اﷲ تعالیٰ تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے اور حضور پاک ﷺ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ قرب کسی بھی شک سے بالا تر تھا تو پھر اس طرح سدرۃ المنتہی تک جانے کے کیا معنی ہیں؟
قرآن ِ مجید کی بیان کردہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت کے تحت، قربتوں کا یہ پیمانہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ِ علم تک رسائی کی وہ آخری حدیں پالینا تھا، جو عین الیقین اور حق الیقین کی صورت بالآخر اس ساری کائنات میں صرف اور صرف آپ ﷺ کو نصیب ہوئیں۔ اور یوں وہ بے مثال نعت ِ رسول ﷺ تکمیل کے مراحل کو پہنچی جو خود اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اسوہء حسنہ کی صورت تحریر فرمائی اور چوںکہ اسی حق الیقین کو آپ ﷺ نے اپنی امت تک پورے صدق اور خلوص کے ساتھ تفویض کرنا تھا، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت میں اس عین الیقین اور حق الیقین کے تقاضوں کو ان کی زندگیوں میں دیکھنا چاہا۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابہ ؓ کو کسی بات پر ہنستے دیکھا تو فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں، تم دیکھ لو تو، تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔
معراج میں آپ ﷺ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیش ِ خدمت ہے۔ ہر آسمان پر پہنچنے پر آپ ﷺ اور حضرت جبرائیل ؑ اپنے آپ کو ایک دروازے پر پاتے۔ اس پر دروازے کو کھٹکھٹایا جاتا تو سوال ہو تا کہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل ؑ جواب میں فرماتے کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا جاتا کہ: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل ؑ جواب میں کہتے کہ یہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر پوچھا جاتا کہ : کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ پھر فرمایا جاتا کہ: ہاں۔ جواب ملتا کہ آنا مبارک ہو۔ اور دروازہ کھول دیا جاتا۔
اس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے اپنی امت تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ایک منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے اپنی ہر ایک ڈیوٹی کو فرض کی ادائی کے آخری معیار تک سر انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور سب کام ایک قانون اور ضابطے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ سکھانا مقصود نہیں تھا تو پھر حضور پاک ﷺ کے آنے پر دروازوں کے بند ہونے کا سوال ہی کیوںکر پیدا ہو سکتا تھا؟
معراج النبی ﷺ کا ایک پہلو نہ صرف خود حضور پاک ﷺ کے لیے بلکہ ہم عام مسلمانوں کے لیے بھی ذریعہء آزمائش ہے۔ جب آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا تو ابوجہل جیسے جاہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس بات پر خوب قہقہے لگائے کہ لیجیے پہلے اگر کوئی کمی تھی، تو وہ اب کے پوری ہوگئی کہ حضرت محمد ﷺ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں (نعوذ باﷲ)۔ دوسری طرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ جیسے ایمان والے جلیل القدر صحابی نے فوراً اس سفر اور اس کی بیان کردہ تفاصیل کی تصدیق کردی۔ ابو جہل جہنم رسید ہوا، جب کہ حضرت ابو بکر ؓ دنیا ہی میں جنت اپنے نام لکھوا گئے۔ آج کل کے ابوجہل یہ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، تو پھر ہر صورت اس ہونی کو ہوجانا پڑتا ہے۔
یہ بات قابل ِ غور ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اعلان نبوت کے12ویں سال اور حضور پاک ﷺ کی52 سالہ عمر میں آپ ﷺ کو سفر کے یہ مراحل کیوں طے کرائے؟
مکہ سے مدینہ، مدینہ سے طور ِ سینا، طور ِ سینا سے بیت اللحم، اور پھر بیت اللحم سے بیت المقدس تک براق پر سفر ختم ہوتا ہے۔ بیت المقدس میں ہی آپ ﷺ نے تمام انبیائؑ کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے آگے کے سفر کے لیے حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کو ایک سیڑھی پیش کی جس پر آپ دونوں نے مزید سفر جاری رکھا، چوںکہ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہا جاتا ہے لہٰذا پورا واقعہ اسی سے منسوب کر کے اسے معراج النبی ﷺ کہا گیا ہے۔
سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیلؑ آپ ﷺ کے ساتھ محو ِ سفر رہے۔ جنت اور دوزخ کے کچھ مناظر آپ کو سفر کے اسی حصے میں دکھائے گئے۔ اس سفر سے واپسی اسی طرح ہوئی یعنی سیڑھی اور براق کے ذریعے آپ ﷺ مقامات کی الٹ ترتیب کے ساتھ مکہ واپس ہوئے۔ معراج کا اصل درس اﷲ تعالیٰ کی کائنات پر مکمل بلاشرکت غیرے حکم رانی ہے۔ وہ مالک دوجہاں ہے، وہ مختارکل ہے۔ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بے نیاز اور خود مختار ہے۔ اس واقعۂ معراج سے ہمیں حضور سرور کائنات ﷺ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اﷲ تعالیٰ کی کائنات ہے، وہاں حضور سرور کائنات ﷺ رحمت للعالمین ہیں، اور اﷲتعالیٰ کے دربار میں ان ہی اعمال کو شرف قبولیت بخشا جائے گا جو آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ادا کیے جائیں گے۔
ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کُن اور اذیت ناک تھے۔ بقول شخص اسلام کی تاریخ بننے سے قبل ہی بگڑتی معلوم ہوتی تھی۔ گنتی کے چند لوگ ہی قبول اسلام کے بعد اپنے نظریے پر استقامت سے کھڑے تھے۔
شرق وغرب اورعرب وعجم سے کفروظلم کی تاریکیوں کو مٹانے کی دعوے دار یہ قلیل سی، مگر منظم اجتماعیت خود اپنے ہی شہر میں تاریخی جبر کے ہاتھوں مجبور اور مقہور تھی۔ وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر صد آفرین کہ بار گاہ الہیٰ میں ایک ساعت کے لیے بھی شاکی نہ ٹھہرے۔
ایسے میں رب العالمین نے اپنے محبوب ﷺ اوران کے جان نثاروں کی دل بستگی اور ہمت افزائی کے لیے وہ تاریخی انعام فرمایا کہ جو حضور سرور دو عالم ﷺ کے توسط و تصدق سے تا قیامت عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان قرار پایا۔
۔ سابقہ انبیاء ؑ ورسل ؑ نے استقبال فرمایا اور آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ لہٰذا خاتم الا انبیاء ﷺ سفر معراج کی ابتداء میں امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کے کیا کہنے! کہ جو اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔
یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی، جہاں چنیدہ اُوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام موجود تھا۔
پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ نے مرحبا کہا، تیسرے آسمان پر حسن یوسف ؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے تعارف ہوا، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپاء استقبال تھا اور ساتویں آسمان پر آپ ﷺ کے جد امجد سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ ؑ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے۔
برصغیر پاک و ہند کے نامور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ کے مطابق:'' کسی شخص سے آگے بڑھنے کے لیے اس کی برابر کی سطح تک آنا ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی ان پیغمبروں سے ملاقات ان کی خصوصیات کا اعلیٰ پیمانے پر حصول تھا۔ حضرت آدم ؑ کے پاس اپنی غلطی کے اعتراف کی جرأت تھی، حضرت عیسیٰ کو دنیاوی اور مادی آلائشوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی، حضرت یوسف ؑ نے عظمت و پاکیزگی کی مثال قائم کی، حضرت ادریس ؑ کے بارے میں آنحضور ﷺ نے بتایا کہ وہ تحریر کے موجد تھے جس سے تمام انسانی تہذیب و ترقی ہوئی، حضرت ہارون ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ نے اہل ایمان کو ظالم فرعون کے ظلم و ستم سے بچایا، حضرت ابراہیم ؑ نے ہمیں توحید کا پاکیزہ ترین مفہوم سمجھایا۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے کاموں کے مابین فرق قائم کیا۔ یہ ایک اچھے مومن کی بنیادی خصوصیات ہیں اور محمد ﷺ نے ان تمام خصوصیات کو حاصل کیا، حتیٰ کہ آپ ﷺ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے۔''
