گندم کی پیداوار رواں سال بھی ہدف سے کم رہنے کا امکان
مالی سال 2012-13 کے دوران گندم کی پیداوار24.3ملین ٹن پیداہوئی تھی، ذرائع
MIRPURKHAS:
پاکستان میں رواں سال بھی گندم کی پیداوارمقررکردہ ہدف 26ملین ٹن سے کم رہنے کاامکان ہے جبکہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بھی گندم کا ہدف مکمل نہیں کیا جاسکا تھا۔
اس وقت چاروں صوبوں سے موصول ہونے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق 25.2 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے جسے زرعی ماہرین بمپرکراپ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مالی سال 2012-13 کے دوران گندم کی پیداوار24.3ملین ٹن پیداہوئی تھی اورسال 2013-14کے دوران گندم کی پیداوار 25.29ملین ٹن تھی۔ ان دونوں سالوں کے دوران گندم کی پیداوار کا ہدف 26ملین ٹن ہی رکھا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے رواں سال کے دوران سرکاری طورپر6.6ملین ٹن گندم خریداری کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جب ملک میں گندم کی قیمیتیں کم اورعالمی مارکیٹ میں کم تھیں تواس وقت حکومت 7.5ملین ٹن گندم خریدتی تھی چونکہ اب گندم سمگل بھی نہیں ہوتی اورسرکاری گوداموں میں بھی وافرمقدارمیں موجودہے،اس لیے گندم کی خریداری کم کردی گئی ہے،اس میں سے پنجاب اوپن مارکیٹ سے 4.5ملین ٹین،سندھ 0.9 پاسکو0.8،خیبرپختونخواہ 0.3 اوربلوچستان0.1 ملین ٹن کی خریداری کریں گے۔
ذرائع کے مطابق رواں برس پاکستان بھرمیں 91 لاکھ 79 ہزار ہیکٹرعلاقے پرگندم کی فصل کاشت کی گئی،اس میں سے پنجاب میں69 لاکھ سندھ میں 11لاکھ، خیبرپختونخواہ میں 7لاکھ اوربلوچستان میں3لاکھ ہیکٹر علاقے پرکاشت کی گئی۔ پاکستان کے سرکاری ریکارڈ میں نئی فصل کی آمد پر بھی 3.5 ملین ٹن گندم ذخیرہ پڑی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں گندم کی سالانہ ضرورت 24 ملین ٹن ہوتی ہے اورگوداموں میں تازہ ترین رپورٹس کے مطابق 3.5ملین ٹن سرپلس پڑی ہے۔ زرعی ماہرین نے حکومت کوتجویزدی ہے کہ گندم کی کسی بھی شکل میں امپورٹ کو روکا جائے یااس پر پچاس فیصد ڈیوٹی عائدکی جائے۔ بصورت دیگرآئندہ سال کے دوران گندم سرپلس ہوجائیگی اورگندم کی قیمتیں کم ہوجائیںگی جس سے کاشتکاروں کونقصان ہوگا۔
ذرائع کے مطابق عالمی مارکیٹ میں بھی گندم کی قیمتیں260 ڈالر فی ٹن سے کم ہوکر 224 ڈالرفی ٹن ہوگئی ہیں جس نے پاکستان سے گندم کی ایکسپورٹ کوایک اور دھچکا لگایا ہے۔ حکومت کی کوششوں کے باوجودسرکاری گوداموں میں اتنی بڑی تعداد میں گندم کا موجود ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے جوسبسڈی دینے کے باوجودایکسپورٹ نہیں کی جاسکی۔اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں کم اورپاکستان میں زیادہ ہیں۔ ماضی میں قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے ہماری گندم افغانستان اور دوسری وسط ایشیائی ریاستوں میں اسمگل ہوجاتی تھی مگراب قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے معمول کے مطابق چھ لاکھ ٹن افغانستان جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق عموما جو فصل مقررہ وقت پربوئی جاتی ہے اس کی پیداوار اچھی ہوتی ہے مگر رواں سال جوپندرہ نومبرتک فصل کاشت کی گئی وہ بارشوں کی وجہ سے اچھی نہیں ہوئی اورجوپندرہ نومبر کے بعد بوئی گئی اس کی پیداوار کے نتائج سب سے بہتررہے ہیں۔
