بلوچستان میں راہداری والی گاڑیاں تحویل میں لینے کا حکم

عدالت ہے تماشا نہیں،اسٹیٹ افئیر سے اہم معاملہ ہے، 6پیشیوں میں سے ایک دفعہ آئے، دلائل نہیں دینے تو چارج کرتے ہیں، عدالت

عدالت ہے تماشا نہیں،اسٹیٹ افئیر سے اہم معاملہ ہے، 6پیشیوں میں سے ایک دفعہ آئے، دلائل نہیں دینے تو چارج کرتے ہیں، عدالت، فوٹو : ایکسپریس

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو حکم دیا ہے کہ راہداری والی گاڑیاں 3 دن کے اندر تحویل میں لے کر کسٹم حکام کے حوالے کی جائے۔

سپریم کورٹ نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں13بچیوں کو ونی کرنے کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ واقعے کی مکمل رپورٹ 19اکتوبر تک عدالت میں پیش کرے، توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر داخلہ کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 6 سماعتوں کے دوران رحمٰن ملک ایک بھی سماعت میں پیش نہیں ہوئے۔

بلوچستان بدامنی اور لاپتہ افراد کیس کی سماعت سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران وزارت دفا ع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے عدالت میں خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے گاڑیوں کے لیے جا ری کی گئی راہداریوں کی فہرست پیش کی۔ انھوں نے بتا یا کہ یہ گاڑیاں ایجنسیوں کی نہیں ہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ایجنسیوں نے اسلحہ کیلیے راہداریاں جا ری نہیں کی ہیں۔

عدالت نے اپنے آ رڈر میں وزارت دفاع کو حکم دیا کی تین دن کے اندر اہداری والی تمام گا ڑیاں کسٹم حکام کے حوالے کی جائیں۔ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جمعرات کو ڈیرہ بگٹی ونی کیس کی ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی سیدفیصل شاہ پیش ہوئے اور عدالت کو بتا یا کہ بچیوں کو ونی کرنے کا واقعہ ڈیرہ بگٹی میں پیش نہیں آیا یہ ضلع بارکھان کا معاملہ ہے ہم نے بہت کوشش کی مگر ہمیں کسی قسم کے شواہد نہیں ملے جبکہ لڑکیوں اوران کے والدین کے ناموں کے بارے میں کوئی نہیں بتارہا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایاکہ ایساکوئی واقعہ پیش نہیں آ یا۔

کیس کی تصدیق نہیں ہوئی اسے خارج کردیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ افواہ ہو،آگ کے بغیر دھواں نہیں اٹھتا جب تک اس کی سرٹیفکیشن نہیں آتی ہم اس کو خارج نہیںکرینگے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پشاور واقعہ میں 7 کروڑ خرچ کیے گئے لیکن کچھ نہیں ملا جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ آپ ہمیں نہ پڑھائیں ہمیں اپنے کام کا پتہ ہے۔ عدالت میں ونی واقعہ کا دعویٰ کرنیوالے شخص سرفراز بگٹی نے کہا کہ ونی کے ذمے داروں تک انتظامیہ کی رسائی کیلیے ہر قسم کے تعا ون کیلیے وہ تیار ہے۔ اس موقع پر عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ کیس کی مکمل رپورٹ 19اکتوبر تک عدالت میں پیش کرے۔


بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران عدالتی استفسار پر ایف سی کے وکیل ایس ایم ظفر نے کہا کہ بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے 21500پوسٹس ہیں 43فیصد اہلکار سرحدوں پر جبکہ24فیصد صوبے میں تنصیبات کی حفاظت پر مامور ہیں۔ بلوچستان کا کل چار فیصد علاقہ ایف سی کے زیر انتظام ہے خوش قسمتی سے جہاں ایف سی تعینات ہے وہاں تنصیبات محفوظ ہیں۔گزشتہ 6 سال کے دوران ایف سی پر 1036حملے کیے گئے جن میں 432اہلکار شہید اور 604زخمی ہوئے ہیں اس موقع پر انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل عبیداللہ خان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف سی میں کتنے فیصد اہلکار بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