(بحوالہ: ۔ محمد الرسول اﷲ ﷺ از ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ)
بعد ازاں آپ ﷺ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امین ؑ نے آگے جانے سے معذرت چاہی۔ آخر کار سفر معراج کی وہ منزل مقصود بھی آپہنچی کہ جس کے لیے آپ ﷺ کو فرش سے عرش پر بلایا گیا اور دیدار الہیٰ کی نعمت عظمیٰ آپ کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم میں ہے (جس ذات (اﷲ) نے ترقی کا پیمانہ مقرر کیا اور پھر انسانیت کی اس کی طرف راہ نمائی کی) یعنی خدا نے تمام انسانیت کو صالح فطرت پر پیدا فرمایا اور انسانیت کی ترقی اور کام یابی کے لیے راہ ہدایت کی طرف اس کی راہ نمائی فرمائی۔
عظیم ترین تاریخی واقعہء معراج انسانی ارادہ، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بلکہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔
(بحوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم ص252)
واقعہء اسراء میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی سیر واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ نبی القبلتین کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ورنہ آپ ﷺ سے پہلے جس قدر انبیاء ؑ شام اور عرب میں گزرے ہیں، وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قبلہ کے متولی ہو ا کرتے تھے۔
سیدنا ابراہیم ؑ کو اﷲ نے دو بیٹے عطا کیے۔ حضرت اسحاق ؑ شام میں آباد ہوئے اور سیدنا اسماعیل ؑ نے عرب میں قیام فرمایا۔ آگے چل کر ان دو صاحب زادوں کی اولاد میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی تفریق پیدا ہوئی، جسے اﷲ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے ذریعے ختم کیا، اور آپ ﷺ نے پھر سے ملت ابراہیمی کو نظری، عملی اور تاریخی اعتبار سے وحدت بخشی۔
اس سفر میں سابقہ انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی امامت کے شرف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے اور سابقہ پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ بلکہ باہمی فرق صرف زمانی و مکانی حالات، معروضیت اور عصری تقاضوں کا ہے، اسی لیے پہلے انبیاء قومی درجہ پر مبعوث ہوئے جب کہ آپ ﷺ نے سیدنا ابراہیمؑ کی عالم گیر دعوت کے غلبہ و اشاعت کی تکمیل فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑ کو طور سینا پر احکام عشرہ سے نوازا گیا اور آپ ﷺ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔
(بحوالہ : سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
معراج نبویﷺ کا عظیم ترین تحفہ جو آپ ﷺ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔ نماز معراج مومن ہے، سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کے سفر ارتقاء اور عروج کا حاصل اور مطلوب صرف اور صرف ''حقیقت کبریٰ'' اور ''ذات خداوندی'' کا عرفان ہونا چاہیے۔ معراج کا یہ عظیم ہدیہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں فلسفہء حیات اور فلسفہء معراج کی یاد دلاتا ہے اور یقینا دنیائے رنگ و بُو میں اہل بصیرت کے لیے نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، جیسا کہ حدیث میں ''احسان'' کی تعریف موجود ہے۔ ''اﷲ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے''۔
واقعہ معراج کی عظمت موجودہ دور کی انسانیت کو متوجہ کرتی ہے کہ آج اگر ہم نے انسانیت میں ہر قسم کے امتیازات اور تفریق کو ختم کر کے اُسے وحدت بخشنا ہے، انسانی معاشروں کو امن، خوش حالی، عدل و انصاف اور جامع و اجتماعی ترقی سے ہم کنار کرنا ہے، اگر قافلہء انسانیت کو بہیمیت سے نجات دلا کر اسے اخلاق و کردار حسنہ سے روشناس کرانا ہے اور اگر انسانی ظاہر و باطن میں توازن اور یگانگت پیدا کر کے انسانیت کو اس کی اصل کی طرف لوٹانا ہے، جوکہ اس کی تمام تر ترقی اور عروج کی معراج ہے، تو پھر ہمیں تمام انبیاء ؑ کے اُسوہ سے راہ نمائی حاصل کر نا ہوگی، جس کی طرف قرآن نے بھی دعوت دی ہے۔
