بے شک ہم ترقی کر رہے ہیں
ہمارا حکمران طبقہ اگر یہ کہتا ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے تو وہ غلط نہیں کہتا۔
لاہور:
ہمارا حکمران طبقہ اگر یہ کہتا ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے تو وہ غلط نہیں کہتا۔ ہمارے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں پر اربوں روپے رکھے جاتے ہیں، قرضوں اور امداد کی شکل میں ترقی کے لیے بیرونی ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر ملتے ہیں، ملک کے اندر میٹرو بس اور کئی موٹر ویز پر کام جاری ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے ملک تیزی سے ترقی کی سمت آگے بڑھ سکتا ہے، اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کی بھاری اور مستقل آمدنی کا ذریعہ ہے، چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران جن 51 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں وہ بھی پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی جو تاریخی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ بھی پاکستان کو ترقی کی معراج کی طرف لے جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر بے شمار تعمیراتی کام ہو رہے ہیں جس کی وجہ عوام کو روزگار کے مواقعے حاصل ہوں گے، چینی صدر نے پاکستان کی ترقی کے حوالے سے ایشین ٹائیگر بننے کی خوشخبری سنائی ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق دبئی میں پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سے دس گنا زیادہ کالا دھن موجود ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں نے اس کالے دھن کے 700 مالکان کا سراغ لگا لیا ہے۔ ہمارے حالیہ اور سابق حکمرانوں کے ملکی و غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر پڑے ہوئے ہیں اور بیرونی ملکوں میں اس اشرافیہ کی کھربوں ڈالر کی جائیداد اور اثاثے موجود ہیں۔ کیا ایسے ملک کو ہم غریب ملک کہہ سکتے ہیں؟
جی نہیں پاکستان ایک غریب ملک نہیں بلکہ ایک امیر ملک ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں غربت اور امارت کو جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ایک آسودہ اور خوشحال زندگی یا بھوک و افلاس کی زندگی۔ 68 سال کے دوران پاکستان کے عوام نے کبھی آسودہ زندگی کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ بھوک، افلاس، بے روزگاری، علاج سے محرومی، تعلیم سے محرومی، دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے سارا دن مشقت کرنا اور دو وقت کی روٹی کا حصول ہی پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری آبادی 18 کروڑ سے زیادہ ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہماری آبادی کا 53 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ہر سال لاکھوں عوام بھوک کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں علاج معالجے کی سہولت سے محرومی کی وجہ سے جان سے چلے جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کی وجہ موت کے شکار ہو جاتے ہیں، اس حوالے سے تھرپارکر کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جہاں برسوں سے بھوک کی وجہ بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ملک میں صنعتی ترقی کو ترقی کا معیار مانا جاتا ہے، کارخانے اور ملیں لگتی ہیں تو معیشت مضبوط ہوتی ہے سڑکیں، ڈیم، موٹر وے وغیرہ بنتے ہیں، کنسٹرکشن کے شعبے کو فروغ حاصل ہوتا ہے ملک میں ماس ٹرانزٹ یا میٹرو بس شروع ہوتی ہے تو عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں لیکن ان تمام شعبوں میں عوام کو ترقی میں جو حصہ ملتا ہے وہ روزگار کی شکل میں ملتا ہے، چونکہ ہمارے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس لیے سارے بے روزگاروں کو روزگار نہیں مل سکتا۔ بلکہ حصول روزگار میں مقابلے کی وجہ اجرتیں کم ہو جاتی ہیں، بے روزگاروں کی بھرمار کی وجہ مزدور کم اجرتوں پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور سستی لیبر نہ صرف ملک کے اندر صنعتکاروں کے منافعے میں اضافے کا وسیلہ بن جاتی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی اپنی صنعتوں کو ان ملکوں میں شفٹ کرتے ہیں جہاں انھیں سستی لیبر حاصل ہوتی ہے۔