آئی جی ایف سی نے کہا کہ 50 ہزار کی نفری میں 12فیصد کا تعلق خالصتاً بلوچستان سے ہے۔ ایف س کے وکیل نے کہا کہ بلوچستان میں لا پتہ افراد کی فہرست میںسے 30لاپتہ افراد کا الزام ایف سی پر ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ صوبے کو ایک سو 20 ارب روپے پرانے ملے ہیں جو کچھ مل رہا ہے وہ گیس کی مد میں ہے جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ایک سو 20 ارب روپے پڑے ہیں اتنی رقم سے تو بلوچستان ہی نہیں ملک میں بھی خوشحالی آئے گی۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ گوادر کامیاب ہوجائے تو بھی مسائل میں کمی آئے گی ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے آئین کے اندر رہتے ہوئے عبوری حکم جاری کرناہے ۔

ایس ایم ظفر نے کہا کہ صوبے میں 37 سکولوں کو ایف سی چلارہی ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے متعلق کسٹم حکام کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں 3 ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ ایک موقع پر ایاز ظہور ایڈووکیٹ نے کہا کہ فورسز والے خود بھی غیر قانونی گاڑیاں چلا رہے ہیں جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کا گھر کہاں ہیں ۔ ظہور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ گزشتہ دنوں لورالائی گئے تھے جہاں کابلی گاڑیوں کی بھر مار تھی مگر پولیس والے ان پر ہاتھ ڈالنے کے بعد فون آنے پر انھیں چھوڑ دیتے ہیں ۔

لاپتہ افراد کیس کی سماعت میں وفاق کے نمائندے کمانڈر محمد حسین شہباز پیش ہوئے اور کہا کہ ایم آئی ڈائریکٹریٹ سے معلومات کے بعد میجر سیف کی شناخت ہوگئی ہے وہ اس وقت بھی حا ضرسروس ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2 آدمیوں کے مرنے کا مسئلہ ہے ان سے پتہ کرکے تفصیلی رپورٹ جمع کرانی ہے۔ لاپتہ افرادقاری شبیر اور قاری نصیر کیس میں پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ انھوں نے سابقہ افسران شاہد نظام درانی اور عابد نوتکانی کو پیغام بھیجا مگر انھوںنے کہا کہ ہے کہ وہ آج پیش نہیں ہوسکتے البتہ کیس میں میجر معین کی شناخت میجر ہا رون کے نام سے ہوئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس کی شناخت ہوگئی ہے اس سے تفتیش کی جائے گی ۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی توہین عدالت کیس میں عدم پیشی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ تماشا نہیں، توہین عدالت کا کیس ہے اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو ہم چارج کرتے ہیں۔ جمعرات کو کوئٹہ رجسٹری 3 رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی جس میں رحمٰن ملک کی جانب سے راجا عبدالغفور پیش ہوئے جس پربینچ کے جسٹس خلجی عارف حسین نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ تماشا نہیں توہین عدالت کا کیس ہے۔ راجا عبدالغفور نے کہاکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کو کل پارلیمنٹ کے اجلاس میں ملالہ یوسفزئی سے متعلق سوالات کے جوابات دینے ہیں اس لیے وہ پیش نہیں ہوسکے جس پر بینچ کے ججز نے راجا عبدالغفور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سائیڈ پر ہو رحمٰن ملک خود کہاں ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ گزشتہ6 پیشیوں کے موقع پر کبھی وہ مالدیپ کے دورے تو کبھی ہلیری کلنٹن او ردیگر سے ملاقات میں مصروف رہتے ہیں،اب تک وہ صرف ایک ہی سماعت کے موقع پر پیش ہوئے، آپ آرگو نہیں کرتے تو ہم چارج کرتے ہیں جس پر راجا عبدالغفور نے کہا کہ رحمٰن ملک کا تعلق اسٹیٹ آفیئر سے ہے، اس لیے ایسا ہورہا ہے تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس سماعت سے زائد اسٹیٹ آفیئر کوئی نہیں ہوسکتا۔ آپ آرڈر شیٹ پڑھتے نہیں ہیں، ہمیں زبانی یاد ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نذیر چوہدری کو آنا چاہیے تھا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ رحمٰن ملک آئیں تو ایف سی کو بھی سہولت ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اظہر صاحب کیوں نہیں آئے ؟ وہ ای ایس ای ہے وہی ریکنگنائز ہے بعد ازاں سماعت کو 15 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
Load Next Story