خصوصاً امام الانبیاء، خاتم الانبیاء ﷺ کے لائے ہوئے جامع دین کا مکمل شعور حاصل کرنا ہوگا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ انسانیت کو پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوگا۔ اور اسی طرح سورہ بنی اسرائیل جو کہ اصل میں سورہ اسراء و معراج ہے، اس میں موجود بارہ احکامات کو سماجی نظاموں میں پرو کر اپنے معاشروں کی ظاہری و باطنی تطہیر کرنا ہوگی تاکہ انسانیت کو اپنی معراج پانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
رسول اکرم ﷺ: اﷲ کے خاص مہمان
''اور یہ جو ہم نے تمہیں دکھایا، یہ تو محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا'' (القرآن)
یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم ﷺ جزیرہ نما عرب میں دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل انجام دے رہے تھے، مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہورہی تھی۔ درمیان میں ظلم و ستم اور رکاوٹیں حائل تھیں۔ اس کے باوجود افق کی دور دراز پنہائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی کہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کب واقع ہوئی؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ یہ عظیم الشان واقعہ دو مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں نبی کریم ﷺ رات کے وقت مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) تک تشریف لے گئے جسے اسراء کہا گیا اور دوسرا مرحلہ معراج کا ہے جس میں اﷲ کے حبیب ﷺ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک تشریف لے گئے اور پھر واپس تشریف لے آئے۔
'اسراء' کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے: ''پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی، جس کے گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھلائیں ۔ بے شک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔''
( بنی اسرائیل، آیت1)
واقعۂ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔ اس کے راوی صحابہؓ کی تعداد پچیس سے زیادہ ہی ہے۔ واقعۂ معراج جسمانی تھا۔ اس ضمن میں متعدد دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہیں تھا، بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعۂ معراج کا بالکل ہی انکار کرتے ہیں۔ لیکن واقعہ اسراء چوں کہ قرآن میں مذکور ہے، اس لیے اس کی غلط تاویل کرلیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ہیں :
٭ آیت میں عبد یعنی بندے کا لفظ آیا ہے جو جسم اور روح دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف انسانی جسم پر ہوتا ہے اور نہ صرف روح انسانی پر، بلکہ دونوں پر ہوتا ہے۔
٭ اگر واقعے کے بعد کافروں کی تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خلاف عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' اور جب یہ (کافر) کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔''
اور یہ 'بات' صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کے وقت نبی آخرالزماں ﷺ نے مکے کے لوگوں کو گذشتہ رات کا یہ حیرت انگیز واقعہ سنایا تو کفار نے یقین کرنے کے بجائے اس کا خوب مذاق اڑایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے سے بیت المقدس تک کا سفر 40دن کا ہے۔ وہاں تک جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے میں پورے 80 دن لگیں گے۔ اتنا طویل سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے؟ کفار مکہ نے یہ بھی کہا کہ یہ بات (نعوذ باﷲ) آپؐ کی گھڑی ہوئی کہانی ہے اور یہ کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