اس کے برخلاف ایک کارخانہ لگانے والا دو تین سال میں اتنا منافع حاصل کر لیتا ہے کہ دوسرا اور تیسرا کارخانہ بنا لیتا ہے، اس طرح وہ گروپ آف انڈسٹریز کا مالک بن جاتا ہے۔ ایک موٹر وے کی تعمیر میں مزدور کا حصہ صرف معمولی سی مزدوری ہوتا ہے لیکن موٹروے کو بنانے والا ٹھیکیدار اور اسے ٹھیکہ دینے والے حکمران ارب پتی بن جاتے ہیں، یہی حال دوسرے ترقیاتی پروجیکٹس کا ہے جن میں مزدور سخت محنت کے بعد اتنی اجرت بھی نہیں حاصل کر پاتا کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور ٹھیکے دینے اور لینے والے اربوں میں کھیلتے ہیں۔ میڈیا میں جن 700 ارب کا کالا دھن رکھنے والوں کا پتہ لگانے کی خبریں چھپی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ کالا دھن سوئٹزرلینڈ سے 10 گنا زیادہ ہے۔
یہ سارا سرمایہ یا کالا دھن ملک کے اندر ناجائز ذرایع سے کمائی ہوئی وہ دولت ہے جسے کرپٹ افراد حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیجتے ہیں، مغربی ملکوں میں کالا دھن رکھنے کے لیے کئی بینک موجود ہیں جن کا پہلا اصول یہ ہے کہ وہ کالا دھن رکھنے والوں کے نام نہیں بتاتے۔ ہمارے ملک میں سوئس بینک کے حوالے سے ایک معروف سیاستدان کا اسکینڈل اس قدر مشہور ہوا کہ یہ اسکینڈل اعلیٰ عدالتوں تک گیا، لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا، اب جن 700 کالا دھن رکھنے والوں کا سراغ لگایا گیا ہے کیا اس کا نتیجہ بھی ان کیسوں سے مختلف ہو گا؟ کیا یہ کالا دھن رکھنے والے 700 لوگ احتساب کی زد میں آئیں گے؟
اگر ترقی کا مطلب موٹرویز بنانا ہے تو ہم بلاشبہ ترقی کر رہے ہیں، لیکن موٹر وے کا استعمال ملک کے 18 کروڑ غریب عوام کس طرح کرتے ہیں اور اس کا فائدہ انھیں کس طرح حاصل ہو گا۔ 18 کروڑ عوام سستی اور آرام دہ ٹرانسپورٹ چاہتے ہیں، اگر سستی اور آرام دہ ٹرانسپورٹ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو حاصل ہوتی تو یقیناً اسے ہم عوام کی ترقی کا ایک حصہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ عوام بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنس کر سفر کرتے ہیں، چھتوں پر بیٹھتے ہیں، پائیدانوں سے لٹکتے ہیں۔ ٹرینوں کا حال یہ ہے کہ بوگیوں میں نہ واش روم کام کرتے ہیں نہ پنکھے چلتے ہیں، اس پر بھیڑ بھاڑ کا عالم یہ رہتا ہے کہ بوگیوں میں رش کی وجہ مسافروں کا سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔
ہر ترقی یافتہ شہر کی سڑکوں کا یہ حال ہے کہ جگہ جگہ سے یہ سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں اور کھڈوں کی وجہ ٹرانسپورٹ کا چلنا محال ہوتا ہے، کراچی جیسے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کے ہر علاقے میں سڑکوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ سڑکوں پر بمباری ہوئی ہے۔ عوام کی ٹرانسپورٹ اور شہروں کی سڑکوں کی بدتر صورتحال میں کیا ہم موٹروے کو ترقی کا نام دے سکتے ہیں؟ پانی، بجلی اور گیس عوام کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا حال یہ ہے کہ بے شمار صنعتیں ان کے قحط کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں اور لاکھوں مزدور بے کار ہو گئے ہیں، عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی میں بھن رہے ہیں، گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں، کرپٹ ایلیٹ کو نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی پریشانی ہے، نہ گیس کی لوڈشیڈنگ کی۔ بجلی گیس کو چھوڑیے اب تو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا حصول بنا ہوا ہے، غریب طبقات 4-3 ہزار کا پانی کا ٹینکر نہیں لے سکتے، ان کا کیا ہو گا۔ اگر اسی کا نام ترقی ہے تو پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔
اصل مسئلہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، ملکی بجٹ اور غیر ملکی امداد کے اربوں کھربوں روپے ایلیٹ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہے ہیں، 700 افراد دبئی میں جتنا سرمایہ رکھے ہوئے ہیں وہ سوئس بینکوں کے سرمائے سے دس گنا زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ ایلیٹ کلاس کے ملک کے اندر ملک کے باہر اربوں ڈالر ہیں اور اربوں مالیت کی جائیدادیں ہیں، اگر یہی ترقی کے ثبوت ہیں تو بلاشبہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ہے اور عوام غریب ہیں۔