گندم کی عالمی قیمتوں میں کمی کا تسلسل جاری رہنے سے پاکستان میں گندم کی قیمتیں سپورٹ پرائس 1300روپے فی 40کلو گرام سے نیچے جاسکتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گندم کی ایف او بی پرائس روس اور یوکرین کے مقابلے میں 55سے 65 ڈالر فی ٹن زائد ہیں۔ پاکستان میں تمام اخراجات شامل کرکے گندم کی فی ٹن قیمت 275ڈالر اس کے مقابلے میں روسی فیڈریشن اور یوکرین کی گندم کی عالمی قیمت 210سے 220ڈالر ہیں۔ حکومت کی جانب سے اضافی پیداوار ایکسپورٹ کرنے کے لیے فی ٹن 90ڈالر کی سبسڈی کی ادائیگی کے باوجود عالمی منڈی سے فرق زائد ہونے کی وجہ سے فاضل مقدار برآمد نہیں ہوسکے گی جس سے گندم کی فنانسنگ کے لیے دیے گئے قرضے پھنسے کا اندیشہ ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق اس تناظر میں کاشتکاروں کے ساتھ ان کی پیداوار کی مسلسل پست قیمتوں کے جواب میں تعاون کرنا آسان کام نہیں۔ ایک طرف فاضل گندم کی دستیابی سے منڈی کے نرخ 1300روپے فی من کی امدادی قیمت سے بھی نیچے جاسکتی ہے، تو دوسری طرف ذخیرے کی دستیابی گنجائش کے باعث ممکنہ خریداری کا حجم محدود ہوگیا ہے، حتی کہ حکومت اگر بھاری مقدار میں گندم خرید بھی لے تو عالمی منڈی میں کم قیمتوں کی وجہ سے وہ فاضل مقدار برآمد نہیں کرسکے گی، اس طرح خاصی بھاری رقم گندم کی مالکاری (فنانسنگ) میں پھنسے کا خدشہ ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق دسمبر 2014 تک گندم کی خریداری کی مد میں جاری کردہ قرضوں کا حجم 363 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
امریکا کے محکمہ زراعت کے تخمینے کے مطابق سال 2014-15میں گندم کی عالمی پیداوار بڑھ کر 725ملین ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے جو گندم کی ریکارڈ پیداوار کا مسلسل دوسرا سال ہے۔ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں خشک موسم کی وجہ سے پیداوار کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تاہم یورپی یونین، سابقہ سویت یونین کی ریاستوں، بھارت اور چین میں گندم کی پیداوار مجموعی طور پر بہتر رہی اور ان ملکوں میں زیر کاشت رقبے اور فی ایکڑ پیداوار دونوں میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق 2014-15 میں غذا اور چارے کے طور پر گندم کا مجموعی استعمال 1.5ملین ٹن بڑھنے کی توقع ہے جس کے نتیجے میں گندم کے حالیہ ذخائر سیزن کے خاتمے تک بڑھ کر 197.9ملین ٹن تک پہنچ جائیں گے۔ سال 2012-13میں گندم کی عالمی پیداوار 658.5ملین ٹن، سال 2013-14میں 716.1ملین ٹن رہی تھی۔
پاکستان میں رواں سال بھی گندم کی پیداوارمقررکردہ ہدف 26ملین ٹن سے کم رہنے کاامکان ہے جبکہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بھی گندم کا ہدف مکمل نہیں کیا جاسکا تھا۔
اس وقت چاروں صوبوں سے موصول ہونے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق 25.2 ملین ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے جسے زرعی ماہرین بمپرکراپ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مالی سال 2012-13 کے دوران گندم کی پیداوار24.3ملین ٹن پیداہوئی تھی اورسال 2013-14کے دوران گندم کی پیداوار 25.29ملین ٹن تھی۔ ان دونوں سالوں کے دوران گندم کی پیداوار کا ہدف 26ملین ٹن ہی رکھا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے رواں سال کے دوران سرکاری طورپر6.6ملین ٹن گندم خریداری کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جب ملک میں گندم کی قیمیتیں کم اورعالمی مارکیٹ میں کم تھیں تواس وقت حکومت 7.5ملین ٹن گندم خریدتی تھی چونکہ اب گندم سمگل بھی نہیں ہوتی اورسرکاری گوداموں میں بھی وافرمقدارمیں موجودہے،اس لیے گندم کی خریداری کم کردی گئی ہے،اس میں سے پنجاب اوپن مارکیٹ سے 4.5ملین ٹین،سندھ 0.9 پاسکو0.8،خیبرپختونخواہ 0.3 اوربلوچستان0.1 ملین ٹن کی خریداری کریں گے۔
ذرائع کے مطابق رواں برس پاکستان بھرمیں 91 لاکھ 79 ہزار ہیکٹرعلاقے پرگندم کی فصل کاشت کی گئی،اس میں سے پنجاب میں69 لاکھ سندھ میں 11لاکھ، خیبرپختونخواہ میں 7لاکھ اوربلوچستان میں3لاکھ ہیکٹر علاقے پرکاشت کی گئی۔ پاکستان کے سرکاری ریکارڈ میں نئی فصل کی آمد پر بھی 3.5 ملین ٹن گندم ذخیرہ پڑی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں گندم کی سالانہ ضرورت 24 ملین ٹن ہوتی ہے اورگوداموں میں تازہ ترین رپورٹس کے مطابق 3.5ملین ٹن سرپلس پڑی ہے۔ زرعی ماہرین نے حکومت کوتجویزدی ہے کہ گندم کی کسی بھی شکل میں امپورٹ کو روکا جائے یااس پر پچاس فیصد ڈیوٹی عائدکی جائے۔ بصورت دیگرآئندہ سال کے دوران گندم سرپلس ہوجائیگی اورگندم کی قیمتیں کم ہوجائیںگی جس سے کاشتکاروں کونقصان ہوگا۔