لیکن اپنے نبی ؐ کو سچا اور صحیح ثابت کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی پھر مدد کی۔ ہوا یوں کہ مکے کے بعض لوگ بیت المقدس کا اکثر سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ اس جگہ سے اور اس کے راستوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے نبی پاکؐ سے کچھ سوالات یہ سوچ کر کیے کہ اﷲ کے نبیؐ ان کے جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس وقت آپؐ حطیم میں کھڑے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے سے سب پردے ہٹا دیے اور مسجد اقصیٰ آپ ؐ کو سامنے نظر آنے لگی جسے دیکھ کر رسول کریم ﷺ تمام کافروں کے سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دیتے چلے گئے۔
اس موقع پر نبی برحقؐ کی صداقت کے لیے ارشاد ہوا: ''اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا، یہ تو محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا۔'' (بنی اسرائیل، آیت 60)
٭واقعۂ معراج احادیث کی روشنی میں:
اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے، ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اﷲ کا شکر ہے جس نے آپ ؐ کی فطری راستے (یعنی اسلام) کی طرف راہ نمائی کی۔''
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرمؐ کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دی گئی اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیلؑ نے کہا: ''محمد ﷺ سے شوخی کرتے ہو، حالاں کہ اﷲ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو۔'' یہ سنتے ہی براق کا پسینا ٹپکنے لگا۔ (ترمذی)
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''معراج کی رات میں جب بیت المقدس پہنچا تو جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک ستون کو چیرا اور اس سے براق کو باندھ دیا۔'' (ترمذی)
نبی پاکؐ کا ارشاد ہے: ''معراج کی رات جبرئیل مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ پھر وہ مجھے جنت میں لے گئے، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔'' (بخاری)
٭ واقعۂ معراج کی اہم باتیں:
بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیائؑ کا جمع ہونا اور جبرئیل کا آپؐ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپؐ کا امامت کرانا جس سے آپؐ کی تمام انبیائؑ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مختلف آسمانوں پر بعض رسولوں سے آپؐ کی ملاقات کا ہونا۔ دن میں پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پنج وقتہ نماز ادا کی جانے لگی۔ ساتوں آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اﷲ تعالیٰ کے عجائبات کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی سزائوں کا مشاہدہ وغیرہ۔ آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا جو ساتویں آسمان پر واقع ہے۔ فرشتے بھی اس مقام سے آگے نہیں جاسکتے۔ پھر آپؐ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا۔ پھر اﷲ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپؐ اﷲ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
سورۂ نجم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا''
واﷲ اعلم بالصواب
٭ واقعۂ معراج کی حکمت:
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی، وہ یہ ہے:
''تاکہ ہم (اﷲ تعالیٰ) آپ کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصود تھا، اسے بھی اﷲ تعالیٰ اپنے ارشاد ''تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو '' کے ذریعے واضح فرما دیا۔ چناں چہ جب انبیائے کرام ؑ کے علوم کو اس طرح کے مشاہدات کی سند حاصل ہوتی تھی تو انہیں عین الیقین کا مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
نبی کریم ﷺ کا سفر معراج
'' پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں''