ہمارا حکمران طبقہ اگر یہ کہتا ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے تو وہ غلط نہیں کہتا۔ ہمارے سالانہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں پر اربوں روپے رکھے جاتے ہیں، قرضوں اور امداد کی شکل میں ترقی کے لیے بیرونی ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر ملتے ہیں، ملک کے اندر میٹرو بس اور کئی موٹر ویز پر کام جاری ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے ملک تیزی سے ترقی کی سمت آگے بڑھ سکتا ہے، اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کی بھاری اور مستقل آمدنی کا ذریعہ ہے، چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران جن 51 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں وہ بھی پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی جو تاریخی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ بھی پاکستان کو ترقی کی معراج کی طرف لے جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر بے شمار تعمیراتی کام ہو رہے ہیں جس کی وجہ عوام کو روزگار کے مواقعے حاصل ہوں گے، چینی صدر نے پاکستان کی ترقی کے حوالے سے ایشین ٹائیگر بننے کی خوشخبری سنائی ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق دبئی میں پاکستان کا سوئٹزرلینڈ سے دس گنا زیادہ کالا دھن موجود ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں نے اس کالے دھن کے 700 مالکان کا سراغ لگا لیا ہے۔ ہمارے حالیہ اور سابق حکمرانوں کے ملکی و غیر ملکی بینکوں میں اربوں ڈالر پڑے ہوئے ہیں اور بیرونی ملکوں میں اس اشرافیہ کی کھربوں ڈالر کی جائیداد اور اثاثے موجود ہیں۔ کیا ایسے ملک کو ہم غریب ملک کہہ سکتے ہیں؟
جی نہیں پاکستان ایک غریب ملک نہیں بلکہ ایک امیر ملک ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں غربت اور امارت کو جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ایک آسودہ اور خوشحال زندگی یا بھوک و افلاس کی زندگی۔ 68 سال کے دوران پاکستان کے عوام نے کبھی آسودہ زندگی کی شکل ہی نہیں دیکھی۔ بھوک، افلاس، بے روزگاری، علاج سے محرومی، تعلیم سے محرومی، دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے سارا دن مشقت کرنا اور دو وقت کی روٹی کا حصول ہی پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہماری آبادی 18 کروڑ سے زیادہ ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہماری آبادی کا 53 فیصد حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ہر سال لاکھوں عوام بھوک کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں، لاکھوں علاج معالجے کی سہولت سے محرومی کی وجہ سے جان سے چلے جاتے ہیں، لاکھوں بچے غذائی قلت کی وجہ موت کے شکار ہو جاتے ہیں، اس حوالے سے تھرپارکر کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جہاں برسوں سے بھوک کی وجہ بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔
ملک میں صنعتی ترقی کو ترقی کا معیار مانا جاتا ہے، کارخانے اور ملیں لگتی ہیں تو معیشت مضبوط ہوتی ہے سڑکیں، ڈیم، موٹر وے وغیرہ بنتے ہیں، کنسٹرکشن کے شعبے کو فروغ حاصل ہوتا ہے ملک میں ماس ٹرانزٹ یا میٹرو بس شروع ہوتی ہے تو عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں لیکن ان تمام شعبوں میں عوام کو ترقی میں جو حصہ ملتا ہے وہ روزگار کی شکل میں ملتا ہے، چونکہ ہمارے ملک میں بے روزگاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس لیے سارے بے روزگاروں کو روزگار نہیں مل سکتا۔ بلکہ حصول روزگار میں مقابلے کی وجہ اجرتیں کم ہو جاتی ہیں، بے روزگاروں کی بھرمار کی وجہ مزدور کم اجرتوں پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور سستی لیبر نہ صرف ملک کے اندر صنعتکاروں کے منافعے میں اضافے کا وسیلہ بن جاتی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی اپنی صنعتوں کو ان ملکوں میں شفٹ کرتے ہیں جہاں انھیں سستی لیبر حاصل ہوتی ہے۔