ذرائع کے مطابق عالمی مارکیٹ میں بھی گندم کی قیمتیں260 ڈالر فی ٹن سے کم ہوکر 224 ڈالرفی ٹن ہوگئی ہیں جس نے پاکستان سے گندم کی ایکسپورٹ کوایک اور دھچکا لگایا ہے۔ حکومت کی کوششوں کے باوجودسرکاری گوداموں میں اتنی بڑی تعداد میں گندم کا موجود ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے جوسبسڈی دینے کے باوجودایکسپورٹ نہیں کی جاسکی۔اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں کم اورپاکستان میں زیادہ ہیں۔ ماضی میں قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے ہماری گندم افغانستان اور دوسری وسط ایشیائی ریاستوں میں اسمگل ہوجاتی تھی مگراب قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے معمول کے مطابق چھ لاکھ ٹن افغانستان جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق عموما جو فصل مقررہ وقت پربوئی جاتی ہے اس کی پیداوار اچھی ہوتی ہے مگر رواں سال جوپندرہ نومبرتک فصل کاشت کی گئی وہ بارشوں کی وجہ سے اچھی نہیں ہوئی اورجوپندرہ نومبر کے بعد بوئی گئی اس کی پیداوار کے نتائج سب سے بہتررہے ہیں۔
گندم کی عالمی قیمتوں میں کمی کا تسلسل جاری رہنے سے پاکستان میں گندم کی قیمتیں سپورٹ پرائس 1300روپے فی 40کلو گرام سے نیچے جاسکتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گندم کی ایف او بی پرائس روس اور یوکرین کے مقابلے میں 55سے 65 ڈالر فی ٹن زائد ہیں۔ پاکستان میں تمام اخراجات شامل کرکے گندم کی فی ٹن قیمت 275ڈالر اس کے مقابلے میں روسی فیڈریشن اور یوکرین کی گندم کی عالمی قیمت 210سے 220ڈالر ہیں۔ حکومت کی جانب سے اضافی پیداوار ایکسپورٹ کرنے کے لیے فی ٹن 90ڈالر کی سبسڈی کی ادائیگی کے باوجود عالمی منڈی سے فرق زائد ہونے کی وجہ سے فاضل مقدار برآمد نہیں ہوسکے گی جس سے گندم کی فنانسنگ کے لیے دیے گئے قرضے پھنسے کا اندیشہ ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق اس تناظر میں کاشتکاروں کے ساتھ ان کی پیداوار کی مسلسل پست قیمتوں کے جواب میں تعاون کرنا آسان کام نہیں۔ ایک طرف فاضل گندم کی دستیابی سے منڈی کے نرخ 1300روپے فی من کی امدادی قیمت سے بھی نیچے جاسکتی ہے، تو دوسری طرف ذخیرے کی دستیابی گنجائش کے باعث ممکنہ خریداری کا حجم محدود ہوگیا ہے، حتی کہ حکومت اگر بھاری مقدار میں گندم خرید بھی لے تو عالمی منڈی میں کم قیمتوں کی وجہ سے وہ فاضل مقدار برآمد نہیں کرسکے گی، اس طرح خاصی بھاری رقم گندم کی مالکاری (فنانسنگ) میں پھنسے کا خدشہ ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق دسمبر 2014 تک گندم کی خریداری کی مد میں جاری کردہ قرضوں کا حجم 363 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
امریکا کے محکمہ زراعت کے تخمینے کے مطابق سال 2014-15میں گندم کی عالمی پیداوار بڑھ کر 725ملین ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے جو گندم کی ریکارڈ پیداوار کا مسلسل دوسرا سال ہے۔ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں خشک موسم کی وجہ سے پیداوار کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا تاہم یورپی یونین، سابقہ سویت یونین کی ریاستوں، بھارت اور چین میں گندم کی پیداوار مجموعی طور پر بہتر رہی اور ان ملکوں میں زیر کاشت رقبے اور فی ایکڑ پیداوار دونوں میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ امریکا کے محکمہ زراعت کے مطابق 2014-15 میں غذا اور چارے کے طور پر گندم کا مجموعی استعمال 1.5ملین ٹن بڑھنے کی توقع ہے جس کے نتیجے میں گندم کے حالیہ ذخائر سیزن کے خاتمے تک بڑھ کر 197.9ملین ٹن تک پہنچ جائیں گے۔ سال 2012-13میں گندم کی عالمی پیداوار 658.5ملین ٹن، سال 2013-14میں 716.1ملین ٹن رہی تھی۔