واقعۂ معراج، اﷲ تعالیٰ کی حضور اکرم ﷺ سے محبت اور احترام کی ایک لازوال اور نایاب مثال ہے۔ معراج النبی ﷺ میں بہت سے سبق آموز اشارے پنہاں ہیں۔ یہ واقعہ اﷲ تعالیٰ کی زبردست قوت اور اس کائنات کی ہر ایک شے کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر زبردست اور فیصلہ کن دست رس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کا اندازہ آپ ایسے لگاسکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو حضور پاک ﷺ کے اس کائناتی سفر کی تکمیل کرانے کے لیے کسی دھاتی خول، کشش ِ ثقل کی قوتوں کے توڑ کے لیے راکٹ انجن، خلائی لباس، آکسیجن ماسک، سیٹ بیلٹس، مداروی قوتوں کی جمع تفریق کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے دیگر کائناتی قوانین اﷲ تعالیٰ کے حکم کی خود کار تکمیل کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے براق نامی ایک سواری پر حضور پاک ﷺ کو سوار کیا اور یہ سفر یقینا ً حضور پاک ﷺ کی سفر کی دعا کے بعد کسی بھی ناگہانی حادثے سے مبّرا مکمل بے فکری کے ساتھ آگے کی منزلوں کی طرف شروع ہوا۔ واقعہء معراج اﷲ تعالیٰ کی طرف سے واضح طور پر کن فیاکون کا مظہر ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنی کسی بات کو نافذ کرنے کی ٹھان لیتے ہے تو کسی بھی قسم کی کوئی کم زوری، کوئی مجبوری، کوئی عذر، کوئی تنگیء وقت اس کے آگے تاب نہیں لا سکتی۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ '' پاک ہے ( یعنی ہر کم زوری سے مبراء ہے ) وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس اس نے برکت رکھی ہے، اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے نمونے دکھائیں''۔
سوال یہ ہے کہ قدرت کے نمونوں کا ادراک تو حضور اکرم ﷺ کو وحی، خواب یا کسی اور طریقے سے بھی کرایا جاسکتا تھا، جو بدستور اپنی جگہ مستند اور قابل ِ یقین ہی ہوتا۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح حضور پاک ﷺ کو عین الیقین اور حق الیقین کی منزل پر لے جانا تھا لہٰذا یہ طریقہ اپنایا گیا۔
سورہ البقرہ کی آیت260 کا ترجمہ: ''جب ابراہیم نے (اﷲ سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیوں کر زندہ کرے گا، اللہ نے فرمایا کہ کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، لیکن ( میں دیکھنا) اس لیے (چاہتا ہوں ) کہ میرا دل اطمینان حاصل کرلے، اﷲ نے کہا کہ چار جانور پکڑو اور اپنے پاس منگالو، ( اور ٹکڑے ٹکڑے کردو) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ، تو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے اور جان رکھو کہ اﷲ ( غالب ) اور صاحب حکمت ہے۔''
حضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ وہ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حق الیقین کی سطح تک لانے کے لیے انہیں ایک مرحلے سے گزارا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے ایسا کوئی سوال تو نہیں کیا تھا، مگر چوں کہ اﷲ تعالیٰ نے معراج ہی کے ذریعے حضور پاک ﷺ کو حق الیقین کی مزید منزلوں پر لے جانا طے کر لیا تھا لہٰذا یہ سچا عملی معجزہ ہو کر رہا۔ حضور پاک ﷺ، اﷲ تعالیٰ کے مہمان بنے۔ انسانیت کو قرب کی انتہاء نصیب ہوئی۔ عرش ِ معلیٰ پر وقوع پذیر ہونے والی یہ مہمان نوازی کس قدر شان دار ہے۔ یہاں اس دنیا میں ہی اﷲ تعالیٰ تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے اور حضور پاک ﷺ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ قرب کسی بھی شک سے بالا تر تھا تو پھر اس طرح سدرۃ المنتہی تک جانے کے کیا معنی ہیں؟
قرآن ِ مجید کی بیان کردہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت کے تحت، قربتوں کا یہ پیمانہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی نعمت ِ علم تک رسائی کی وہ آخری حدیں پالینا تھا، جو عین الیقین اور حق الیقین کی صورت بالآخر اس ساری کائنات میں صرف اور صرف آپ ﷺ کو نصیب ہوئیں۔ اور یوں وہ بے مثال نعت ِ رسول ﷺ تکمیل کے مراحل کو پہنچی جو خود اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اسوہء حسنہ کی صورت تحریر فرمائی اور چوںکہ اسی حق الیقین کو آپ ﷺ نے اپنی امت تک پورے صدق اور خلوص کے ساتھ تفویض کرنا تھا، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت میں اس عین الیقین اور حق الیقین کے تقاضوں کو ان کی زندگیوں میں دیکھنا چاہا۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے صحابہ ؓ کو کسی بات پر ہنستے دیکھا تو فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ چکا ہوں، تم دیکھ لو تو، تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔
معراج میں آپ ﷺ نے کس قسم کے علمی حقائق کا سامنا کیا، اس کی ایک مثال پیش ِ خدمت ہے۔ ہر آسمان پر پہنچنے پر آپ ﷺ اور حضرت جبرائیل ؑ اپنے آپ کو ایک دروازے پر پاتے۔ اس پر دروازے کو کھٹکھٹایا جاتا تو سوال ہو تا کہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل ؑ جواب میں فرماتے کہ میں جبرائیل ہوں۔ پھر پوچھا جاتا کہ: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل ؑ جواب میں کہتے کہ یہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پھر پوچھا جاتا کہ : کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ پھر فرمایا جاتا کہ: ہاں۔ جواب ملتا کہ آنا مبارک ہو۔ اور دروازہ کھول دیا جاتا۔
اس طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے اپنی امت تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ایک منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے اپنی ہر ایک ڈیوٹی کو فرض کی ادائی کے آخری معیار تک سر انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور سب کام ایک قانون اور ضابطے کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ سکھانا مقصود نہیں تھا تو پھر حضور پاک ﷺ کے آنے پر دروازوں کے بند ہونے کا سوال ہی کیوںکر پیدا ہو سکتا تھا؟
معراج النبی ﷺ کا ایک پہلو نہ صرف خود حضور پاک ﷺ کے لیے بلکہ ہم عام مسلمانوں کے لیے بھی ذریعہء آزمائش ہے۔ جب آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کے بارے میں بتانا چاہا تو ابوجہل جیسے جاہل نے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس بات پر خوب قہقہے لگائے کہ لیجیے پہلے اگر کوئی کمی تھی، تو وہ اب کے پوری ہوگئی کہ حضرت محمد ﷺ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتے ہیں (نعوذ باﷲ)۔ دوسری طرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ جیسے ایمان والے جلیل القدر صحابی نے فوراً اس سفر اور اس کی بیان کردہ تفاصیل کی تصدیق کردی۔ ابو جہل جہنم رسید ہوا، جب کہ حضرت ابو بکر ؓ دنیا ہی میں جنت اپنے نام لکھوا گئے۔ آج کل کے ابوجہل یہ بھول جاتے ہیں کہ اﷲ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، تو پھر ہر صورت اس ہونی کو ہوجانا پڑتا ہے۔
یہ بات قابل ِ غور ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اعلان نبوت کے12ویں سال اور حضور پاک ﷺ کی52 سالہ عمر میں آپ ﷺ کو سفر کے یہ مراحل کیوں طے کرائے؟
مکہ سے مدینہ، مدینہ سے طور ِ سینا، طور ِ سینا سے بیت اللحم، اور پھر بیت اللحم سے بیت المقدس تک براق پر سفر ختم ہوتا ہے۔ بیت المقدس میں ہی آپ ﷺ نے تمام انبیائؑ کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے آگے کے سفر کے لیے حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کو ایک سیڑھی پیش کی جس پر آپ دونوں نے مزید سفر جاری رکھا، چوںکہ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہا جاتا ہے لہٰذا پورا واقعہ اسی سے منسوب کر کے اسے معراج النبی ﷺ کہا گیا ہے۔
سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیلؑ آپ ﷺ کے ساتھ محو ِ سفر رہے۔ جنت اور دوزخ کے کچھ مناظر آپ کو سفر کے اسی حصے میں دکھائے گئے۔ اس سفر سے واپسی اسی طرح ہوئی یعنی سیڑھی اور براق کے ذریعے آپ ﷺ مقامات کی الٹ ترتیب کے ساتھ مکہ واپس ہوئے۔ معراج کا اصل درس اﷲ تعالیٰ کی کائنات پر مکمل بلاشرکت غیرے حکم رانی ہے۔ وہ مالک دوجہاں ہے، وہ مختارکل ہے۔ اسے کسی بھی کام کے لیے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بے نیاز اور خود مختار ہے۔ اس واقعۂ معراج سے ہمیں حضور سرور کائنات ﷺ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اﷲ تعالیٰ کی کائنات ہے، وہاں حضور سرور کائنات ﷺ رحمت للعالمین ہیں، اور اﷲتعالیٰ کے دربار میں ان ہی اعمال کو شرف قبولیت بخشا جائے گا جو آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر ادا کیے جائیں گے۔