اس کے برخلاف ایک کارخانہ لگانے والا دو تین سال میں اتنا منافع حاصل کر لیتا ہے کہ دوسرا اور تیسرا کارخانہ بنا لیتا ہے، اس طرح وہ گروپ آف انڈسٹریز کا مالک بن جاتا ہے۔ ایک موٹر وے کی تعمیر میں مزدور کا حصہ صرف معمولی سی مزدوری ہوتا ہے لیکن موٹروے کو بنانے والا ٹھیکیدار اور اسے ٹھیکہ دینے والے حکمران ارب پتی بن جاتے ہیں، یہی حال دوسرے ترقیاتی پروجیکٹس کا ہے جن میں مزدور سخت محنت کے بعد اتنی اجرت بھی نہیں حاصل کر پاتا کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور ٹھیکے دینے اور لینے والے اربوں میں کھیلتے ہیں۔ میڈیا میں جن 700 ارب کا کالا دھن رکھنے والوں کا پتہ لگانے کی خبریں چھپی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ کالا دھن سوئٹزرلینڈ سے 10 گنا زیادہ ہے۔
یہ سارا سرمایہ یا کالا دھن ملک کے اندر ناجائز ذرایع سے کمائی ہوئی وہ دولت ہے جسے کرپٹ افراد حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیجتے ہیں، مغربی ملکوں میں کالا دھن رکھنے کے لیے کئی بینک موجود ہیں جن کا پہلا اصول یہ ہے کہ وہ کالا دھن رکھنے والوں کے نام نہیں بتاتے۔ ہمارے ملک میں سوئس بینک کے حوالے سے ایک معروف سیاستدان کا اسکینڈل اس قدر مشہور ہوا کہ یہ اسکینڈل اعلیٰ عدالتوں تک گیا، لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا، اب جن 700 کالا دھن رکھنے والوں کا سراغ لگایا گیا ہے کیا اس کا نتیجہ بھی ان کیسوں سے مختلف ہو گا؟ کیا یہ کالا دھن رکھنے والے 700 لوگ احتساب کی زد میں آئیں گے؟
اگر ترقی کا مطلب موٹرویز بنانا ہے تو ہم بلاشبہ ترقی کر رہے ہیں، لیکن موٹر وے کا استعمال ملک کے 18 کروڑ غریب عوام کس طرح کرتے ہیں اور اس کا فائدہ انھیں کس طرح حاصل ہو گا۔ 18 کروڑ عوام سستی اور آرام دہ ٹرانسپورٹ چاہتے ہیں، اگر سستی اور آرام دہ ٹرانسپورٹ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو حاصل ہوتی تو یقیناً اسے ہم عوام کی ترقی کا ایک حصہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ عوام بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنس کر سفر کرتے ہیں، چھتوں پر بیٹھتے ہیں، پائیدانوں سے لٹکتے ہیں۔ ٹرینوں کا حال یہ ہے کہ بوگیوں میں نہ واش روم کام کرتے ہیں نہ پنکھے چلتے ہیں، اس پر بھیڑ بھاڑ کا عالم یہ رہتا ہے کہ بوگیوں میں رش کی وجہ مسافروں کا سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔
ہر ترقی یافتہ شہر کی سڑکوں کا یہ حال ہے کہ جگہ جگہ سے یہ سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں اور کھڈوں کی وجہ ٹرانسپورٹ کا چلنا محال ہوتا ہے، کراچی جیسے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کے ہر علاقے میں سڑکوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ سڑکوں پر بمباری ہوئی ہے۔ عوام کی ٹرانسپورٹ اور شہروں کی سڑکوں کی بدتر صورتحال میں کیا ہم موٹروے کو ترقی کا نام دے سکتے ہیں؟ پانی، بجلی اور گیس عوام کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا حال یہ ہے کہ بے شمار صنعتیں ان کے قحط کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں اور لاکھوں مزدور بے کار ہو گئے ہیں، عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گرمی میں بھن رہے ہیں، گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں، کرپٹ ایلیٹ کو نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی پریشانی ہے، نہ گیس کی لوڈشیڈنگ کی۔ بجلی گیس کو چھوڑیے اب تو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا حصول بنا ہوا ہے، غریب طبقات 4-3 ہزار کا پانی کا ٹینکر نہیں لے سکتے، ان کا کیا ہو گا۔ اگر اسی کا نام ترقی ہے تو پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔
اصل مسئلہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے، ملکی بجٹ اور غیر ملکی امداد کے اربوں کھربوں روپے ایلیٹ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہے ہیں، 700 افراد دبئی میں جتنا سرمایہ رکھے ہوئے ہیں وہ سوئس بینکوں کے سرمائے سے دس گنا زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ ایلیٹ کلاس کے ملک کے اندر ملک کے باہر اربوں ڈالر ہیں اور اربوں مالیت کی جائیدادیں ہیں، اگر یہی ترقی کے ثبوت ہیں تو بلاشبہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ہے اور عوام غریب ہیں۔